ظلم اور سفاکی میں شہرت پانے والے15 بدترین مطلق العنان حکمران

ظلم اور سفاکی میں شہرت پانے والے15 بدترین مطلق العنان حکمران

ظلم اور سفاکی میں شہرت پانے والے15 بدترین مطلق العنان حکمران

نیوز ٹائم

جب ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مختلف خطوں پر حکمرانی کرنے والوں میں چند حکمران ایسے بھی تھے  جن کو اقتدار و اختیار کے نشے نے اکثر ایسا مدہوش کیا کہ وہ ظالم و جابر بن بیٹھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی مفادات کے اسیر تھے۔ ان کی اسی خود غرض سوچ نے انہیں اپنے اقتدار کی طاقت کے بے رحمانہ استعمال پر اکسایا اور وہ اپنی ذات کی تسکین اور مقاصد کی تکمیل کے لیے انسان سے درندے بن گئے اور یوں بے شمار انسانی جانوں کے ضیاع اور بے اندازہ تباہی و بربادی کا باعث ثابت ہوئے۔ جبکہ دوسری جانب ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جو ایسے لوگوں کے برعکس اپنے عوام کے لیے باعث رحمت ثابت ہوئے۔ ان میں سے کچھ لیڈر تو وہ تھے جو اپنے عوام کی زندگیوں میں بہتری، آسانی اور آسائش لانے کے لیے ہمیشہ ہی کوشاں رہے۔ آج ہم ان صاحبان اختیار کا تذکرہ اپنے قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو اپنے ظلم کی وجہ سے دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

-1 ہیراڈ اعظم (Herod the Great)

یہ وہی ہیراڈ اعظم ہے جس کا ذکر Holy Bible میں بھی موجود ہے اور جس کی وجہ شہرت اپنی جان بچانے کے لیے نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کروانے اور Hazrat Isa AS کو شہید کروانے کی کوشش کرنے کے حوالے سے ہے۔  73 قبل از مسیح میں فلسطین میں پیدا ہونے والا Herod یک ظالم حکمران تھا۔ قدیم انسانی تاریخ کے ماہر جوزفس (Josephus) نے اس کے مظالم کے بے شمار واقعات رقم کیے ہیں۔ اس ظالم شخص نے اپنے ہی 3 بیٹوں اور اپنی 10 بیویوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ بیوی کو بھی قتل کر دیا تھا اور اسی پر بس نہیں،  اس نے اپنے دور کے اعلی حکام کو پانی میں ڈبو کر مار ڈالا۔  اس کے علاوہ وہ اپنی ساس اور اپنے انکل کے قتل میں بھی ملوث مانا جاتا ہے۔

2 ۔ نیرو (Nero)

روم کا یہ بدنام زمانہ حکمران ایک لے پالک بچہ تھا۔ جب اس کے باپ کی وفات ہوئی تو وہ بادشاہ بنا۔ تخت سنبھالنے کے بعد شروع شروع میں اس نے اپنی ظالمانہ فطرت کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا،  لیکن اقتدار کے ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں ایک اشتعال انگیزی کی سی کیفیت بڑھنے لگی۔ سب سے پہلے اس نے اپنی ماں ایگریپینا دی ینگر (Agrippina The Younger) کو قتل کیا۔ بعد ازاں کچھ عرصے بعد ہی اس نے اپنی دونوں بیویوں کو بھی باری باری قتل کر دیا۔  آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ اس نے پورے روم کو آگ لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ پرانے شہر کی جگہ پر ایک نیا شہر بنا سکے۔ یہ آگ دی گریٹ فائر آف روم کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو Nero آرام سے بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ وہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے روم کے بچ جانے والے شہریوں پر ہی آگ لگائے جانے کی سازش کا الزام لگا دیا اور ان پر مقدمات چلانے کے بعد عوام کو شدید تشدد کروا کے مروا دیا۔ اس کی یہ ذہنی کیفیت بالآخر اتنی بڑھی کہ اس نے خودکشی کر کے اپنی بھی جان لے لی۔

-3 پوپ الیگزینڈر ششم (Pope Alexander VI)

پوپ دنیا بھر میں عیسائیوں کا سب سے بڑا روحانی پیشوا مانا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے تاریخ میں اس منصب پر کئی ایسے لوگ بھی فائز رہے جو ظلم و ستم میں اپنی مثال آپ تھے۔ مگر ان سب میں بلاشبہ Pope Alexander VI سب سے نمایاں ہے۔ وہ 1431ء میں پیدا ہوا اور اس کی Pope کا زمانہ1492- تا 1503ء  ہے۔ وہ عیسائیت کے عدم تشدد اور روا داری کے اصولوں پر کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا تھا۔ بلکہ وہ اپنے نظریات کے اعتبار سے انتہائی سیکولر تھا، اس نے اپنے مرتبے کی طاقت کو اپنے لالچ پورے کرنے کے لیے بے دردی سے استعمال کیا۔ اس کا ایک مخصوص طریقہ واردات یہ بھی تھا کہ وہ اپنی خوبصورت بیٹی لوکریزیا (Lucrezia) کی شادی کسی امیر آدمی سے کر دیتا اور اسے خوب جہیز بھی دیتا۔ بعدازاں وہ اس شادی کو بحیثیت پوپ منسوخ کر دیتا، حالانکہ رومن کیتھولک عیسائیوں کے نزدیک طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے۔پھر کچھ عرصے بعد وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ کسی امیر آدمی سے بیاہ دیتا۔ وہ تقریبات منعقد کرنے کا بھی بہت شوقین تھا۔ رقص و سرور اور رنگ رلیوں سے بھر پور یہ تقریبات آہستہ آہستہ قدیم یونانی دیوتائوں کی پرستش کی رسومات کے لیے کی جانے والی تقریبات کا رنگ اختیار کرتی گئیں، جن میں خوب موج مستی کی جاتی تھی۔ انہی تقریبات میں شریک ہونے والے امرا کی ناجائز دولت کو وہ اپنے اختیارات کے تحت ضبط کر کے اپنی پرتعیش زندگی کے لیے استعمال میں لاتا۔ اس پوپ کا انجام بھی بالآخر عبرتناک ہوا اور اس کو دھوکے سے زہر دے کر قتل کر دیا گیا۔

-4 کلیگولا (Caligula)

یہ لفظ Caligula بنیادی طور پر بے رحمی، جنون و پاگل پن اور شیطانیت کا مترادف ہے۔ Caligula نامی یہ Rome بادشاہ انتہائی خود پسند تھا۔ اور اس نے خدائی کا دعوی بھی کیا تھا۔ یہ شخص کسی بھی معاملے میں محض شک کی بنیاد پر کسی کو بھی قتل کر دیا کرتا تھا۔ اس نے اپنی بہنوں کے ساتھ شادیاں رچائیں۔ نیز دوسروں کی بیویوں کو ورغلا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اوپر سے وہ بہت شیخی خور بھی تھا۔ اس کا زمانہ 37 تا 41 بعد از مسیح کا ہے۔ اس کا سلسلہ نسب عظیم Rome بادشاہوں سے ملتا ہے۔ یہ اپنا خزانہ قیمتی اور شاہانہ چیزوں پر خرچ کر دیتا جبکہ اس کی رعایا ننگ و بھوک سے مر رہی ہوتی تھی۔ یہ اتنا بے رحم تھا کہ رات کے کھانے کے دوران کسی زندہ انسان کو آرے سے چرتے ہوئے دیکھنا اس کی بہترین تفریح تھی۔ اس بادشاہ کی مطلق العنانی کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنے گھوڑے کو سینیٹر نامزد کر دیا تھا۔ ایک جنگ کے دوران اس نے اپنی ساری فوج کو سمندر میں جھونک دیا۔ یاد رہے کہ یہ نام نہاد جنگ ایک یونانی دیوتا نیپچون (Neptune) کے خلاف لڑی جا رہی تھی۔

-5 کنگ جان (King John)

کنگ جان کو باآسانی انگلستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ظالم بادشاہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ 24 دسمبر 1166ء کو پیدا ہوا اور 19 اکتوبر 1216ء  کو وفات پائی۔ وہ 1199ء  سے لے کر اپنے انتقال تک تخت نشین رہا۔ بادشاہت کے حصول کے لیے اس نے اپنے ہی بھائی کے خلاف فرانس کے بادشاہ کے ساتھ مل کر سازش کی۔ جب اس کے مخالفین نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں قلعے میں قید کروا کر بھوکا پیاسا مار دیا۔ اس نے بادشاہ بننے کے بعد ایک بہت بڑی بری و بحری فوج تشکیل دی اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بھاری محصولات عائد کئے،  معززین کی جائیدادیں ضبط کر لیں اور امرا کو قید میں ڈال کر ان پر تشدد کے ذریعے ان کی دولت ہتھیا لی۔ بالآخر 1216ء میں وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے گزر گیا۔

-6 میکسیمیلین روبسپیار (Maximilien Ro Bespierre)

یہ شخص 1789ء  میں بپدا ہونے والے فرانسیسی انقلاب کا سب سے اہم معمار تھا اور بعد از انقلاب قائم ہونے والی حکومت میں سب سے بڑا لیڈر مانا جاتا تھا۔ انقلاب کے دوران Ro Bespierre مسلسل بادشاہت کے خلاف پرچار کرتا رہا۔ وہ طبقہ اشرافیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کرتا تھا۔ 6 مئی 1758ء کو پیدا ہونے والا یہ شخص، ایک ماہر قانون اور سیاستدان تھا جو بڑی بے جگری کے ساتھ غریب عوام اور جمہوریت کے حق میں آواز بلند کرتا تھا۔  انقلاب کے بعد اس کو عوامی تحفظ کی کمیٹی کا ممبر منتخب کیا گیا۔ لیکن اس عوام اور جمہوریت دوست انسان نے 300000 انقلاب دشمنوں کو گرفتار کر کے ان میں سے 17 ہزار افراد Gluten کے ذریعے گردنیں کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس نے اس ہی پر بس نہیں کیا بلکہ دشمن قرار دیئے جانے والوں کے خاتمے کے بعد بھی یہ مسلسل مزید پھانسیوں کا مطالبہ کرتا رہا۔ اس کے اسی رویے کے باعث اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس کی گردن بھی گلوٹین کے ذریعے ہی مار دی گئی۔

-7 چنگیز خان (Genghis Khan)

چنگیز خان کے نام سے کون واقف نہیں؟ یہ نام دنیا بھر میں ظلم و بربریت کا ستارہ سمجھا جاتا ہے۔ Genghis Khan کا اصل نام Temüjin تھا۔ وہ 1162ء میں پیدا ہوا اور 1227ء میں اس جہاں فانی سے کوچ کر گیا۔ 1206ء میں تمام مغل قبائل کو متحد کر کے ان کا حکمران منتخب ہونے والا Genghis Khan ایک ناقابل شکست کردار اور اپنے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سلطنت کو تشکیل دینے میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ 40 ملین لوگوں کی اموات کا ذمہ دار تھا۔ اس کے حملوں کے نتیجے میں اس وقت کی دنیا کی آبادی کا تقریباً 11 فیصد حصہ ختم ہو گیا۔ یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی موت کو چھپانے کے لیے جنازے کے راستے میں آنے والی تمام آبادیوں کو نیست و نابود کر دیا گیا۔

-8 ولاد دی امپیلر (Vlad The Impaler)

ولاد دی امپیلر نام شائد آپ کے لیے اجنبی ہو مگر اس شخص کا ایک نام اور بھی ہے جو زبان زد عام ہے اور یقیناً آپ نے بھی ضرور سن رکھا ہو گا۔ وہ نام سے ڈریکولا۔ فلموں یا ناولوں میں ڈریکولا کو انسانوں کا خون پیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے لیکن یہ اصلی ڈریکولا اس طرح تو انسانوں کا خون اپنے نوکیلے دانتوں سے نہیں پیتا تھا،  البتہ یہ اس سے بھی زیادہ وحشیانہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے خون بہانے کا عادی تھا  اور وہ ایسے کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کو اس طریقے سے دردناک موت سے ہمکنار کرتا تھا کہ روح کانپ اٹھے، یعنی وہ میدان جنگ میں اپنے دشمنوں کو لکڑی کی لمبی لمبی تیز میخیں جسم میں ٹھونک کر سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ اس کی افواج کنوئوں کے پانی میں زہر ملا دیتیں، فصلیں اجاڑ دیتیں اور وبائی امراض کے شکار مریضوں کو دشمنوں میں بھیج کر انہیں بھی موذی امراض میں مبتلا کر دیتیں، یہ سمجھ لیں کہ وہ یہ طریقہ اس دور میں کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ 1430 میں پیدا ہونے والے رومانیہ کے اس بادشاہ کو دی امپیلر (میخیں ٹھونکنے والا) کا خطاب Targusit نامی شہر کے باہر لڑی جانے والی جنگ کے دوران دیا گیا کیونکہ اس جنگ میں اس نے 2000 عثمانی فوجیوں کے جسموں میں لکڑی کی میخیں ٹھونکنے کے احکامات جاری کیے تھے جنہیں اس عمل کے بعد چیل کوئوں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

-9 آان دی ٹیریبل (Ivan The Terrible)

25 اگست 1530ء کو پیدا ہونے والا روس کا یہ بادشاہ، 16 جنوری 1547ء کو تخت نشین ہوا اور اپنی موت یعنی 28 مارچ 1584 تک حکمرانی کرتا رہا۔ روس کے بادشاہوں کا لقب زار ہوتا تھا۔ اس سے قبل اسی کا ہم نام آیوان دی گریٹ (Ivan The Great) بھی زار روس رہ چکا تھا، جو اس کا دادا تھا اور اس نے بھی روس پر بڑے زور کے ساتھ حکومت کی تھی۔ لیکن Ivan The Terrible اس معاملے میں اپنے دادا سے بھی آگے نکل گیا کہ اس نے ناصرف روس کو متحد کیا بلکہ اس کو ایک مستحکم مملکت میں بدل ڈالا۔ مگر اس تمام مرحلے کو سر کرنے میں اس نے جو مظالم ڈھائے انہیں کی وجہ سے اسے Ivan The Terrible کا خطاب ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا بچپن کافی مشکلات میں گزرا اور اسی کی وجہ سے وہ نفسیاتی طور پر شدت پسند ہو گیا۔ وہ بچپن میں چھوٹے موٹے جانوروں اور پرندوں پر تشدد کر کے لطف حاصل کرتا تھا۔

جب وہ روس کا زار بنا تو ابتدا میں اس نے کافی اچھے طریقے سے حکمرانی کی۔ نظام حکومت میں اصلاحات کیں اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کیے۔ لیکن ملکہ کی وفات کی وجہ سے وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو گیا اور یہیں سے اس کے ظلم و ستم کے دور کا آغاز ہوا۔ اس نے امرا کی جائیدادوں پر قبضے کرنے شروع کر دیئے اور اپنی ایک ایسی ذاتی پولیس فورس قائم کی جو اس کے حکم پر اس کے مخالفین کو کچل کر رکھ دیتی تھی۔ اس نے اپنے ان اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے ہی دربار کے کئی معززین کو ان کے منصبوں سے یہ الزام لگا کر ہٹا دیا کہ وہ ملکہ کی موت کے ذمے دار تھے۔ اس نے اپنی حاملہ بہو کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنے بیٹے کو بھی غیظ و غضب کی حالت میں قتل کر ڈالا۔ اس کی ذہنی رو اس حد تک بہک چکی تھی کہ جو بھی اس کے سامنے آتا  اور اگر اس وقت بادشاہ نفسیاتی دورے اور جنوں میں مبتلا ہوتا تو اس بدنصیب شخص کی خیر نہ ہوتی اور اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ روس کے مشہور سینٹ باسل کیتھڈرل (St. Basils Cathedral) کے Architects کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور وہ بادشاہ کے ہاتھوں اپنی آنکھیں گنوا کر اندھا کر دیا گیا۔

-10 اٹیلا دی ہن (Attila The Hun)

ہن (Hun) خانہ بدوش قبائل تھے جو چوتھی سے چھٹی صدی عیسوی کے درمیان مشرقی یورپ سے لے کر وسطی ایشیا کے درمیانی علاقے میں آباد تھے۔ 434 تا 453 تک (Attila) ان کا حکمران رہا۔ وہ ایک خوفناک جنگجو تھا۔ اس کا دور عظیم رومی سلطنت کے زوال کا زمانہ تھا۔ Attila The Hun نے تمام علاقے میں خوف و دہشت کی فضا پیدا کر رکھی تھی۔ لاکھوں لوگ اس کی بربریت اور لوٹ مار کا نشانہ بنے۔ اس نے اپنے ہی بھائی (Bleda) کو صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ وہ پورے علاقے کا بلا شرکت غیرے حکمران بن سکے۔ اس کی جرات اتنی بڑھ چکی تھی کہ اس نے زوال پذیر رومن امپائر کے بیشتر علاقوں پر حملے کیے۔ (Naissus) نامی شہر کی تباہی تو اس قدر ہولناک تھی کہ مرنے والوں کی لاشوں نے (River Danube) کو پاٹ کر رکھ دیا اور وہ کئی برس تک ان نعشوں سے بھرا رہا۔ جو لوگ جنگ سے راہ فرار اختیار کر کے بھگوڑے ہو جاتے انہیں پکڑ کر لایا جاتا اور ان کے جسموں میں لکڑی کی میخیں ٹھونک کر انہیں اذیت ناک موت سے ہمکنار کر دیا جاتا۔ اٹیلا اتنا ظالم تھا کہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی دو بیٹوں کو مار کر کھا گیا تھا۔ اس کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ بہت سے  Rome اس کے شر سے بچنے اور اسے اپنے علاقوں سے دور رکھنے کی خاطر اس کو مال و زر بطور رشوت کے پیش کیا کرتے تھے۔

-11 لیوپولڈ دوئم (Leopold II)

 لیوپولڈ دوئم نے 1865ء  سے لے کر 1909ء  یعنی اپنی وفات تک، بلجیم کے دوسرے بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کی۔ وہ  9 اپریل 1835ء  کو پیدا ہوا تھا۔ تاریخ میں اس کو ایک اور نام سے بھی شہرت ملی اور وہ تھا کانگو کا قصاب۔ اسی سے اس کی ظالمانہ فطرت اور جابرانہ طبیعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کانگو ربڑ کی دولت سے مالا مال تھا اور Leopold II کی حریصانہ نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ پس اس نے اپنی اس کالونی اور پسماندہ ملک پر اپنی فوجیں چڑھا دیں اور کانگو کے 10 ملین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس نے بذات خود کبھی کانگو میں قدم تک بھی نہیں رکھا تھا  لیکن صرف اس کے حکم پر ہی اتنے زیادہ بے گناہ انسان کو ماردیئے گئے۔ اس کی سنگ دلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بار بار اپنی افواج کو یہ احکامات بھجوا رہا تھا کہ کانگو کا جو بھی مقامی باشندہ اس کے خلاف بغاوت کرے اس کا سر کاٹ کر  بطور ثبوت کے بادشاہ کی خدمت میں بیلجئم بھیج دیا جائے۔ یہ سامراجی استحصال کی ایک بدترین مثال تھی۔ بالآخر اس پر ان مظالم کا بیرونی دنیا کی طرف سے اتنا دبائو آیا کہ اس کو اپنے یہ احمقانہ احکامات واپس لینے پڑے۔ مگر کانگو پر اس کا یہ سامراجانہ قبضہ کئی دہائیوں تک برقرار رہا۔

-12 پول پاٹ (Pol Pot)

پول پاٹ ایک کمبوڈین انقلابی سیاستدان تھا جو 1976ء سے 1979ء  تک Democratic Kampuchea کا وزیر اعظم رہا۔ وہ ایک کمیونسٹ رہنما تھا۔ اس نے اساتذہ، سائنسدانوں، ماہرین تعلیم، عام شہریوں کی بڑی تعداد، مذہبی رہنمائوں یہاں تک کہ جو شخص ذرا سا بھی پڑھا لکھا تھا انہیں حراست میں لے کر کیمپوں میں قید کر دیا جہاں بعد ازاں انہیں بڑے پیمانے پر پھانسیوں پر چڑھا دیا گیا۔ اندازہ ہے کہ اس کے دور میں 2000000 لوگ بھوک، پھانسیوں اور ناقص صحت کی وجہ سے ہونے والے امراض کے باعث موت کا شکار ہو گئے۔

-13 ایمپرر ہیروہیٹو  (Emperor Hirohito)

ہیروہیٹو جاپان کا 124واں بادشاہ تھا۔ وہ 29 اپریل 1901ء کو پیدا اور 7 جنوری 1989ء  کو فوت ہوا۔ وہ 25 دسمبر 1926ء  کو تخت پر بیٹھا اور اپنے انتقال تک بادشاہت کرتا رہا۔ اس کے دور کو انسانی تاریخ کے بدترین جنگی جرائم اور مظالم کے زمانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ Nanking City کے قتل عام، جس میں ہزاروں ہلاکتیں اور عصمت دری کے واقعات ہوئے، سے لے کر یونٹ 731 تک،  جہاں جاپانیوں نے لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے ہولناک تجربات کیے، جس کے نتیجے میں 3 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے،  اسے  بے شمار الزامات ہیں جو Emperor Hirohito پر لگائے جاتے ہیں کیونکہ بحیثیت بادشاہ اس کے پاس یہ اختیار تھا  کہ اگر وہ چاہتا تو یہ سب روک سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔

-14 جوزف اسٹالن (Joseph Stalin)

جوزف اسٹالن 18 دسمبر 1878ء تا 5 مارچ 1953 ء سابقہ سویت یونین کا ایک انقلابی سیاستدان تھا۔ اس کا تعلق جارجیا سے تھا۔ وہ 1920ء  کی دہائی کے وسط سے لے کر 1953ء  میں اپنی موت تک سوویت یونین (روس) کا حکمران رہا۔ کمیونسٹ نظریے کو ماننے والے حکمران کے طور پر اس نے اپنی حکومت کے دوران ملک کے بڑے رقبے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ لاکھوں کسانوں نے اپنی زمین حکومت کو دینے سے انکار کیا تو اسی وجہ سے انہیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس تمام عرصے میں اسی کشمکش کے باعث روس قحط کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں کئی لاکھ لوگ بھی موت کی وادیوں میں اتر گئے۔  اپنے مطلق العنان دور حکومت میں Joseph Stalin نے اپنی خفیہ پولیس کو بے انتہا اختیارات دیتے ہوئے ایک وسیع ادارے میں بتدیل کر دیا۔  وہ شہریوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی جاسوسی کریں اور حکومت کو رپورٹ کریں۔ ان جاسوسی اطلاعات کی وجہ سے بھی لاکھوں لوگوں کو یا تو گلاگ (دلائی کیمپوں) میں بھیج دیا گیا اور یا پھر انہیں قتل کر دیا گیا کیونکہ ان کی وفاداریاں مشکوک قرار پائی گئیں تھیں۔ اندازہ ہے کہ اس کے ظالمانہ اور آمرانہ دور حکومت میں تقریباً 20 ملین لوگ مارے گئے۔

-15 ایڈولف ہٹلر  (Adolf Hitler)

ہٹلر کا نام تو یقینا سب نے ہی سن رکھا ہے۔ 20 اپریل 1889ء کو پیدا ہونے والے جرمنی کے اس حکمران نے 30 اپریل 1945ء کو جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے وقت خودکشی کر لی تھی۔ وہ 2 اگست 1934ء کو مشہور زمانہ نازی پارٹی کی طرف سے جرمنی کا چانسلر منتخب ہوا  اور پھر پورے یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہٹلر کو انسانی تاریخ کا ایک بدنام ترین، تخریبی ذہن کا مالک اور برائی کا محور حکمران تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی جارحانہ اور نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے جرمنی کے عوام کے دلوں میں قومیت کی وہ آگ بھڑکائی کہ جس نے سارے خطے کو جلا کر خاکستر کر دیا۔  اس کے جرائم میں کرسٹل ناخت کا حکم دینا (کرسٹل ناخت کا مطلب ہے کہ 9 نومبر 1938ء  کی رات کو یہودیوں کی 200 عبادت گاہیں، سینا گاگز مسمار کر دیئے گئے،  8 ہزار سے زائد یہودی دکانداروں کی دکانیں لوٹ لی گئیں اور لاکھوں یہودیوں کو حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا،  اس کے یورپ اور افریقہ پر حملے اور یہودیوں کے خلاف ہولوکاسٹ سمیت دیگر بے شمار جنگی جرائم شامل ہیں۔ ہٹلر پر الزام ہے کہ اس نے نفرت اور برائی کو اس طرح مجسم شکل میں پیش کیا  کہ اس سے قبل تاریخ میں شائد کسی اور نے نہ کیا ہو گا۔ تاریخ دان اس کو 11 ملین افراد کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply