الیکشن 2018ء: شہباز شریف بمقابلہ عمران خان

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پی ایم ایل ن کے صدر شہباز شریف

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پی ایم ایل ن کے صدر شہباز شریف

نیوز ٹائم

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکز لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اب صورتحال واضح ہے  کہ الیکشن 2018ء کا میدان جنگ پنجاب ہو گا اور مقابلہ دو طاقتور سیاستدان رہنمائوں میاں شہباز شریف اور عمران کے درمیان ہو گا، جبکہ دیگر پارٹیاں اور رہنما صرف بگاڑنے والوں کا کردار ادا کریں گے۔

 گزشتہ 10 برسوں میں خاص طور پر بینظیر بھٹو کی شہادت اور پنجاب میں پی پی پی کے زوال کے بعد عمران خان شریفوں کے لیے ایک طاقتور چیلنجر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 2013میں ان کی کارکردگی 2008ء کے مقابلے میں بری نہیں تھی لیکن ان کی امیدوں کے مطابق بھی نہیں تھی، لیکن پی ایم ایل (ن) کو ہلانے کیلئے کافی تھی۔ اس بار انھیں ایک فائدہ حاصل ہے کہ ایک شریف یعنی نواز شریف برطرف ہو چکے ہیں اور وہ شہباز شریف کو برطرف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جسے وہ ایک اچھا چیلجنر سمجھتے ہیں۔ یہ تبدیلی اور تسلسل کے درمیان، پنجاب میں خیبرپختونخوا میں کارکردگی کے درمیان، آزمائے گئے اور نہ آزمائے گئے لوگوں کے درمیان ایک دلچسپ مقابلہ ہو گا۔ یہ ایسے دو رہنمائوں کے درمیان بھی مقابلہ ہو گا جو غالباً محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا یہ آخری اور بہترین موقع ہے۔ یہ ایسے دو رہنمائوں کے درمیان مقابلہ ہو گا جو کچھ اختلافات کے باوجود ہمیشہ اپنی متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی پر زور دیتے ہیں۔  دونوں جارح مزاج اور محنتی ہیں اور متعلقہ حکومتوں پر نظر رکھتے ہیں ایک وزیر اعلی پنجاب ہے تو دوسرا خیبر پختونخوا کی حکمران پارٹی کا سربراہ ہے۔ یہ یقیناً مثبت علامت ہے کہ اگر پارٹیاں اور رہنما اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔

مثال کے طور پر اگر عمران خان دعوی کرتے ہیں کہ وزیرِ اعلی Parvez Khattak کی زیر ِقیادت ان کی حکومت پولیس، صحت، اور تعلیم کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں لائی ہے، مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا ہے اور ایک ارب درختوں کا کریڈٹ لیتے ہیں، Wright to Information کو بہتر بنایا گیا، تو ان کے مخالف وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اپنی کارکردگی کو سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے پراجیکٹس یعنی موٹروے اور میٹرو، انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے ذریعے لوڈ شیڈنگ کمی، امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے ذر یعے نمایاں کرتے ہیں۔ جہاں تک احتساب کا معاملہ ہے تو دونوں ایک آزاد صوبائی احتساب کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہے  لیکن عمران خان دعوی کر سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے20 ایم پی ایز کے خلاف انظباطی کارروائی کی ہے، جنھوں نے مبینہ طور پر پیسے لیے تھے۔

جبکہ شہباز شریف PTI کے چوہدری سرور کو ووٹ دینے والوں کے خلاف ایسی کارورائی کرنے میں ناکام رہے۔ پی ایم ایل (ن) ملک میں کراچی، فاٹا اور پنجاب میں بھی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا کریڈیٹ لیتی ہے، جبکہ عمران خان کریڈٹ لیتے ہیں کہ خیبر پختونخوامیں ایک بھی ماورائے عدالت قتل نہیں ہوا جبکہ پولیس مکمل طور پر غیر سیاسی رہی ہے۔ جبکہ دونوں خیبر پختو نخوا اور پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے برعکس، رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں بہتری لائے ہیں۔

کسی بھی جمہوریت کی طرح موجودہ حکومت میں بھی کچھ خامیاں ہیں اور اگر چیلنجر کو تاحال آزمایا نہیں گیا تو اکثر انھیں ایک متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے باعث عمران کو شہباز پر کچھ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر پنجاب کے لوگ یا اس کے ووٹرز شہباز شریف کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور وہ مقابلہ کرتے ہیں اور پارٹی بھی اصل حالت میں رہتی ہے تو PTI اور عمران خان 2013ء کی طرح ہی مشکلات کا شکار ہوں گے۔ لیکن 2013ء کے برعکس عمران خان اِن انتخابات میں اپنے حریفوں کی دو سب سے اہم وکٹیں لے کر حصہ لیں گے، یعنی نواز شریف اور خواجہ آصف دونوں کو تاحیات نااہل کر دیا گیا۔ جبکہ شہباز شریف اور پی ایم ایل( ن) کو خدشہ ہے کہ انھیں انتخابات میں برابری سے حصہ لینے کا موقع نہ ملے۔

عمران خان پنجاب میں شریفوں کے خلاف 2018ء میں سونامی دیکھ رہے ہیں لیکن ہفتے کو وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پی ایم ایل (ن) میں تاحال بڑے نام شامل ہیں،  ان کا خیال ہے کہ وہ PTI میں شامل ہو جائیں گے اور پی ایم ایل ضرور تقسیم ہو جائے گی۔ اس حوالے سے PTI  میں ہچکچاہٹ ہے۔ عمران جانتے ہیں کہ 2013ء میں کیا ہوا تھا، تنظیمی کمزوریوں، امیدواروں کا خراب انتخاب اور انتخابی سائنس میں ناتجربہ کاری میں کمی کے باعث وہ ہار گئے۔ اس کے باعث اب وہ اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اب وہ زیادہ ٹکٹیں منتخب شدہ امیدواروں کو دیں گے بالخصوص پی ایم ایل(ن) سے، جنھوں نے پانامہ بحران اور نواز شریف کی نااہلیت کے بعد PTI  میں شمولیت اختیار کی جبکہ کئی PPP سے رہنما بھی اب PTI  کی ٹیم کا حصہ ہیں۔

عمران خان کے لیے سب سے بڑا سیٹ بیک ان کے دائیں ہاتھ اور سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنما Jahangir Tareen کی نااہلیت تھی اور یہ ہی وجہ ہے کہ Jahangir Tareen تاحال پارٹی فیصلوں اور پارلیمنٹری بورڈکا حصہ ہیں لیکن بطور ایم این اے اپنا عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔  اگر سپریم کورٹ ان کے مضبوط اتحادی شیخ رشید کو بھی نااہل کر دیتی ہے تو عمران خان کیلئے یہ بھی ایک بڑا سیاسی نقصان ہو گا۔ عمران کو خود بھی عدالت کی جانب سے کلین چٹ ملی ہے اور صادق اور امین قرار پائے ہیں جبکہ شہباز شریف کو ماڈل ٹائون اور کچھ دیگر نیب کی انکوائریوں سے باہر نکلنا ہو گا۔ ان کے رہنما، بڑے بھائی اور پی ایم ایل (ن) کی طاقت نواز شریف نہ صرف تاحیات نااہل ہیں بلکہ اپنی بیٹی Maryam Nawaz اورSon in law  کیپٹن(ر) صفدر کے ہمراہ نیب عدالت میں بھی ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

صاف اور شفاف انتخابات سے عمران اور شہباز شریف کے درمیان، PTI  اور پی ایم ایل(ن) کے درمیان مقابلہ ہو گا  اور الیکشن 2018 ء اور پنجاب کے لیے جنگ 2013ء  کے مقابلے میں مزید دلچسپ ہو گی۔ ماضی کے برعکس پہلی بار شریف خاندان تمام مشکلات کے باوجود انتخابات میں حصہ لے گا۔  تاریخ ان کی حمایت میں نہیں ہے کیونکہ 1970ء کے بعد سے مرکز میں کوئی بھی پارٹی مسلسل دو بار انتخابات نہیں جیت سکی۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ یہ کے پی کے لیے بھی سچ ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ کون حیران کرے گا اور کون حیران ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply