پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں پس پردہ رابطے بحال

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں پس پردہ رابطے بحال

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں پس پردہ رابطے بحال

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں پس پردہ رابطے بحال ہو گئے ہیں۔ خواجہ آصف اور Farooq H. Naik کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے نواز لیگ کی جانب سے پیغام ملنے کے بعد ہی مسلم لیگ سے ہاتھ ملانے کا عندیہ دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آگے چل کر باقاعدہ اتحاد کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ کہ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی جانب سے مذاکرات کا فریضہ شہباز شریف کو ہی انجام دینا ہو گا۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ممکنہ اتحاد سے پہلے دونوں جماعتیں اپنے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او  آرز) ایک دوسرے کے حوالے کریں گی۔ ذرائع نے بتایا کجہ پانامہ کیس کے بعد سے ہی نواز لیگ، پیپلز پارٹی سے رابطے میں تھی۔ ن لیگ کے خواجہ آصف کے ذریعے آصف زرداری کو مصالحتی پیغامات پہنچایا جاتا رہا، لیکن اس وقت آصف زرداری جن پر مشکل گھڑی نہیں آئی تھی، یہ پیشکش مسترد کر دی تھی۔ لیکن اب جبکہ خود پی پی قیادت پر برا وقت آن پڑا ہے تو پیغامات کا نہ صرف مثبت جواب دیا گیا  بلکہ فاروق نائیک رابطے  کرنے کا بھی ٹاسک دیا گیا، جسے انہوں نے پورا کر دیا ہے۔

نواز لیگ کے اہم ذریعے کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے Maulana Fazlur Rahman کے ذریعے بھی آصف زرداری کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن سابق صدر نہیں مانے تھے۔ بعد ازاں ایک غیر سایسی کاروباری شخصیت جو زرداری اور نواز شریف دونوں کے قریب ہیں، نے بھی بہت کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس ذریعے بقول  خواجہ آصف کو دکھ تھا کہ آصف زرداری نے ان کی بات نہیں مانی۔ انہوں نے اپنے قریبی حلقوں میں کہا تھا کہ مجھے بڑا مان تھا زرداری صاحب پر۔ سیاسی اختلافات کے باوجود ہمارا ذاتی تعلق کبھی خراب نہیں ہوا۔ لیکن اس معاملے میں آصف زرادری مے میری کالز نہیں سنیں۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے سینیٹ الیکشن میں  N league کا سینیٹ جیئرمین منتخب نہیں ہونے دیا۔ بلوچستان سے منتخب ہونے ولای سیاسی جماعت میں پیپلز پارٹی سے کبھی وابستہ رہنے ولاے Sadiq  Sanjrani کو چیئرمین بنوا دیا اور ایسا کھیل کھیلا کہ ان کا ساتھ دینے والی تحریک انصاف کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔ یہان تک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی پیپلز پارٹی کے  رہے اور قائد حزب اختلاف بی پی پی سے ہی ہیں۔

تاہم ذرائع کے بقول سپریم کورٹ کی جانب سے طلبی اور ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کے بعد آصف زرداری کی سمجھ میں آیا کہ کھیل نہ صرف N league کے ہاتھ سے نکل رہا ہے، بلکہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے بھی نکل گیا ہے۔ پی پی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ آصف زرداری اب بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ N league کی طرف ہاتھ بڑھائیں یا نہیں۔ ان کی جانب سے نواز لیگ کو پیغام دیا گیا ہے کہ مذاکرات انہی کی شرائط پر ہوں گے۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ شرائط کیا ہوں گی، یہ تو قبل از وقت نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم اگر دونوں جماعتوں کے قائدین کو اپنے مفادات عزیز ہیں تو انہیں ہاتھ ملانا ہو گا۔ موجودہ سیناریو میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے حکومت میں آنے کا امکان نظر نہیں آتا۔ پی پی کے ان ذرائع کے بقول میثاق جمہوریت کے بعد سے نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان بیک ڈور رابطے ہوتے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک رابطے کے بعد ن لیگ حسین حقانی کے معاملے پر پارلیمانی کمشین بنانے کے مطالبے سے دستبردار ہو گئی تھی۔

یاد رہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر Husain Haqqani نے بیان دیا تھا کہ ابیٹ آباد کمیشن نے حقائق چھپائے ہیں۔ ان پر امریکہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ویزے جاری کرنے کا الزام غلط ہے۔ Osama کو پکڑنے کے لیے امریکی کمانڈو ویزے لے کر نہیں آئے تھے۔ یہ سار مسئلہ دو اہم سوالوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا۔ Husain Haqqani کے مطابق پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں 9 سال تک اسامہ کا پٹا لگانے میں کیوں ناکام رہیں۔ اور دوسرا سوال یہ کہ امریکی نیوی سیلز کی پاکستان میں آمد کا پتا کیوں نہیں لگایا جا سکا۔ Husain Haqqani کے انکشافات کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع Khawaja Asif نے پارلیمانی کمیشن بنانے کا اعلان کیا،  جس پر آصف زرداری نے کہا کہ اگر Husain Haqqani کے معاملے پر پارلیمانی کمیشن بناتے ہیں تو پھر 1999ء سے جتنے بھی کیسز ہیں، ان پر تمام پارلیمانی کمیشن بنائے جائیں۔ آصف زرداری کے اس بیان کے بعد ہی مسلم لیگ ن پارلیمانی کمیشن کے مطالبے سے پیچھے ہٹی اور اسپیکر Ayaz Sadiq نے معاملے کو قائمہ کمیٹی کے سپر کر دیا۔ ان ذرائع کے مطابق اب تازہ پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ مسلم لیگ کی جانب سے پیغامات کے بعد Farooq H Naik کے ذریعے پیپلز پارٹی نے رابطے بحال کر لئے ہیں اور جلد اس حوالے سے دیگر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ تاہم سب کچھ فوراً بھی ممکن نہیں۔ سابق وزیر اعظم کے پاکستان کے بعد صورت حال دیکھ کر آگے بڑھا جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply