صدر ٹرمپ کی پالیسیاں امریکا خانہ جنگی کی طرف گامزن

امریکا کی 31 فیصد آبادی کا ماننا ہے کہ امریکا کے اندر اگلے 5 سال میں خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے

امریکا کی 31 فیصد آبادی کا ماننا ہے کہ امریکا کے اندر اگلے 5 سال میں خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے

نیوز ٹائم

رموسین رپورٹس ایک امریکی پولنگ ادارہ ہے، جو 2003ء میں قائم کیا گیا ہے۔ کمپنی عوامی ردِعمل جمع اور اسے شائع کرنے کے بعد تقسیم کرنے میں مصروف عمل ہے۔ سیاست، معیشت، انتخابات، صارفین وغیرہ کے اعداد و شمار جمع کر کے یہ اپنے تجزیے پیش کرتی ہے۔ اس ادارے کا ایک حالیہ سروے منظر عام پر آیا ہے، جس میں امریکا کی موجودہ صورت حال پر کچھ اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ امریکا کی 31 فیصد آبادی کا ماننا ہے کہ امریکا کے اندر اگلے 5 سال میں خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ڈیموکریٹ کے لوگ 37 فیصد ریپبلکن کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ خانہ جنگی بہت قریب ہے۔ سروے میں حصہ لینے والوں کی 59 فیصد تعداد کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیاں خانہ جنگی کے لیے زیادہ محرک بن سکتی ہیں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ سیاستدان، اداکار، سماجی شخصیات و دیگر طبقات کے سرکردہ افراد اِس بات کا برملا اظہار نہ کرتے ہوں کہ صدر ٹرمپ نے امریکا کو توہم پرستی کی طرف دھکیل دیا ہے،  جس سے ملک کے حالات مخدوش نظر آ رہے ہیں۔ یہ لوگ اب باضابطہ طور پر احتجاج اور مظاہروں کی طرف لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ امریکا کی اس متوقع و ناگفتہ صورت حال کو کئی ایک اہم واقعات کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا کے منصب صدارت پر آنا ہی ایک غیر متوقع خبر تھی۔ ایک ایسے شخص جس نے اپنی سیاسی نااہلی و شخصی تنائو کی چھاپ پہلے ہی میڈیا، ایوانوں میں ڈالی تھی  کو صدر بنتے دیکھ کر امریکا کی ایک کثیر آبادی نے علی الاعلان ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک صدر ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے بیانات اور ان پر اپنی مخصوص ہلٹر بازی نے ان لوگوں کے شبہات کو اور زیادہ تقویت پہنچائی کہ صدر ٹرمپ امریکا کی تباہی کے ازخود موجب بن رہے ہیں۔  صدارتی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد ٹرمپ نے اپنے مخصوص کارندوں کو انتظامی معاملات چلانے کے لیے منتخب کیا۔  اِن اہلکاروں کا عوامی مفاد کے ساتھ کچھ خاص لینا دینا نہیں ہے،  بلکہ ایک خاص نظریے کو تقویت دینا ان کا ہدف ہے۔

خانہ جنگی کا خاصا ہوتا ہے کہ یہ ملک کے اندر ہی اسباب ڈھونڈ کر ایک لہر کی طرح اٹھتی ہے۔ خانہ جنگی کے بیچ ہمیشہ سے ہی ملک کے اندر اپنے ہی کارندوں کی نااہلی سے بوئے جاتے ہیں۔ امریکا میں بے روزگاری کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے، خاندانی نظام کا وجود ناپید دکھائی دے رہا ہے،  سماجی روابط منقطع کر دیے گئے ہیں، لوگ اپنی انفرادیت کو لے کر بدمست ہو چکے ہیں، وہی حال ہی میں دنیا کے ساتھ تجارتی جنگ کی ایک نئی لڑائی مول لی گئی ہے۔  روس پر تجارتی قدغنین عائد کی جا چکی ہیں، چین اور جاپان کو ٹیرف کا سامنا ہے اور اب یورپ، کینیڈا سمیت میکسیکو پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے ایسے اقدامات عالمی تجارتی لین دین کے نظام میں بدامنی پھیلانے اور اسے برباد کرنے سے کم نہیں ہیں۔ اس طرح سے امریکی صدر اپنی ذہنی پسماندگی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ اس جنگ کا براہ راست اثر نچلے درجے کے صارفین پر پڑے گا۔

صدر ٹرمپ کی تجارتی جنگ کی پالیسی سے امریکا کی شرح ترقی پر 2 فیصد کے منفی اثرات پڑنے کا خطرہ ہے اور ڈھائی لاکھ کے قریب لوگوں کے بے روز گار ہونے کا خوف بھی اپنی جگہ برقرار ہے،  جس سے ایک متوسط گھرانے پر 210 ڈالرز کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ آگ اور شعلہ والی پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے نہ صرف بیروں ملک بلکہ اندرون ملک معاملات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ اعداد و شمار سے ایسا بالکل واضح دکھائی دے رہا ہے۔ ٹرمپ کو شاید سائنس اور ٹیکنالوجی سے منضبط زندگی سے بہت نفرت ہے،  اس لیے وہ اس دنیا کو پتھر کے زمانے کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ آج ہی کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بہت سے موقعوں پر ٹرمپ نے دنیا کو ڈرانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ کسی زمانے میں شمالی کوریا کو ختم کرنے کی براہ راست دھمکی دینا،  ایران سے تعلقات کو منقطع کرنا، پاکستان کو دھوکے باز ملک کہنا اور پھر انہی ممالک سے علیک سلیک استوار کر کے اپنی ہزیمت سے منہ چھپائے رکھنا معنی خیز ہے۔ اسی طرح کبھی ایٹمی اور کبھی تجارتی بے وقوفی سے ٹرمپ انتظامیہ اس دنیا پر اپنی توہم پرستی کی بنیاد پر راج کرنا چاہ رہی ہے۔  اب اگر ایسے اقدامات اٹھانے سے ٹرمپ اپنا دل بہلانا چاہ رہے ہیں، تو اسے اگر باہر کے لوگ کچھ کہنے پر قادر نہ ہوں،  لیکن اندرون ملک حساس انسان اِس کے خلاف بغاوت اٹھانے سے کبھی نہیں چوک نہیں سکیں گے اور جس کا مشاہد عین الیقین کے طور پر وقت قریب میں دنیا کے ہر باسی کو کرنا ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply