لندن میں متحدہ قیادت کے اکاؤنٹ منجمد

ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین

ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

لندن میں میڑو پولیٹن پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ کے کئی بینک اکاؤنٹ منجمد کرتے ہوئے متحدہ قیادت کے خلاف ٹیکس نہ دینے کے الزامات کے تحت بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ منحرف متحدہ رہنما عمران فاروق کے قتل کیس میں کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربراہ حماد صدیقی کا بھی اہم کردار سامنے آیا ہے، جو اس وقت دبئی میں قیام پذیر بتائے جاتے ہیں۔ حماد صدیقی عمران فاروق کے قاتلوں کو کراچی سے بیٹھ کر کنٹرول کر رہے تھے۔ اس دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے پاکستانی میڈیا کے ذریعے جان کے خطرے کا واویلا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی کو خطرہ ہے تو پولیس سے رجوع کرے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے پاکستان میں موجود عمران فاروق قتل کیس کے ملزمان تک برطانوی رسائی رکوانے کے لیے گورنر سندھ عشرت العباد کو ٹاسک سونپ دیا ہے۔ انہیں اس سلسلے میں وزیر خزانہ اسحق ڈار کے ذریعے فوری رابطے کی ہدایت کی گئی ہے۔ متحدہ قائد نے اپنے بچاؤ کے لیے سابق وزیر داخلہ اور پی پی پی کے سینیٹر رحمان ملک سے بھی مدد مانگ لی ہے، جن کے برطانوی حکام سے اچھے تعلقات ہیں۔ گورنر سندھ اور رحمان ملک سے جمعرات کو الطاف حسین نے اس حوالے سے طویل ملاقات کی۔ تفصیلات کے مطابق قیادت کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ کے الزامات پہلے ہی زیر تفتیش ہیں اور اب ٹیکس چوری کے تیسرے مقدمے کی تفتیش شروع کی گئی ہے۔ ان کے متعدد اکاؤنٹ منجمد کر دیئے گئے ہیں، جن میں اطلاعات کے مطابق لاکھوں پاؤنڈز موجود ہیں، تاہم برطانوی حکام نے بند کیے گئے اکاؤنٹس میں موجود رقم کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ دسمبر 2012ء میں برطانوی پولیس نے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر سے ڈھائی لاکھ پاؤنڈ مالیت کی مختلف کرنسیان قبضے میں لی تھیں اور دو متحدہ رہنماؤں الطاف حسین کے بھتیجے افتخار حسین اور طارق میر کو گرفتار کیا تھا، جو ضمانت پر رہا ہیں۔ اس کے چھ ماہ بعد جون 2013ء میں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کے گھر چھاپہ مار کر وہاں سے بھی دو لاکھ 30 ہزار پاؤنڈ قبضے میں لیے تھے۔ برطانوی حکام اب ایم کیو ایم کے خلاف ٹیکس کی عدم ادائیگی سے متعلق تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔ اس دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ نے پاکستانی میڈیا میں متحدہ قیادت کے واویلے کا حوالہ دیئے بغیر بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی کی خواہش پر ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات پر نہیں بول سکتے۔ ترجمان نے پاکستان کے ساتھ رابطوں پر تبصرہ کرنے سے بھی انکار کیا اور کہا کہ عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش پر ہم کس سے بات کرنا چاہتے ہیں، یہ ظاہر نہیں کریں گے۔ الطاف حسین کی جانب سے جان کے خطرے کے واویلے کے حوالے سے اسکاٹ لینڈ یارڈ نے کہا کہ جس کی جان کو خطرہ ہے، وہ پولیس سے رابطہ کرے۔ مزید براں برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس نے جن دو ملزمان کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے ان تک رسائی دینے کی درخواست کی ہے۔ اس بارے میں دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کسی قسم کی برطانوی درخواست سے لا علمی کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی کے رابطے پر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ سے رجوع کریں۔ ایک ٹی وی نے وزارت داخلہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ عمران فاروق کیس میں مطلوب محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران کی گرفتاری کے حوالے سے انہیں علم نہیں، تاہم اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تعاون مانگا تو مدد کریں گے۔ کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات نے بتایا کہ دو افراد جن کی شناخت محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران کے ناموں سے کی گئی ہے، ان کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ کراچی پولیس کے پاس موجود نہیں ہے۔ اس سوال پر کہ کیا کبھی پاکستانی حکام نے ان دونوں افراد کی گرفتاری کے بارے میں کوئی بات کی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ یہ سوال تو حکام بالا سے کیا جانا چاہیے، لیکن کراچی پولیس کی حد تک وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کی کوئی گرفتاری ریکارڈ پر نہیں۔ دریں اثناء باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش میں متحدہ کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربراہ حماد صدیقی کا اہم کردار تھا، جو کراچی سے نگرانی کر رہے تھے۔ حماد صدیقی گزشتہ برس مئی کے عام انتخابات تک کراچی میں متحدہ کے سب سے اہم رہنما سمجھے جاتے تھے اور تنظیم کا دہشت گرد ونگ انہی کی قیادت میں کارروائیاں کرتا تھا۔ الیکشن کے بعد پارٹی میں اختلافات پیدا ہونے پر متحدہ قیادت نے انہیں دبئی بھجوا دیا تھا اور وہ اب دبئی میں قیام پذیر بتائے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کو شک ہے کہ عمران فاروق کیس میں حماد صدیقی کا مرکزی کردار تھا اور لندن قیادت کے حکم پر وہی قتل کی سازش کی کراچی سے نگرانی کر رہے تھے، جبکہ لندن میں قاتلوں کو ہدایات متحدہ کی مرکزی قیادت سے مل رہی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ حماد صدیقی کے بارے میں بھی برطانوی پولیس نے پاکستانی حکام سے معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کو یقین ہے کہ پاکستان کی طرف سے پانچ افراد اس سازش میں شریک تھے، جنہوں نے سازش میں عملی طور پر حصہ لیا، ان میں ویزوں میں مدد کرنے والے تاجر معظم علی خان، حماد صدیقی اور تین بزنس مین شامل ہیں۔ عمران فاروق پر حملے کی قیادت محسن علی سید کر رہا تھا، جو فروری 2010ء کو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے تقریباً سات ماہ قبل برطانیہ پہنچا اور یہاں ایک لینگویج کورس میں داخلہ لیا۔ ذرائع کے مطابق محسن علی سید انگلش لینگویج کورس کے لیے آیا تھا، اس کا دوسرا ساتھی کاشف خان کامران اس کی مدد کے لیے واردات سے تقریباً دس روز قبل برطانیہ پہنچا، جس کے بعد یہ دونوں افراد مل کر ڈاکٹر عمران فاروق کی لندن کے مختلف علاقوں میں نگرانی کرتے رہے۔ ان کے آپس میں متحدہ کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ ٹیلی فونک رابطوں کی تفصیلات بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جمع کرلی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے تقریباً ایک ہفتے قبل یہ دونوں ملزمان مقتول کے گھر کے قریب ایجویئر کے ویسٹ چرچ لین میں سازش کے تحت ایک پاکستانی کے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ سولہ ستمبر کو ان دونوں نوجوانوں نے ڈاکٹر عمران فاروق کو ان کے گھر کے بالکل سامنے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا۔ اس کے بعد ملزمان برطانیہ سے نکل گئے تھے، تاہم ملزمان کا ڈی این اے جائے وقوعہ سے مل چکا ہے، جو ان کے خلاف سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ واقعے کے تقریباً چھ عینی شاہدین موجود ہیں، جنہوں نے پولیس کو ملزمان کے خاک بنانے میں مدد دی ہے۔ ذرائع کے مطابق محسن علی سید اور کاشف خان کامران نے ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کرنے کے فوراً بعد کولمبو کی فلائٹ لی۔ کولمبو میں خالد شمیم نامی متحدہ کارکن نے جو کراچی میں واٹر بورڈ کا افسر بھی تھا، ان دونوں لڑکوں کو تین روز تک اپنے پاس رکھا اور پھر ان کے لیے کراچی جانے کے لیے ٹکٹ بک کرایا، تاہم ذرائع کے مطابق اس دوران پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی نظر میں بھی یہ معاملہ آگیا تھا۔ جب یہ دونوں افراد کراچی پہنچے تو ایئر پورٹ سے لاپتہ ہو گئے۔ بعض ذرائع کے مطابق انہیں پاکستانی اداروں نے حراست میں لے لیا تھا۔ بعد ازاں خالد شمیم بھی ان کی طرح کراچی سے لاپتہ ہو گئے۔

No comments.

Leave a Reply