ڈالر کی اونچی اڑان، ذمہ دار کون؟

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 131 روپے تک جا پہنچی

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 131 روپے تک جا پہنچی

نیوز ٹائم

امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی بے قدری کا سلسلہ روکنے کا نام نہیں لے رہا، تازہ اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے کے پہلے کاروباری روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 131 روپے تک جا پہنچی، گزشتہ کچھ عرصے سے روپیہ اپنی قدر کھو رہا تھا لیکن گزشتہ دنوں ڈالر کی قدر میں یکایک اضافے نے قومی کرنسی کو بری طرح پچھاڑ دیا ہے، کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ڈالر کی طلب میں اچانک اضافہ ہونے سے اس کی طلب بھی بے تحاشا بڑھ گئی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد وافر مقدار میں ڈالر خرید کر محفوظ سرمایہ کاری کر رہی ہے،

دوسری طرف معاشی ماہرین ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی نئی لہر کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں جس سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ملکی درآمدات و برآمدات کا جائزہ لیا جائے  تو پاکستان روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش، تیل، پٹرولیم مصنوعات، خوراک، زرعی اشیا، کوکنگ آئل، مشینری، الیکٹرونکس کا سامان سمیت کم و بیش ہر شعبہ زندگی سے متعلق مختلف اجناس درآمد کر رہا ہے  جبکہ برآمدات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، روپے کی قدر میں کمی نے یکایک نہ صرف امپورٹڈ مصنوعات کی قیمت بڑھا دی ہے بلکہ ملکی قرضوںمیں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی بے قدری کی وجوہات جاننے کیلئے بہت ضروری ہے  کہ تاریخ کے آئینہ میں جھانکا جائے، تو مناسبت سے جب ریسرچ شروع کی تو کچھ دلچسپ تاریخی حقائق سامنے آئے،  کہا جاتا ہے کہ عالمی تاریخ کے گزشتہ 2000ء سالوں میں سے 1800 سال ہندوستان دنیا کا خوشحال ترین امیر ملک تھا، دوسرے نمبر پر ہمسایہ ملک چین تھا، قدیم ہندوستان کی تاریخ میں سکہ رائج الوقت کو روپیہ کہا جاتا تھا،  لغوی طور پر لفظ روپیہ سنسکرت زبان کے روپا سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب چاندی کا سکہ ہے۔

عظیم Mauryan Empire کے بانی Chandragupta Maurya کے وزیر اعظم اور شہرہ آفاق فلسفی Chanakya gi نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب Arthashastra میں چاندی کے ریاستی سکوں کا تذکرہ Roopa Money کے نام سے کیا ہے

جبکہ سونے کے سکوں کو Sona Rupa ، کانسی کے سکوں کو Rupa Tamara اور Sese کے سکوں کو Sese Ropa کے نام سے پکارا ہے۔

آج دنیا کے 20 سے زائد ممالک کی سرکاری کرنسیوں کا نام ڈالر ہے جبکہ امریکی ڈالر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، مشرقی تیمور، اکیاڈور، ایل سالواڈور، مائیکرونشیا، مارشل جزائر، پلاو، کریبئن نیدرلینڈز، پاناما سمیت مختلف ممالک کی سرکاری کرنسی کا درجہ رکھتا ہے۔ 19ویں صدی کے اختتام تک سونا، چاندی سے صرف 15 گنا مہنگا ہوا کرتا تھا لیکن امریکہ میں چاندی کی بے شمار کانوں کی دریافت نے چاندی کی قدر گرا دی اور آج سونا، چاندی سے کم و بیش 70 گنا زیادہ مہنگا ہے، یہی وجہ تھی کہ 20ویں صدی کے اوائل میں امریکی حکومت نے طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) متعارف کراتے ہوئے سونے کو بطور کرنسی قرار دے دیا، گولڈ اسٹینڈرڈ اس امر کی یقین دہانی کراتا ہے کہ کاغذی کرنسی نوٹ حکومت کی طرف سے سونے کا متبادل ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب برصغیر پاک و ہند، برطانوی سامراج کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا، عالمی تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں ہونے کی بنا پر بڑی مقدار میں سامان تجارت برآمد کیا جاتا تھا، انگریز نے مقامی منڈیوں سے حاصل کردہ مال کی ادائیگی سونے یا چاندی میں کرنے کی بجائے فقط کاغذ کے ٹکڑوں پر ٹرخانے کیلئے نظامِ بینکاری متعارف کروایا،

جنگ آزادی1857ء کے بعد انگریز حکومت نے کاغذی کرنسی کا قانون بنایا، رفتہ رفتہ لوگ مغلیہ سلطنت کے زمانے کے خالص چاندی کے روپیوں اور سونے کی اشرفیوں کو بھولتے گئے اور انگریز سرکار کے جاری کردہ کاغذ کے نوٹ پورے برصغیر میں گردش میں آ گئے، لوگوں کے پاس محفوظ سونا بٹورنے کیلئے انگریزوں نے ڈاک خانوں میں پوسٹل سیونگ بینک قائم کئے جو پرکشش شرح منافع فراہم کرتے، چونکہ برطانیہ میں بھی گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ تھا  اس لئے برصغیر کا سونا برطانیہ منتقل کرنے کیلئے ہندوستان میں سلور اسٹینڈرڈ متعارف کیا گیا  جس کے تحت چاندی کا روپیہ بطور سرکاری کرنسی استعمال کیا جانے لگا،  حکومت لوگوں سے سونا قبول تو کر لیتی تھی لیکن دینے کی پابند نہیں تھی، انگریزوں نے ہندوستان کے تجارتی سامان کی ادائیگی بل کونسل میں کرنا شروع کر دی جو درحقیقت بینک ڈرافٹ کی ایک شکل تھی  اور اس کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی تھی،

انگریز سامراج کی اس چال کی بدولت کاغذی نوٹ چھاپ چھاپ کر برصغیر بھر سے مال خریدا جانے لگا، مورخین کے مطابق اس زمانے میں جتنے زیادہ کونسل بل چھپتے تھے اتنی زیادہ چاندی کی قیمت گرتی تھی، یہی وجہ تھی کہ لندن کی انڈیا کونسل کو ہر سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ کونسل بل چھاپنے پڑتے تھے تاکہ لندن میں سونے کی فراہمی میں کمی نہ آئے،  دوسری طرف چاندی استعمال کرنے والے ہندوستان پر ٹیکس میں ازخود اضافہ ہو جاتا تھا،

بینک آف انگلینڈ سونے چاندی کی قیمت پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے کونسل بل کی قدر میں گاہے بگاہے اتار چڑھائو لاتا رہتا۔ اپریل 1935 ء سے نوٹ چھاپنے کا اختیار نئے قائم کردہ ریزرو بینک آف انڈیا کو دے دیا گیا  جو کہنے کو تو ایک نجی مرکزی بینک تھا لیکن عملی طور پر بینک آف انگلینڈ کی ہندوستانی شاخ تھا۔ کہتے ہیں کہ جب انگریز برصغیر میں آیا تو مقامی لوگوں کے پاس سونا تھا  اور انگریزوں کے پاس کاغذی کرنسی لیکن جب انگریز برصغیر سے گیا تو سونا انگریزوں کے پاس تھا اور کاغذی کرنسی مقامی لوگوں کے پاس۔

آزادی کے بعد پاکستان نے برطانوی ہند کے جاری کردہ کاغذی روپے پر حکومتِ پاکستان کی مہر لگا کر کام چلایا، حصولِ آزادی کے وقت ایک امریکی ڈالر لگ بھگ 3 پاکستانی روپیوں کے برابر تھا جو آج 131 پاکستانی روپے کی سطح عبور کر رہا ہے،

دوسری طرف امریکی ڈالر 67 بھارتی روپے کے برابر ہے، یوں کسی وقت میں مستحکم سمجھا جانے والا پاکستانی روپیہ اپنی قدر کھونے کے بعد بھارتی روپے سے نصف ہو چکا ہے۔  آج اگر پاکستانی روپیہ ڈالر کے ہاتھوں قدر کھوتا جا رہا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں  کہ آج کے دور میں قوموں کو غلام بنانے کیلئے ان کی کرنسی کو بے قدر و قیمت کر دیا جاتا ہے، لمحہ فکریہ ہے کہ جب دنیا کے ممالک میں زیادہ سے زیادہ سونا جمع کرنے کی دوڑ ہے تو پاکستان کو عالمی دبائو کا سامنا ہے کہ اپنا سونا فروخت کر کے اور روپے کی قدر میں کمی لا کر کاغذی فارن ریزرو (زرِ مبادلہ) میں اضافہ کرے۔

دوسری طرف ہمارے بعد آزاد ہونے والا عظیم ہمسایہ دوست ملک چین دنیا کی مستحکم ترین اقتصادی طاقت کے روپ میں تیزی سے ڈھلتا جا رہا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق چین دنیا کا سب سے بڑا سونے کا ذخیرہ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے لیکن سونا بیچنے کو تیار نہیں، میری نظر میں چین کی ترقی کا یہی راز ہے کہ وہ اپنی کرنسی خود کنٹرول کرتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ پر موجود بِٹ کوائن سمیت کرپٹو کرنسی کی مقبولیت اشارہ کرتی ہے  کہ دنیا ڈالر کے شکنجے سے نکلنا چاہتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک دنیا اپنے ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر متبادل زر ِتجارت اپنا رہی ہے  تو ہم کیوں آزادانہ اقتصادی پالیسیاں اختیار کرنے سے ہچکچا رہے ہیں؟

No comments.

Leave a Reply