آئی ایم ایف: عمران خان کا پہلا معاشی امتحان

کا پہلا بڑا امتحان یہ ہو گا کہ آیا پاکستانی کرنسی پر دبائو ختم کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیا جائے یا نہیں۔ 1980 سے اب تک پاکستان کا یہ 12واں بیل آئوٹ پیکیج ہو گا

کا پہلا بڑا امتحان یہ ہو گا کہ آیا پاکستانی کرنسی پر دبائو ختم کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیا جائے یا نہیں۔ 1980 سے اب تک پاکستان کا یہ 12واں بیل آئوٹ پیکیج ہو گا

اسلام آباد  ۔۔۔ نیوز ٹائم

انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کا سرمایہ کاروں نے خیر مقدم کیا ہے تاہم سابق کرکٹر کو کرنسی بحران سے نمٹنے اور اقتصادی اتار چڑھائو روکنے کے لئے طویل المدت اصلاحات پر عملدرآمد کے سخت امتحان کا سامنا ہے۔ عمران خان کا پہلا بڑا اقتصادی امتحان یہ فیصلہ ہو گا کہ آیا پاکستانی کرنسی پر دبائو ختم کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیا جائے یا نہیں۔ 1980 سے اب تک پاکستان کا یہ 12واں بیل آئوٹ پیکیج ہو گا۔ اس سے بڑھ کر مشکل امتحان زیادہ لوگوں کو ٹیکس دینے پر راضی کرنا، حکومتی خزانے کو خالی کرنے والی سبسڈیز کو ختم کرنا  اور خسارے میں جانے والے ان سرکاری اداروں میں اصلاحات کرنا جنہیں سابقہ حکومتیں فروخت کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ مقامی بروکریج ہائوس کے سربراہ سلمان مانیا کے مطابق ملک کی صورتحال ایسی ہے کہ سٹیٹس کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کیلئے زیادہ وقت نہیں ہے۔ 305 ارب ڈالر کی معیشت میں ادائیگی کے عدم توازن کو کم کرنے کے لئے پاکستان کے مرکزی بینک نے دسمبر سے اب تک کرنسی کی قیمت 4 مرتبہ 20 فیصد کم کر دی ہے۔

2013 میں بھی ایسی صورتحال کے سبب پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6.7 ارب ڈالر قرض لیا تھا۔ 5.8 فیصد شرح نمو والی معیشت میں پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ پر دبائو کم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ مرکزی بینک کو عالمی سطح پر آئل کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش ہے۔ پاکستان اپنی آئل ضروریات کا 80 فیصد درآمد کرتا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر مئی 2017ء  میں 16.4 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔  30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 43 فیصد اضافہ کے ساتھ 18 ارب ڈالر ہو گیا ہے جبکہ مالی خسارہ معیشت کا 6.8 فیصد ہو گیا ہے۔

عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا ہے کہ  پاکستان کو اپنی تاریخ میں سب سے بڑے اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے۔ ہماری معیشت غیر فعال اداروں کے سبب کمزور ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنی گورننس کو بہتر کرنا ہو گا۔ اگر عمران خان نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو امکان ہے وہ مالی خسارہ کم کرنے کے لئے اخراجات کم کرنے کے لئے کہے گا۔ جس سے ان کے جدید سکول اور ہسپتال بنا کر غریبوں کے معیار زندگی بلند کرنے کے وعدوں کی تکمیل خطرے میں پڑ جائے گی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے پاکستان کے ٹیکس چوری کے کلچر کو ہدف بنایا۔ جنوبی ایشیا میں یہ کلچر عام ہے یعنی آبادی کا محض ایک فیصد طبقہ ٹیکس دیتا ہے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ معیشت اور عمران خان جنہوں نے حکومت کے پہلے 6 ماہ میں ایف بی آر کو ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا ہے، ان کیلئے ایک بہت بڑا انقلاب ہو گا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان نے انسداد بدعنوانی مہم تیز کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ اگرچہ اس سے خطرہ ہے کہ بڑا سرمایہ ملک سے باہر چلا جائے گا ایک اور چیز جس پر پوری توجہ دی جائے گی  وہ بڑے سرکاری ادارے مثلا پی آئی اے اور توانائی کے اداروں، جن کی نجکاری کیلئے سابقہ حکومت کوشاں تھی، میں اصلاحات کرنا ہے۔  ایک ریسرچ ہائوس کے مطابق پاکستان کا طویل المدت تاثر کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آیا عمران خان گورننس بہتر کر سکتے ہیں یا نہیں اور آیا بااثر لوگوں کی ٹیکس چوری کا کلچر ختم کر پاتے ہیں یا نہیں کیونکہ اس سے مالی پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بصورت دیگر ہمارے لئے حالات تقریباً یہی ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے تو سٹاک مارکیٹ میں حصص خرید لو اور آئی ایم ایف کا قرض ختم ہونے سے قبل فروخت کر دو۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان کے اصلاحات کے عزائم کو اس لئے تقویت ملے گی کیونکہ کرپشن کے خلاف موقف کی بنا پر ان کے طاقتور فوج اور عدلیہ سے تعلقات اچھے ہیں۔  انتخابات میں ان کی توقع سے بڑھ کر کارکردگی کا مطلب ہے کہ وہ ایسی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکیں گے  جو اصلاحات کے حوالے سے ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں گی۔

No comments.

Leave a Reply