امریکہ خطے میں بنتے ہوئے بلاک سے خوفزدہ

پاکستان میں چار ملکی (روس، چین، پاکستان، اور ایران) کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کا اجلاس

پاکستان میں چار ملکی (روس، چین، پاکستان، اور ایران) کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کا اجلاس

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

پاکستان کےٰ سابق اعلیٰ عسکری حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ خطے میں بنتے بلاک سے خوفزدہ ہے۔ واشنگٹن حکومت روس، چین، پاکستان اور ایران میں انٹیلی جنس تعاون کے منصوبوں سے گھبرا گئی ہے۔ اس لئے یہ شوشا چھوڑا گیا کہ پاکستان میں ایف بی آئی کے ایجنٹ حکومت ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ معروف عسکری تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کا اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”گزشتہ دنوں میں پاکستان میں چار ملکی (روس، چین، پاکستان، اور ایران) کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کا اجلاس ہوا، جس پر امریکہ کو شدید تکلیف ہوئی۔ کیونکہ اس اجلاس میں اس کی افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت کے نمائندوں کونہیں مدعو کیا گیا تھا۔ یہ وہ چار ممالک ہیں جو افغانستان میں بدامنی سے براہ راست متاثر ہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک نہیں بتاتا کہ اس کے ایجنٹ کن کن ملکوں میں سرگرم ہیں۔ عموماً سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹ سفارتکاروں یا تاجروں کے لبادے میں کسی ملک میں داخلے ہوتے ہیں۔  لیکن جب ان کا یہ کور کھل جاتا ہے تو انہیں پکڑے جانے سے پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی کئی بار ایس اہوا ہے کہ سی آئی اے کے پاکستان میں اسٹیشن چیف کا نام اخبارات میں آ گیا تو سی آئی اے نے فور طور پر اس کو واشنگٹن واپس بلا لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان میں ماضی میں تعاون کیا، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟  امریکہ نے بھارت کے ساتھ دفاعی اور strategic تعاون کا معاہدہ کر لیا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کیا، اسے دھوکہ دیا۔

افغانستان اور پاکستان میں ایف بی آئی ایجنٹس کا شوشہ روس، چین، پاکستان اور ایران کے انٹیلی جنس میں تعاون کو ناکام بنانے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔ امریکہ کو یہ تکلیف ہے کہ خطے میں اس کے اثرات کم ہو رہے ہیں جبکہ روس اور چین کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ FBI Assistant Director International Operations George Piro نے گزشتہ غیر ملکی صحافیوں سے واشنگٹن میں گفتگو کرتے وہے دعویٰ کیا تھا  کہ ایف  بی آئی کے ایجنت دہشت گردی سے متعلق معامالت پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے ساتھ فعال طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ امریکی ادارے کے اعلیٰ عہدے دار کا یہ بیان پاکستان کی حد تک اس لیے تشویشناک ہے  کہ وہ خود امریکی قانون کے مطابق صرف امریکی سینٹرل انٹیلی جنس (سی آئی اے) کے ذمہ داری ہے کہ اپنی حکومت کے لیے غیر ملکوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرے۔ جبکہ Federal Bureau of Investigation (ایف بی آئی) کا درجہ امرکہ کی وفاقی پولیس کا ہے۔ یعنی اس کا دارئرہ کار امریکہ کی سرحدی حدود کے اندر ہے۔  اس حوالے سے ایک سابق پاکستانی انٹیلی جنس آفیسر، جو جہاد افغانستان میں سی آئی اے کے ساتھ کام کر چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے امریکی ایف بی آئی افغانستان میں اس لیے مداخلت کا جواز رکھتی ہے کہ امریکی افواج نے وہاں غاصبانہ قبضہ رکھا ہوا ہے۔ لیکن پاکستان جو ایک آزاد مملکت ہے، وہاں ایف بی آئی کی آزادانہ سرگرمیوں کا مقصد اور دعویٰ سمجھ نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاد افغانستان کے وقت پاکستان اور امریکہ کے مفادات یکساں تھے۔ لیکن امریکہ نے پاکستان کو دھوکہ دیا۔ ان مجاہدین کو جو پاکستان میں پرامن طریقے سے رہ رہے تھے انہیں القاعدہ کا کہہ کر نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ قتل بھی کرایا،  جس کے نتیجے میں پاکستان میں بدامنی، پھیلی بلکہ ساری مسلم دنیا تتر بتر ہو کر رہ گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آئی کے عہدے دار کا بیان پاکستان کے لیے مشکلات بڑھانے کی کوشش ہے۔ کیونکہ عالمی سطح پر دو ملکوں کے اس قسم کے ادارے آپس میں تعاون کرتے ہیں  لیکن اپنے اپنے ملکوں کے مجرموں کی تلاش کے لیے ہی وہ ایسا کرتے ہیں۔

عسکری تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی کے ایجنٹ عموماً سفارتکار یا تاجر کے روپ میں آتے ہیں۔ وہ ایف بی آئی کے اہلکار کے طور پر پاکستان میں آزادانہ نہیں گھوم سکتے۔ ایف بی آئی کے ایجنٹ مختلف مواقع پر پاکستان آتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے کے موقع پر ایف بی آئی کے ایجنٹ پاکستان میں تفتیش کے لیے آئے تھے، کیونکہ اس حادثے میں امریکی سفیر اور امریکی دفاع عہدے دار بھی ہلاک ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بے نظیر کے قتل کی تفتیش کے لیے ہماری حکومت نے خود ایف بی آئی کو بلایا۔ پاکستان میں ایف بی آئی کے ایجنٹس کی موجودگی ناممکن نہیں ہے۔ زرداری دور میں جتنی بڑی تعداد میں امریکیوں کو ویزے دے دیے گئے، اس کے بعد ان ایجنٹس کی صفائی کا عمل اب تک جاری ہے۔ ہماری حکومتوں نے کبھی بھی پاکستان کے مفاد میں کام نہیں کیا، ہمیشہ امریکہ کے مفاد کو مدنظر رکھا۔ ہمارے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں جن میں ریمنڈ ڈیوس کی مثال لوگوں کے ذہن میں تازہ ہو گئی۔ اب ہم اس دہشت گردی کی جنگ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو امریکہ نہیں نکلنے دے رہا ہے۔

No comments.

Leave a Reply