چین کا ایران سے خلیج کی جانب رخ

چین نے تیل کی خرید کے لیے متبادل کے طور پر سعودی عرب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا

چین نے تیل کی خرید کے لیے متبادل کے طور پر سعودی عرب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا

نیوز ٹائم

جعلی معلومات پر انحصار کرنے والے ٹویٹر کے بعض پرجوش لکھاری بند گلی میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ بعض گروپوں نے پہلے ایک جعلی خبر اور پھر اس کی تشہیر کر دی۔ اس کا مقصد سوشل میڈیا کے مباحث کا رخ موڑنا تھا۔ ایک ٹویٹ میں لکھا تھا: چینی اپنی رقوم اور فورسز کے ساتھ آ رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پیوٹن جہنم میں جائیں۔ یہ درست ہے کہ چینی خلیج کے خطے میں آ رہے ہیں اور وہ اس کی اقتصادی اور سیاسی قدر میں اضافہ کریں گے  لیکن پیوٹن اور ٹرمپ بھی خطے میں علاقائی توازن کے لیے موجود رہیں گے۔

چین، امریکا اور روس کی طرح نہیں ہے کیونکہ وہ کوئی جارحانہ خارجہ پالیسی نہیں رکھتا ہے اور وہ جنگوں کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا ہے۔چین ہمارے خطے میں اپنی گماشتہ طاقتوں کو بروئے کار لانے کی پالیسی بھی نہیں رکھتا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ ایک بڑا ملک ہے اور اس کے اس خطے میں تیل سمیت بہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ یہ خطہ اس کے لیے ایک اہم شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کو اس بات پر تشویش لاحق ہے  کہ یہ علاقائی یا بین الاقوامی طاقتوں یا غیر ریاستی عناصر کی پیدا کردہ افراتفری اور طوائف الملوکی کے کنٹرول میں ہے۔

چین کی عملیت پسندی:

اگرچہ چین کسی خاص محل وقوع کا حامل نہیں، مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اس کا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ وہ ایک اقتصادی طاقت کی حیثیت سے وجود رکھتا ہے اور وہ ہتھیاروں کے بغیر اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں کر رہا ہے۔  چین کی پالیسی حقیقت پسندانہ ہے۔ امریکا کے ایران کے ساتھ تنازعے کے دوران میں اس نے واشنگٹن کی حمایت نہیں کی تھی۔ وہ ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے سے بھی دستبردار نہیں ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نے ایران کے تیل پر انحصار کم کرنے کا فیصلہ کیا  اور تیل کی خرید کے لیے متبادل کے طور پر سعودی عرب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے ایران کو یقیناً سخت دھچکا لگے گا۔

سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس پر پھیلائی گئی یہ خبر کہ چین کویت کے دو جزیروں میں نصف ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا، ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔  جو لوگ اعداد و شمار کی زبان کو سمجھتے ہیں، ان کے لیے یہ رقم نہ صرف غیر عقلی ہے  جبکہ چین نے درحقیقت خطے کے 5 ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے 20 ارب ڈالرز سے زیادہ مختص کیے ہیں۔

دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ چین اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ کسی جگہ فوجی مداخلت کا مخالف ہے  اور اس نے صرف مچھلیاں پکڑنے والے جہاز اور مال بردار جہاز بھیجے ہیں۔ نصف ٹریلین کی رقم دراصل بیجنگ نے اپنے ملک کے اندر مختلف منصوبوں کے لیے مختص کی ہے۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین ہماری طرف مرحلہ وار تعاون بڑھانے کے لیے آ رہا ہے تاکہ دوطرفہ تعاون کے مواقع کو بہتر بنایا جا سکے اور ہمارے لیے آپشنز کو بڑھایا جا سکے۔

چین کے ساتھ مسلسل جنبانی کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ یہ سیاستدانوں کے چین کے ساتھ مسلسل روابط اور تعلقات کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں سعودی شاہ سلمان بن عبد العزیز کا گذشتہ برسوں میں چین کا دورہ ایک نمایاں قدم تھا۔ اس دورے میں دوطرفہ جامع تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے تھے۔ چینی صدر Xi Jinping اپنے دوبارہ انتخاب کے بعد متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے  اور یو اے ای انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے شدت سے منتظر ہے۔ اس دورے سے قبل بیجنگ نے گذشتہ ہفتے امیرِ کویت کا شاندار خیرمقدم کیا تھا۔

معیشت خلیج کی طاقت ہے اور چین کی جانب شاہراہ اس کا دل اور ذہن ہے۔ یہ دوسرے وعدے کے علاوہ ایک طرح کی شراکتداری ہے۔ ہمیں اس سے تشویش نہیں ہونی چاہیے کہ ایرانی اس تعلق داری کو کیسے دیکھتے ہیں۔ چین اب سعودی عرب اور خلیج کی جانب آ رہا ہے اور وہ ایران کے تیل پر انحصار کم کر رہا ہے  جبکہ پہلے یہی ملک اس کے لیے تیل کے حصول کا پہلا ذریعہ تھا۔ اس سے ایران اور اس کی فورسز غصے میں ہیں۔ ایرانی اس پیشرفت کو ایک مختلف منطق کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ اقتصادی طور پر گھٹن کا شکار ہیں،  فوجی طور پر شکست خوردہ ہیں اور سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہیں۔ ایران ہر کسی سے یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اس کے آگے جھکے گا جبکہ وہ تباہی اور تخریب کاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان سے صدر ٹرمپ کے ایرانی کمانڈ کی باغیانہ روش کا ٹھٹھا اڑانے سے متعلق بیانات کی بھی تائید ہوتی ہے  اور وہ اب معنی خیز نظر آتے ہیں۔ چنانچہ چین، ایران کے تیل سے دستبردار ہو جاتا ہے اور خلیج کے تیل کی خریداری کے لیے رجوع کرتا ہے تو ہم اس کو ایک اہم شراکتدار کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ چین کے ساتھ کاروباری معاملات اور تعلق داری میں اضافے سے اس ملک کے بین الاقوامی بیلٹ اور روڈ اقدام سے ہم آہنگ ہونے میں بھی مدد ملے گی۔

No comments.

Leave a Reply