آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کے بھارتی رابطوں کی تحقیقات شروع

سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی اور سابق را کے چیف اے ایس دولت

سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی اور سابق را کے چیف اے ایس دولت

راولپنڈی ۔۔۔ نیوز ٹائم

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹنینٹ جنرل (ر) Asad Durrani  کا نام ای سی ایل میں ڈالتے ہوئے ان کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ قبل ازیں بھارت میں شائع متنازع کتاب پر Asad Durrani  کی جی ایچ کیو میں طلبی ہوئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق معاملے کی مکمل تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری تشکیل دے دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق Asad Durrani  ”Raw” چیف اے ایس Dulat کے ساتھ مل کر لکھی گئی کتاب ” The Spy Chronicles ” میں خود سے منسوب خیالات سے عسکری حکام کو مطمئن نہ کر سکے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف بیرون ملک صرف Raw کے سابق سربراہ ہی نہیں بلکہ بھارت کے دیگر افراد سے بھی ملتے رہے۔ اسد درانی کے بھارتی رابطوں سے متعلق بھی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں جبکہ وزیر اعظم نے آج قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس درانی پیر کو جی ایچ کیو میں پیش ہوئے، جہاں ان سے سابق Raw کے ساتھ مل کر متنازع کتاب لکھنے پر وضاحت مانگی گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر General Asif Ghafoor نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کو حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ” The Spy Chronicles میں خود سے منسوب خیالات کی وضاحت کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا گیا تھا۔ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک حاضر سروس جنرل کی سربراہی میں کورٹ آف انکوائری تشکیل دے دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے سابق آئی ایس آئی سربراہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے وزارت داخلہ اور ایف آئی اے سے رابطہ کیا گیا۔ پاک فوج نے اسد درانی کے سابق بھارتی Raw کے ساتھ کتاب کی اشاعت پر سخت الیکشن لیتے ہوئے انہیں گزشتہ روز ذاتی حیثیت میں جی ایچ کیو راولپنڈی میں طلب کیا تھا۔ اس موقع پر اسد درانی سے کتاب لکھنے پر پوچھ گچھ کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد درانی بیرون ملک صرف اے ایس Dulat ہی نہیں بلکہ بھارت کے دیگر افراد سے بھی ملتے رہے۔ تحقیقات کے دوران اس بات کی چھان بین کی جائے گی کہ ان رابطوں کی نوعیت کیا تھی۔ ذرائع کے مطابق اب تک اسد درانی کی جانب سے رابطوں کو Track to Diplomacy کا حصہ قرار دیا جاتا رہا ہے اور ٹریک ٹو کی پشت  پناہی امریکہ کی جانب سے کی جا رہی ہے، تاہم اسد ددرانی کی جانب سے بھارتی خفیہ ایجنسی کے ساتھ سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھے جانے اور بھارتی بیانے کی تائید نے پاکستانی حکام میں تشویش پھیلا دی ہے۔ ذرائع کے مطابق پیر کو جی ایچ کیو میں اس درانی سے اس ھوالے سے سوالات کیے گئے، تاہم وہ بھارت کے ساتھ اپنے رابطوں اور پھر بھارتی موقف کے حق مین کتاب لکھنے کی کوئی قابل قبول توجیہ پیش نہ کر سکے۔ جنرل اسد درانی کو ی ایچ کیو طلب کیا جانا جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس پالیسی کا حصہ ہے،  جس کے مطابق کوئی بھی شخص ملک اور قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے کسی سابق سربراہ کے خلاف ایسا قدم اٹھایا گیا ہے۔

اسد درانی 1990ء سے 1992ء کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ گزشتہ ہفتے ان کی کتاب ” The Spy Chronicles ”: Raw،  ISI and the Illusion of Peace ” جاری ہوئی، جو انہوں نے روایتی حریف بھارت کی خفیہ ایجنسی Raw کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ اس کتاب میں درانی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کئی مبینہ دھماکہ خیز دعوے کئے گئے ہیں۔ کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ پاکستان نے معاہدے کے تحت اسامہ بن  لادن کو پکڑوایا جبکہ مبینہ طور پر جلد بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بھی چھوڑ دیا جائے ۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر جنرل (ر) اسد درانی ملٹری کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے تو ان کے  خلاف آفیشل سیکڑیٹ ایکٹ 1923ء کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ایس ایکٹ میں تبدیلی کی گئی تھی، جس کے بعد فوج کو کسی سویلین کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923ء کے تحت عمر قید اور سزائے موت سمیت مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ ڈی جی ایس پی آر میجر General Asif Ghafoor نے 25 مئی کو جاپنے پیغام میں بتایا تھا کہ جنرل اسد درانی کو 28 مئی کو جی ایچ کیو طلب کر لیا گیا ہے۔ جہاں پر ان کی  کتاب میں شائع ہونے والی باتوں سے متلعق انکوائری کی جائے گی اور انہیں ملٹری کوڈ آف کنڈکت کی خلاف ورزی پر پوزیشن واضح کرنا ہو گی، کیونکہ اس کا اطلاق تمام حاضر اور ریٹائرڈ اہلکاروں پر ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ معاملہ ایک ایسے وقت پر منطر عام پر آیا ہے کہ جب کچھ روز سابق وزیر اعظم نواز شریف نے یہ کہہ کر ملک میں دھماکہ مچا دیا تھا کہ 2008ء میں ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر غیر ریاستی عناصر ملوث تھے۔ بعد ازاں نواز شریف نے اس درانی کی کتاب کا معاملہ بھی اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ اس پر قومی سلامتی  کونسل میں بات کی جائے۔ دریں اثنا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس آج طلب کر لیا ہے۔ اجلاس میں ملکی سلامتی اور سرحدی سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر اسد درانی کی کتاب کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ علاوہ ازیں اس درانی نے وضاحت کی ہے کہ ان کا سوشل میڈیا پر کوئی اکائونٹ  نہیں۔ ان کے نام سے جعلی اکائونٹ پر متعدد ٹویٹس کئے گئے تھے۔  اسد درانی مبینہ طور پر عسکری اداروں کا ماضی کا غلط امیج پیش کیا۔ اس کا اصل فائدہ بھارت اٹھائے گا جبکہ نواز شریف کے بیانیے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے بھارت میں تو کچھ خاص نہیں ہوا، تاہم پاکستان مین بھونچال آیا ہوا ہے۔

No comments.

Leave a Reply