ایران اور اسرائیل نے جنگی طاقت کا جائزہ

مبصرین کے مطابق اسلحہ کی جدت اور جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اسرائیل کو ایران پر برتری حاصل ہے۔

مبصرین کے مطابق اسلحہ کی جدت اور جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اسرائیل کو ایران پر برتری حاصل ہے۔

نیوز ٹائم

جنگ کی صورت میں دونوں حریف ممالک میں کس کا پلڑا بھاری ہو گا؟ سنہ 1979ء میں ایران میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب میں  ایران نے مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کا نعرہ لگایا اور پوری قوت سے فلسطین کی حمایت اور ایران کے ساتھ دشمنی کی پالیسی اپنائی گئی۔ اسی عرصے میں ایران نے پاسداران انقلاب کے بیرون ملک Askari Wing القدس قائم کی۔ آج اس کے سربراہ جنرل Qasem Soleimani ہیں۔  یہ تنظیم اس وقت عراق، شام، یمن اور لبنان میں دوسرے شیعہ عسکری گروپوں کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے۔

سنہ 1985ء میں امریکا میں صدر Ronald Reagan کے دور میں ایران نے امریکا کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت اسرائیل کا تیار کردہ اسلحہ حاصل کیا۔ معاہدے کے تحت امریکا نے اسرائیلی میزائل ڈیفنس سسٹم ” Tao”  ایران کو دیا اور اس کے بدلے میں لبنان میں یرغمال بنائے گئے 5 امریکیوں کو بازیاب کرایا۔ تہران اور تل ابیب میں جاری محاذ آرائی  میں فارسی Sputnik’s websites کے فارسی ایڈیشن پر ایک رپورٹ شائع کی گئی  جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایران اور اسرائیل جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شام کا محاذ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا نیا اکھاڑا بن سکتا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران اسرائیل نے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انداز میں شام میں ایرانی اہداف پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری نے ایران اور صہیونی ریاست کے درمیان جنگ کے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ websites کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر Vladimir Mir Putin بہ خوبی اس تشویش سے آگاہ ہیں جو انہیں شام میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے امکانات کی صورت میں لاحق ہے۔  ایران اور اسرائیل کی باہمی لڑائی کے امکانات اس لیے بھی بڑھ رہے ہیں کہ بعض علاقائی قوتیں اور امریکا بھی مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے اثر ورسوخ پر تہران پر دبائو میں مسلسل اضافہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ العربیہ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے منڈلاتے خطرات کے تناظر میں دونوں ملکوں کی جنگی صلاحیت کا جائزہ لیا ہے جس کی تفصیلات درج ذیل ہے۔

اسرائیلی بری فوج کی ایران تک رسائی ناممکن:

روسی خبر رساں اداروں کے مطابق اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اسرائیل کی بری فوج کا ایران تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ ایسے میں جنگ فضائی حملوں اور میزائل حملوں تک محدود رہے گی۔ تاہم اس میں اسرائیلی نیوی شامل ہو جائے۔ ویب سائیٹ  Global Firepower کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران اور تل ابیب کے درمیان جنگ کے امکانات اور دونوں ملکوں کی دفاعی صلاحیت کا جائزہ لیا ہے۔ ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق ایران کی آبادی 8.2 ملین جبکہ اسرائیل کی آبادی 83  لاکھ یعنی ایک crore سے بھی کم ہے۔ ایران کا دفاعی بجٹ 6 ارب 30 کروڑ ڈالر جبکہ صہیونی ریاست کا دفاعی بجٹ 20 ارب ڈالر ہے۔

آئرن ڈوم سسٹم:

ایران کی باضابطہ فوج 534000 اہلکاروں پر مشتمل ہے جبکہ اسرائیل کی فوج کے اہلکاروں کی تعداد 170000 ہے۔ ایران کے پاس 1650 ٹینک اور اسرائیل کے پاس 2760 ٹینک ہیں۔ فضائی قوت کا جائزہ لیں تو ایران کے پاس 505 جنگی طیارے اور اسرائیل کے پاس 596 جنگی جہاز ہیں۔ ایران کے پاس 398 نیول اسکواڈ ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس 65 ہیں۔

اسرائیلی ایف 35 طیارہ:

ایران کے لیے اسرائیل کے خلاف زمینی جنگ شروع کرنا بھی مشکل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان عراق حائل ہے۔ اس طرح ایران کے لیے اسلحہ، بری فوج اور دیگر جنگی ساز و سامان براہ راست بری لڑائی کے لیے پہنچانا مشکل ہے۔ دوسری جانب اسرائیل بھی اپنی بری فوج ایران میں داخل نہیں کر سکتا۔  جنگ کی صورت میں اسرائیل، ایران کے اندر گہرائی تک میزائل اور فضائی حملوں پر توجہ مرکوز کرے گا۔ دوسری طرف ایران خطے میں اپنے اتحادیوں حزب اللہ اور حماس سمیت دیگر تنظیموں کو اسرائیل پر راکٹ حملوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اسرائیل کو بہت سے ممالک اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دیں گے جبکہ ایران کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو گا۔  ایران کے بیشتر جنگی طیارے زیادہ بلندی پر اڑنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

ایران کی دفاعی پیداوار:

ایران اپنے ہاں کئی جنگی ہتھیار تیار کرتا ہے۔ اس کے اپنے اسلحہ میں HESA Azarakhsh جنگی طیارے، Saegheh اور Trinidad جیسے جہاز ہیں۔  یہ سنہ 1980ء اور 1990ء کے پرانے ماڈل کے مطابق تیار کیے گئے ہیں۔ اسرائیل کے پاس 100 سے 500 تک وار ہیڈز موجود ہیں جن 50 ہزار میگا ٹن طاقت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے 1989ء میں جریکو b2 نامی ایک بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا  اور اس کے بعد یہ ہتھیار اس کے اسلحہ میں شامل ہے۔

ایرانی فوج کے F-4 Phantom طیارے۔

Sputnik website کے مطابق اسرائیل نے Jericho B2 missiles میزائلوں سے ایران میں متعدد بار اہداف کو نشانہ بنایا گیا  تاہم ان اہداف اور حملوں کی تاریخ واضح نہیں۔ حالیہ چند برسوں کے دوران ایران میں بعض حساس نوعیت کی تنصیبات پر حملوں کی خبریں آتی رہی ہیں۔  ایران نے ان حملوں کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی مگر اسرائیل نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اسرائیل کے پاس جوہری وارہیڈ جانے کی صلاحیت کے حامل جنگی طیارے اور Iron Dome جیسا میزائل ڈیفنس سسٹم موجود ہے  جو حزب اللہ اور حماس کے راکٹوں کے بچائو کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

مبصرین کے مطابق اسلحہ کی جدت اور جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اسرائیل کو ایران پر برتری حاصل ہے۔

No comments.

Leave a Reply