سندھ طاس معاہدہ خطرے میں

متنازعہ کشن گنگا ڈیم

متنازعہ کشن گنگا ڈیم

نیوز ٹائم

کشن گنگا ہائیڈرو پروجیکٹ سے متعلقہ امور حل کرنے میں ناکامی اس وقت ظاہر ہو گئی  جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 19 مئی 2018ء کو مقبوضہ کشمیر میں Kishanganga Hydroelectric Plant کا افتتاح کر دیا ہے۔ افتتاحی تقریب کے فوراً بعد پاکستانی حکام نے عالمی بینک کے دروازے پر دستک دی اور بھارت کی جانب سے نچلی سطح کے Spillwayas اور پلانٹ آپریشنز پر عائد پابندیوں سے متعلقہ فنی معاملات حل کئے بغیر منصوبے کے افتتاح کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔ عالمی بینک نے چیئرمین کی تقرری ثالثی عدالت کے قیام کیلئے معاملہ موخر کر دیا۔ پاکستان نے ثالثی عدالت میں ایشوز حل کرنے کیلئے استدعا کی تھی جبکہ بھارت نے دسمبر 2016ء میں غیر جانبدار ماہر کی تقرری کیلئے درخواست کی تھی۔ عالمی بینک نے دونوں ملکوں کے مفاد میں Indus Wate Treatyکا بظاہر تحفظ کرنے کیلئے معاملہ کو موخر کیا۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہ کے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ بھارت اور پاکستان کو Kishanganga سے متعلقہ ایشوز احسن طریقے سے طے کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے لیکن بھارت نے معاملہ موخر ہونے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیزائن پر تبدیلیاں کئے بغیر پراجیکٹ مکمل کر لیا جس سے تنازع مزید بگڑ گیا۔  عمومی طور پر یہ غلط تاثر پایا جاتا ہے کہ بینک معاہدے کا ضامن یا Guarantee ہے لیکن یہ تاثر درست نہیں کیونکہ بینک کا معاہدہ سے متعلقہ کوئی متعین کردہ کردار نہیں۔ اس کا کردار محدود نوعیت کا ہے۔  وہ غیر جانبدار ماہر کی تقرری کرنے کے علاوہ ثالثی عدالت کے قیام اور اس کے چیئرمین کی تقرری کا فریضہ انجام دیتا ہے۔  عالمی بینک کا یہ رول صرف اس وقت کیلئے متعین کیا گیا ہے جب دونوں ممالک یا فریقین کسی سمجھوتے تک نہ پہنچ سکے ہوں۔  دونوں ملکوں نے اس تنازع کو حل کرنے کیلئے مختلف نوعیت کے آپشنز تجویز کئے۔  اس ضمن میں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس قسم کا سوال پہلے زیر بحث آ چکا ہے اور ثالثی عدالت نے Kishanganga جزوی ایوارڈ میں اس کا تصفیہ کر دیا تھا۔

بھارت کا موقف محض دھوکے اور ہیر پھیر پر مبنی ہے۔ پاکستان نے جن ایشوز کے بارے میں قابل اطلاق طریقے کار کے سلسلہ میں جن شبہات کا ذکر کیا بھارت اس ضمن میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں پیش کر سکا۔ وہ کبھی انکار کرتا ہے اور کبھی اقرار۔ وہ اپنے موقف کو الفاظ کے ہیر پھیر سے پیش کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ٹیکنیکل ایشوز مستقل انڈس کمیشن کی سطح پر غیر جانبدار ماہر کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ بھارت کے مطابق Kishanganga Project معاہدہ کے متعین کردہ امور و معاملات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ بعض فنی ایشوز ثالثی عدالت میں قابل سماعت نہیں کیونکہ ایسے معاملات صرف غیر جانبدار ماہر ہی نبٹا سکتا ہے۔ جزوی ایوارڈ میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ کمیشن پر مسلسل اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ دونوں فریقوں پر کوئی اختلاف ہی موجود نہیں ہے۔ اس لئے بھارت اب یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ دوسرا تنازع درحقیقت ایک اختلافی نوعیت کا ہے۔  معاہدہ کا مسودہ تیار کرتے وقت دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کو پیش نظر رکھا گیا ہے اس لئے معاہدہ کے دیباچہ پر زور دیا گیا ہے کہ معاہدہ کی تشریح اب قابل اطلاق ہونے بارے رکھنے والے سوالات کو تعاون کے جذبہ سے حل کیا جائے گا۔  اس مقصد کیلئے معاہدہ میں ایک جامع فریم ورک موجود ہے تاکہ عدم اتفاق سے متعلقہ امور کا مقصد حاصل ہو سکے۔  معاہدہ کے دوران تنازع اور تصفیہ کے Mechanism کو تفصیل سے زیر بحث لایا گیا۔

اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ ثالثی عدالت فنی نوعیت کے سوالات کا جائزہ لے سکتی ہے اس ضمن میں کوئی پابندی نہیں۔ بھارت کی جانب سے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی درخواست انتہائی آخری مراحل میں کی گئی۔ اس وقت ثالثی عدالت قائم کرنے کا عمل کم و بیش مکمل ہو چکا تھا۔ بھارت کی اس درخواست کو طریقہ عمل کی اس رکاوٹ کے ذریعے سارے عمل کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔  معاہدے کا آرٹیکل IX(1) انتہائی واضح طور پر اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ ثالثی عدالت کی تشکیل کے ذریعے معاہدے کی تشریح یا اطلاق سے متعلقہ کسی سوال کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ عالمی بینک کا ایک متعین کردار ہے لیکن اس مخصوص معاملے میں اس کا Conduct Agreement کے پورے عمل کو یقینی طور پر خطرے میں ڈالنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں 18 ماہ تک ایک معاملے کو لٹکائے رکھنا یا موخر کر دینے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ بھارت سے کسی قسم کا اس عرصہ کے دوران وعدہ بھی نہیں لیا گیا کہ وہ تمام ایشوز حل ہونے تک منصوبے پر کام روک دے گا۔

Kishanganga Project /  River Neelum کے پانیوں کا رخ 23 سے 24 کلومیٹر طویل سرنگ کے ذریعے روکنے کا معاملہ ہے۔ پاکستان اس پانی کو چکوٹھی کے مقام پر کنٹرول لائن عبور کرنے کے بعد حاصل کر سکتا ہے۔  اگرچہ پانی کے بہائو کی مقدار اس عمل کے دوران بری طرح متاثر ہوتی ہے  لیکن River Neelum کے پانی کا رخ موڑنے سے ماحولیات کے علاوہ وادی Neelum کے لوگ بری طرح متاثر ہوئے۔ اس وادی کے باسیوں کا گزر بسر اس دریا پر منحصر ہے جو اب ان کے پائیدار معاشی ارتکا میں مددگار رول ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔  قدرتی وسائل کے اس ضیاع سے عدم مساوات کی خلیج اور گہری ہو گی۔ غربت کے خاتمے کے منصوبے متاثر ہوں گے اور تنازعہ بڑھتا چلا جائے گا۔  ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا کہ کنٹرول لائن کی دوسری طرف بھی شکوک و شبہات اور عدم اطمینان پایا جاتا ہے کیونکہ Kishanganga سے پیدا ہونے والی 88 فیصد بجلی قومی گرڈ میں شامل ہو گی۔

بھارتی ماہرین نے اس منصوبے کو معاشی اعتبار سے موزوں قرار نہیں دیا لیکن Kishanganga بھارت کے نئے Strategic منصوبے کا حامل ہے  کیونکہ اس سے بھارت کو علاقے پر اپنے غیر قانونی قبضے کا جواز ملے گا اور جمہوں و کشمیر کے وسائل پر اس کا تسلط مزید بڑھ جائے گا۔ اس منصوبے کا کچھ بھی مقصد ہو اور اس مقصد کی اخلاقی بنیادیں کیسی بھی ہوں، بھارت بین الاقوامی قانون کے تحت اس امر کا پابند ہے  کہ وہ اپنے منصوبوں کا ڈیزائن اور پلانٹس چلانے کا عمل اس انداز سے ترتیب دے کہ جس سے پاکستان کے مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔

پاکستان کو بروقت کارروائی نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسے مغربی دریائوں پر بھارتی ڈیموں کے ذریعے بڑی مقدار میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے سلسلہ میں بلاجواز ردعمل کا مورد ِالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ بھارت کے اس عمل سے دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ رہی ہے۔ بیرونی سٹیک ہولڈرز کے لئے لازم ہے کہ وہ دونوں ملکوں کو تعاون کی راہ پر گامزن کرنے کی غرض سے ٹھوس اور تیز کوششیں کریں۔  Indus Wate Treaty کے دیباچے میں جن اہداف اور مقاصد کا تذکرہ کیا گیا ہے ان سے دونوں فریقوں کی ٹھوس وابستگی کا اظہار کرنے کا اس وقت اہم تقاضا ہے۔  موسم کے بدلتے ہوئے رنگ اور پانی کی قلت دونوں ملکوں کے عوام کے گزر بسر سماجی اور اقتصادی ارتقاکے لئے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔

فطرت کی قوتیں اب دونوں پڑوسیوں کو اس امر پر مجبور کر رہی ہیں کہ امن کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت محسوس کریں کیونکہ صرف اسی صورت ماحول کی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔ بینک کو جانبدارانہ رویہ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اسے عالمی بینک کے اداروں میں ووٹنگ پاور کے اعتبار سے ساتواں درجہ حاصل ہے۔ عالمی اداروں میں امریکہ کے ساتھ بھارت پالیسی اور فیصلہ سازی کے عمل پر سیاسی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ امریکہ کو ووٹنگ میں نمبر ون کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم بینک کو ذاتی وابستگیوں سیاسی میل ملاپ اور اپنے وسیع تر کاروباری مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے اور اس صورتحال کے خاتمہ کے لئے کوئی حل تجویز کرنا چاہئے۔  اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو عالمی اداروں کو ناموافق ورثہ چھوڑ کر جانے کے لئے اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ متعلقہ Kishanganga   ثالثی عمل پر حکومت پاکستان کی لیگل کوشش نہیں۔

No comments.

Leave a Reply