روپے کی گرتی ہوئی قدر۔ لمحہ فکریہ

ڈالر انٹربینک میں 121.5 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 124.5 روپے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا

ڈالر انٹربینک میں 121.5 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 124.5 روپے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا

نیوز ٹائم

اپنے گزشتہ کالموں میں اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ آنے والے وقت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔  معیشت دانوں کے مطابق پاکستانی روپے اپنی حقیقی قدر سے زیادہ قیمت پر ٹریڈ ہو رہا تھا  اور سابق وزیر خزانہ Ishaq Dar  نے جون 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد 2 سال تک روپے کو مصنوعی طور پر 98.25 روپے کی سطح پر رکھا تھا، اس عرصے جب بھی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھتی تو اسٹیٹ بینک کی دخل اندازی سے مطلوبہ ڈالرز مارکیٹ میں سپلائی کر کے ڈالر کی طلب اور رسد برقرار رکھی جاتی تھی  تاہم تیسرے سال جون 2015ء میں روپے کی قدر کم ہو کر 101.80 روپے تک آ گئی اور جون 2017ء تک ڈالر 104.80 روپے پر ٹریڈ ہوتا رہا،  اس طرح سابق وزیر خزانہ Ishaq Dar نے اپنے ساڑھے 4 سالہ دور میں روپے کی قدر کو انا کا مسئلہ بناتے ہوئے  روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر 98 سے 104 کی سطح پر رکھا جو اس کی اصل قدر سے 14 سے 15 فیصد زیادہ تھا  جبکہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بھی روپے کی قیمت اس کی حقیقی قدر سے 10 سے 15 فیصد زیادہ بتائی گئی  جس کے بارے میں، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا۔

دسمبر 2017ء میں وزیر خزانہ Ishaq Dar کے جانے کے بعد جب Rana Afzal  وزیر مملکت اور Dr Miftah Ismail مشیر برائے خزانہ بنائے گئے  تو ڈالر 4.7 فیصد کمی سے 112 روپے کی سطح پر پہنچ گیا جس کی وجہ سے دیگر بیرونی کرنسیوں یورو اور پائونڈ کی قدریں بھی بڑھ گئیں۔  Dr Miftah Ismail کی پالیسی تھی کہ ڈالر کو اس کی اصل قدر پر لایا جائے جس کیلئے وہ روپے کی قدر میں مزید کمی کرنے کے حامی تھے  اور اس وجہ سے 29 جون 2018ء کو ڈالر انٹربینک میں 121.5 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 124.5 روپے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا۔  اس طرح گزشتہ 5 سالوں میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 23.50 روپے کی مجموعی کمی ہوئی جس میں صرف گزشتہ 6 مہینوں میں 18 روپے کی کمی ہوئی  اور دسمبر 2017ء  سے جون 2018ء  تک اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں 3 مرتبہ کمی کی  جبکہ روپے کی قدر پر متضاد حکومتی پالیسیوں کے باعث 5 سالوں میں ملکی ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہوئی۔ میں ذاتی طور پر روپے کی یکدم |D  Valuation کے خلاف ہوں لیکن روپے کی حقیقی قدر کا حامی ہوں کیونکہ ماضی میں یکدم |D  Valuation کے اچھے اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔

حکومت نے جب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی، ایکسپورٹرز نے اِس کا فائدہ بیرونی خریداروں کو ڈسکائونٹ کی شکل میں منتقل کر دیا  اور ملکی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا لیکن اگر روپے کی قدر مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد کے حساب سے رکھی جائے اور اسٹیٹ بینک مداخلت نہ کرے تو یہ ایک بہتر حکمت عملی ہے۔  ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے حکومت کو ڈی ویلیو ایشن کے بجائے ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے  جس میں بجلی اور گیس کے مقابلاتی ریٹس اور ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز سرفہرست آتے ہیں۔  D  Valuation سے نہ صرف بیرونی قرضے مزید بڑھ جاتے ہیں۔  مثلا روپے کی قدر میں صرف 5 روپے کم کرنے سے راتوں رات ہمارے بیرونی قرضوں میں 425 ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔  اس کے علاوہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے امپورٹ کی گئیں پیٹرولیم مصنوعات اور خام مال کی قیمتیں بڑھ جائے گی جو افراط زر میں اضافے کا سبب بنیں گی  جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آ سکتا ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ روپے کی قدر کے تعین کو مارکیٹ قوتوں پر چھوڑ دیا جائے جو ہماری ایکسپورٹ میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔

رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 14 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا ہو گیا ہے  حالانکہ گزشتہ چند ماہ ملکی ایکسپورٹس میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں 34 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔  بیرونی قرضے بڑھ کر 96 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں جس میں سے ہمیں اس سال تقریباً 5 ارب ڈالر کی ادائیگی بھی کرنی ہے جس کیلئے حکومت نے عارضی طور پر چین سے ایک سے 2  ارب ڈالر سوفٹ ڈپازٹ کی درخواست کی ہے  جبکہ اپریل 2018ء  میں حکومت نے چین کے کمرشل بینکوں سے مزید ایک ارب ڈالر کے مختصر المیعاد قرضے حاصل کئے تھے۔  معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میرا جائزہ ہے کہ ہماری معیشت کا چین پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے  جس میں چین سے لئے جانے والے نئے قرضے بھی شامل ہیں حالانکہ پاکستان کو مالی قرضے دینا چین کی پالیسی میں نہیں۔

14جون 2018ء  کو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر سے کم ہو کر 16.79 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 10.26 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے ڈپازٹس 6.53 ارب ڈالر شامل ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی سے روپے کی قدر پر شدید دبائو ہے۔  اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی خریدار ملک میں سیاسی عدم استحکامی کی وجہ سے اپنا سرمایہ مسلسل نکال رہے ہیں۔  گزشتہ سال بیرونی سرمایہ کاروں نے 728 ملین ڈالر اور اس سال اب تک 266 ملین ڈالر کے اپنے شیئرز فروخت کئے ہیں جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ مندی سے نکل نہیں پا رہی  لیکن امید ہے کہ روپے کی اضافی ڈی ویلیو ایشن سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں دوبارہ سرمایہ کاری کریں گے۔ پاکستان کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث انٹرنیشنل کیپٹل مارکیٹ  پاکستان کے جاری کردہ یورو اور سکوک بانڈز جن کی ادائیگیاں 2027ء اور 2036ء  میں کرنی ہیں، اپنی اصل قیمت 100 ڈالر فی بانڈ سے کم ہو کر بالترتیب 85 اور 82 ڈالر تک آ گئی ہے  جبکہ چند سال پہلے یہ بانڈز انٹرنیشنل مارکیٹ میں پریمیم پر ٹریڈ ہوتے تھے۔  ان حالات میں سپریم کورٹ کی طرف سے نئی ایمنسٹی اسکیم کو گرین سگنل دیئے جانے کے بعد حکومت کی توقعات ہیں  کہ اس اسکیم کے تحت بیرون ملک اثاثوں کو دستاویزی شکل دینے یا انہیں ملک میں واپس لانے پر حکومت کو تقریبا 3 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے  جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور caretaker  وزیر خزانہ Dr. Shamshad Akhtar سے حال ہی میری کراچی میں ایمنسٹی اسکیم کے سلسلے میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ان سے گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ روپے کی قدر کیلئے اسٹیٹ بینک کی دخل اندازی کے حق میں نہیں۔ عبوری حکومت کے پاس ایک مختصر مینڈیٹ ہے جس میں وہ اہم پالیسی فیصلے نہیں لے سکتی کیونکہ ان کا بنیادی مقصد ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کروانا ہے لیکن آنے والی نئی حکومت کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے پہلے 100 دن میں صحیح ترجیحات اختیار کر کے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کا مقابلہ کریں  جس میں کرنٹ اکائونٹ خسارے اور اخراجات میں کمی، ایکسپورٹس، ترسیلات زر اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کرنا ہو گا۔  منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی امداد روکنے کیلئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے اپنے حالیہ پیرس اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا ہے  جس کے بعد اب ہمیں آئی ایم ایف سے قرضے لینے کیلئے سخت شرائط پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔

No comments.

Leave a Reply