اوکی ناوا کی جنگ، امریکا اور جاپان

اوکی ناوا کی جنگ،  امریکا اور جاپان

اوکی ناوا کی جنگ، امریکا اور جاپان

نیوز ٹائم

اوکی ناوا ایک جاپانی جزیرہ ہے جو مرکزی جاپان سے کئی سو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے مرکزی علاقے میں داخل ہونے کے لیے امریکہ اس جزیرے کو اپنا اڈا بنانا چاہتا تھا  جہاں سے امریکی جہاز اڑ سکیں اور رسد مہیا کی جا سکے۔ 1945 میں اتفاقاً اپریل فول ہی کے روز Okinawaکے ساحلوں پر امریکی فوجیں پہنچیں۔ دوسری جانب جاپان کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ ایک ایسا امریکی اڈا اس کے سر پر قائم ہو جہاں سے اس کے مرکزی شہروں کو نشانہ بنانا آسان ہو جائے۔ اس لیے سلطنت جاپان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مابین یہاں ایک بڑی جنگ کا ہونا کم و بیش یقینی تھا۔  امریکی اپنی سرزمین سے بہت دور تھے اور رسد و تحفظ کے لیے ان کی سپاہ کا بنیادی انحصار نیوی پر تھا۔  جاپانیوں کو یہ معلوم تھا اور اسی لیے امریکی نیوی ان کے نشانے پر تھی۔ انہوں نے امریکی نیوی کو بڑے پیمانے پر خودکش ہوائی جہازوں سے نشانہ بنایا۔  امریکیوں کو فلپائن میں جاپانیوں سے لڑتے ہوئے اس نئے طریقہ کار سے واسطہ پڑا تھا۔ جاپان کے خودکش حملہ آوروں Kamikazeکہا جاتا۔ سلطنت جاپان کا خصوصی یونٹ ان پر مشتمل تھا۔ یہ ہوا باز اسی مقصد کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔ انہیں یہ سوچ کر غیر معیاری جہاز بھی دیے جاتے کہ انہوں نے بالآخر تباہ ہی ہونا ہے۔

جاپانیوں کو Okinawaکی اہمیت معلوم تھی اور امریکیوں کو بھی احساس تھا کہ اس جزیرے کے دفاع کے لیے جاپانی بری، بحری اور فضائی تمام فورسز استعمال کریں گے۔ اسی لیے بحرالکاہل میں امریکی کمانڈر وائس Admiral Richmond Kelly Turnerنے جاپانی حملوں سے خبردار کرنے کا ایک نظام وضع کیا  جس کے تحت Okinawaکے ارد گرد مختلف پوائنٹس بنائے گئے جہاں امریکی ضروری ساز و سامان کے ساتھ موجود ہوتے  تاکہ بحری و فضائی حملے کی اطلاع بروقت مل سکے اور تیاری کر لی جائے۔ امریکیوں کے جاپان کے سر پر پہنچنے کے بعد بڑی تعداد میں جاپانیوں کی فوج میں بھرتی کی گئی۔ یہ جاپانی اپنے شہنشاہ اور وطن کے لیے مر مٹنے کے جذبے سے لبریز تھے۔ ان میں خودکش ہوا بازوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ ان کا کام تھا کہ اسلحہ سمیت امریکی بحری جہازوں سے ٹکرا جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔ Kamikaze چھوٹی کشتیوں پر بیٹھ کر بھی حملہ آور ہوتے تھے۔ ان کا نام  Kamikazeاس عظیم طوفان کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے جاپان پر حملہ آور Kublai Khan کے بحری بیڑے کو تہس نہس کر دیا تھا۔

1945 کے بہار کی آمد کے ساتھ جاپانیوں نے وائس ایڈمرل Matome Ugakiکی سربراہی میں Okinawaکا بھرپور دفاع کرنے کا منصوبہ بنایا اور وہ یہ بنایا گیا کہ سمندروں میں امریکی بیڑے پر Kamikaze اتنے حملے کریں گے کہ انہیں نانی یاد آ جائے گی۔ امریکیوں کی سپلائی رک جائے گی اور وہ Okinawa میں زمینی کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ منصوبے کے تحت جاپانیوں نے 4500  جہازوں کو بمباری اور خودکش حملوں کے لیے استعمال کرنا تھا۔ ان کے طریقہ کار میں ایک یہ تھا کہ Kamikaze پہلے 26 ہزار پائونڈ دھماکا خیز مواد کا اڑنے والا بم پھینکتے۔  یہ کسی پرانے کروز میزائل کی طرح تھا۔  پھر کچھ راکٹ داغنے کے بعد وہ تقریبا 650 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خود کو بحری جہاز سے ٹکرا دیتے۔ sیہ بڑی تباہی پھیلاتے اور امریکی ان سے خائف رہتے۔

البتہ Kamikaze ہمیشہ کامیاب نہ ہوتے۔ جاپان کے پاس دنیا کا سب سے بڑا Yamato-class battleships تھا۔ وہ ساتھی بحری جہازوں کی مدد سے ایسے ہی مرو یا مارو کے ایک مشن پر روانہ ہوا لیکن امریکیوں نے اسے ڈبو دیا۔ یہ جاپان کے لیے بہت بڑا نقصان تھا۔ Kamikaze کے اپنے آخری مشن پر روانگی سے قبل ایک تقریب ہوتی اور رسومات ادا کی جاتیں۔ بہت سے اپنے اہلخانہ اور دوستوں کو آخری خط لکھتے۔ ان کی اس حد تک برین واشنگ کی جاتی کہ انہیں اپنی جان کے جانے کی قطعاً پروا نہ ہوتی۔ Kamikazes نے امریکیوں کے بہت بڑے بڑے جہاز ڈبوئے تھے جن میں جنگی جہاز اور Carrieر شامل تھے۔ تاہم امریکی destroyer Hugh William Hadley سے ہونے والی لڑائی انتہائی وحشتناک تھی۔ اس کا نام 1942ء  میں ہلاک ہونے والے ایک امریکی نیوی آفیسر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ Hugh William Hadley کا وزن 2200 ٹن تھا اور اسے California میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے مارچ میں Okinawa کی طرف روانہ کیا گیا۔ اسی ماہ کے اختتامی روز اسے Okinawa کے قریبی چھوٹے جزائر نظر آنا شروع ہوئے اور ساتھ ہی جاپانی جہاز۔ اس نے ہراساں کرنے والے ایک جاپانی بمبار کو Okinawa پہنچنے سے قبل مار گرایا۔

یکم اپریل کو وہ Okinawa کے ساحل پر پہنچا۔ وہ اپنے ساتھ چلنے والے بحری جہازوں کی حفاظت کرتا رہا، سپاہ اور سامان کو اتارا، اور پھر واپس سمندر میں چلا گیا۔ اب اس کا کام یہ تھا کہ امریکی مداخلت کے خلاف جاپانی آبدوزوں کی کارروائیوں کو روکے۔ اس دوران Hugh William Hadley نے آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کو نشانہ بنایا۔ چند دنوں بعد Hugh William Hadley کے عملے کو اطلاع ملی کہ ان کے جنوب میں موجود ایک Destroyer Kamikazes نے ڈبو دیا ہے۔  Hugh William Hadley تنہا بہت دیر تک خودکش ہوائی جہازوں کو مقابلہ کرتا رہا۔ 11 مئی اس کے لیے بہت مشکل دن تھا جب جاپانیوں کے لگاتار حملے ہوئے۔ اسے خاصا نقصان پہنچا لیکن اسے ڈبویا نہ جا سکا۔ اس دوران اس نے 23 ہوائی جہاز گرائے۔ بعد ازاں اسے اس مقابلے پر انعام دیا گیا۔ Okinawa کی جنگ امریکا اور جاپان دونوں کو بہت مہنگی پڑی۔ بحرالکاہل میں ہونے والی یہ سب سے خونیں جنگوں میں سے تھی۔ اس کا اختتام جون کے اواخر میں ہوا۔ اس وقت تک ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ جاپانی اور امریکی مارے جا چکے تھے۔ مارے جانے والوں میں جاپانیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ Okinawa مہم میں 1500 جاپانی Kamikazeپائلٹ امریکی جہازوں کو نشانہ بنا کر مارے گئے۔ 29 امریکی بحری جہاز ڈوبے اور 120 کو نقصان پہنچا۔

No comments.

Leave a Reply