انتخابات اور جمہوری عمل

انتخابات کو متنازع بنانے میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ کردار کچھ خفیہ قوتوں کا ہے جنہوں نے نہ صرف انتخابات بلکہ اس جمہوری عمل کو ہی متنازع کر دیا ہے

انتخابات کو متنازع بنانے میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ کردار کچھ خفیہ قوتوں کا ہے جنہوں نے نہ صرف انتخابات بلکہ اس جمہوری عمل کو ہی متنازع کر دیا ہے

نیوز ٹائم

پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات متنازع ہو چکے ہیں جس کا ذکر میں اپنی پچھلی تحریر متنازع انتخابات میں کر چکا ہوں۔ انتخابات کو متنازع بنانے میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ کردار کچھ خفیہ قوتوں کا ہے جنہوں نے نہ صرف انتخابات بلکہ اس جمہوری عمل کو ہی متنازع کر دیا ہے۔  انتخابات کی طرح پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی متنازع ہو چکے ہیں کیونکہ آج کی سیاست الزام تراشی، جھوٹ اور منافقت کا دوسرا نام ہے۔

سیاست کرنا ہر سیاسی لیڈر کا حق ہے مگر سیاستدانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے کسی بھی عمل سے جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے۔  کچھ سیاستدان اپنے سیاسی فائدے کے لئے جمہوری عمل کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔  تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے سبق سیکھنا چاہیے۔ آج جو سیاستدان غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا وہ نواز شریف کی حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں  کیونکہ ان کا مستقبل بھی مختلف نہیں ہو گا۔  تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں نواز شریف جو کچھ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کرتے رہے آج ان کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے شائد اسے مکافات عمل کہتے ہیں۔  نواز شریف ماضی میں غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے اور منتخب وزرائے اعظم کے خلاف تحریک چلانے پر اپنی غلطیوں کا اعتراف کر چکے ہیں  مگر عمران خان شائد یہ تب سمجھیں گے جب بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ کل نواز شریف مہرہ تھا اور آج عمران خان  مہرہ ہے۔ ہو سکتا ہے خان صاحب کی نیت بہت اچھی ہو مگر خان صاحب اقتدار میں آنے کے لئے جن غیر جمہوری قوتوں کا سہارا لے رہے ہیں وہ قوتیں عمران خان کے سیاسی کردار کو مشکوک کر چکی ہیں۔

جمہوری نظام سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جانا بہت پریشان کن معاملہ ہے جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود سیاستدان ہیں جو ووٹ لینے کے لئے اپنی شکل دکھاتے ہیں اور پھر اگلے 5 سال تک اپنے حلقے کے لوگوں کو اپنا چہرہ تک نہیں دکھاتے۔ میرے اپنے علاقے کے معززین سے بات ہوئی کہ اس مرتبہ کس جماعت کو ووٹ دے رہے ہیں تو ایک صاحب نے جواب دیا کہ ہم کسی بھی جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ سب جماعتوں نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو امید جاگی تھی کہ اب واقعی تبدیلی آئے گی مگر عمران خان نے بھی ہمیں مایوس کیا اس لئے ہم الیکشن کے دن گھر پر آرام کریں گے۔ میں نے علاقہ معززین سے کہا کہ آپ کسی بھی جماعت کو ووٹ دیں مگر انتخابات میں ووٹ دے کر اس جمہوری عمل کا حصہ ضرور بنیں کیونکہ یہ ہمارا قومی فریضہ ہے۔

عوام کا اس جمہوری نظام سے اعتماد اٹھ جانا مایوس کن ہے۔ عوام شدید بے چینی کے ساتھ ساتھ مایوسی کا بھی شکار ہیں مگر اب بھی وہ ایک مخلص اور ایماندار قیادت کے منتظر ہیں۔ ہم عوام نظام بدلنے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن جب نظام بدلنے کا وقت آتا ہے تو ہم مایوس ہو کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ شائد ہم بھول چکے ہیں کہ بحیثیت شہری ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بذریعہ ووٹ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں۔ ہم تبدیلی ضرور چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کرتے اگر واقعی نظام بدلنا ہے تو مخلص اور ایماندار قیادت کو منتخب کرنا ہو گا اور انتخابات ہی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم ایک مخلص، بے داغ اور ایماندار قیادت کو آگے لا سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply