کیا عمران خان پاکستان کے اردگان ہوں گے؟ ترکی کے صدر اردگان کی اپنی دور حکومت میں کارکردگی

کیا عمران خان پاکستان کے اردگان ہوں گے؟

کیا عمران خان پاکستان کے اردگان ہوں گے؟

نیوز ٹائم

انتخابی دوڑ میں تو عمران خان آگے آگے تھے۔ میاں نواز شریف کی تاعمر نااہلی، سزا اور لمبی قید کے بعد تو پنجاب میں میدان تقریباً خالی تھا۔ اور شہباز شریف تبدیلی کے آگے اپنی ترقی کے اینٹ، سریے کا بند نہ باندھ سکے۔ لیکن سونامی نے کچھ زیادہ ہی کام کر دکھایا۔ مسلم لیگ ن ہو یا MQM یا پھر Muttahida Majlis-e-Amal اور اے این پی، عمران خان کی لڑائی کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ پرانی جماعتوں کی بار بار کی باریوں کو رائے دہندگان کی بڑی تعداد خاص طور پر نوجوان اور نئے ووٹر ایک اور باری دینے کو تیار نہ تھے۔ کرپشن کے مد پہ تو تمام پرانے سیاستدانوں کی ایک مالی طور پر صاف ستھرے کپتان نے خوب گت بنائی کہ وہ صبح، شام صفائیاں دیتے دیتے تھک ہار گئے۔ پرانوں کو تو آزمایا جا چکا تھا، کیوں نہ عمران خان کو بھی ایک بار آزما لیا جائے۔ یہ تھی عوام کی رائے جو کرکٹ ورلڈ کپ ہیرو کے بہت کام آئی۔ پھر عمران خان کے تمام مخالفین کے خلاف جارحانہ باونسرز پہ میڈیا میں خوب تالیاں بجائی گئیں جس کی گونج ملک کے کونے کونے میں سنی گئی۔ اوپر سے پردہ غیب سے نہ صرف بڑے مخالف پہ اتنی بجلیاں گریں کہ وہ مجھے کیوں نکالا کی شکایت کرتے رہ گئے۔ سونامی خیبر پختونخوا سے پنجاب اور وہاں سے کراچی پہنچتی پہنچتی کچھ ایسی ماند پڑی کہ سندھ میں بلاول بھٹو کے جادو نے پیپلز پارٹی کو ایک اور زندگی عطا کی۔ بلاول کا جادو جاگا بھی تو دیر سے اور پنجاب پہنچتے پہنچتے بہت دیر ہو چکی تھی۔ لگتا ہے کہ جو مسالا ووٹنگ سے قبل لگایا گیا تھا وہ ووٹنگ کے فوری بعد کچھ جگہوں پر مزید لگانے سے تبدیلی کا رنگ نہ صرف چوکھا ہو گیا  بلکہ اتنا چوکھا ہو گیا کہ عمران خان کی توقع سے زیادہ کامیابی کو گہنا گیا۔ اوپر سے الیکشن کمیشن نے اتنی زیادہ نااہلی دکھائی کہ نتائج کے التوا نے تحریکِ انصاف کا جشن خراب کر دیا۔  سبھی مخالف پارٹیوں نے اپنے ایجنٹوں کو باہر نکال کر ووٹوں کی گنتی اور فارم 45 پر انتخابی نتیجہ کی عدم فراہمی پر دھاندلی کا نہ صرف سنگین الزام لگایا ہے  بلکہ خاص طور پر مسلم لیگ ن، Muttahida Majlis-e-Amal اور MMA نے انتخابی نتائج کو بھی رد کر دیا ہے۔

انتخابات کے دن دی نیوز کے مضمون میں میں نے حالات کو بھانپتے ہوئے لکھا تھا کہ جیتنے والے جیت پر فخر نہ کر سکیں گے اور ہارنے والے ہار پر شرمندہ نہ ہوں گے۔ 2013 کے انتخابات کی طرح 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر بھی اگلے انتخابات تک سینہ کوبی کی جاتی رہے گی۔ عمران خان نے گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ہنگاموں کی جو روایت قائم کی تھی، اب وہ اس کا ذائقہ چکھنے کے لئے تیار رہیں۔ ہمارے ملک میں بیچارے حقِ رائے دہی کے مقدر میں بس یہی لکھا ہے۔تبدیلی تو آ گئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی سیاسی جگہ، اب جنرل مشرف کی سیاسی کے طور پر سامنے آ گئی ہے۔ اس میں جو اچنبھے کی بات نہیں وہ یہ ہے کہ پی این اے کی تحریک سے مذہبی جماعتوں کی سیاست کو جو وسعت ملی تھی وہ اب اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان جیسے متین علما کی جگہ جو فرقہ پرست سامنے آئے ہیں وہ کوئی اچھا شگون نہیں۔

نواز شریف کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ ن کو بہت دھچکا لگا ہے  اور ان کے خاندانی جانشین برادرِ خورد ووٹ کو عزت دو کا پرچم تھامنے میں ناکام ہو گئے۔ مسلم لیگ ن اب پنجاب میں لمبے عرصے تک چھائے رہنے کے بعد پسپائی کی طرف جائے گی۔ مسلم لیگ ن کو اب ایک جاندار قیادت کے لئے مریم نواز کی رہائی کا انتظار کرنا ہو گا۔ ان انتخابات میں بہت سے پرانے بت ٹوٹ گئے اور سیاست میں نئی قیادت اور نئی پودے کا اضافہ ہوا ہے، جو خوش آئند ہے۔ ان میں پی ٹی آئی میں بھی بہت سے نئے چہرے سامنے آئے ہیں جن میں نہایت تیز و طرار پڑھے لکھے فواد چوہدری بھی ہیں۔

سب سے بڑا نیا نام نوجوان بلاول بھٹو ہیں جنہیں اپنے ترقی پسند خیالات، عوام دوستی اور اصول پسندی کے باعث وسیع تر حلقوں میں پذیرائی ملی ہے اور جن سے آئندہ ایک بڑے رول کی امید کی جا رہی ہے۔ اے این پی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی کی شکست کے بعد بلوچ اور پختون قوم پرست قیادتوں کو نئے لوگوں کے لئے راہ چھوڑنی ہو گی۔ اب وقت ہے کہ آصف علی زرداری بھی بلاول بھٹو کے لئے جگہ چھوڑ دیں۔ نئی پودے کو صاف ستھری سیاست، آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خود مختاری، ذمہ دار، اچھی حکومت اور عوام کی خدمت کا وطیرہ اپنانا ہو گا  کیونکہ پرانی سیاست کا آلودہ اوڑھنے کے قابل نہیں رہا۔

اپنی انتخابی مہم کے زبان دراز بیانیے کے برعکس، عمران خان کی وزارتِ عظمی کے منتظر لیڈر کے طور پر تقریر سادہ، نرم گو، سنجیدہ اور عوامی تھی۔ مبینہ انتخابی دھاندلی پہ تمام حلقے کھولنے کی دعوت دے کر انھوں نے اپوزیشن کی احتجاجی کال کی ہوا نکال دی ہے۔ سادگی اپنانے، اچھی حکومت دینے، احتساب اور خود احتسابی کی باتیں سب اچھی ہیں۔ خارجہ امور پر ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کا عزم بھی قابلِ تعریف ہے۔ لیکن نئے وزیر اعظم کے سامنے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ خان صاحب نے تبدیلی اور اسٹیٹس کے نعروں سے عوام اور نوجوانوں میں بہت بڑی امیدیں پیدا کر دی ہیں جو ناکامی کی صورت میں سخت ردعمل کو بھی جنم دے سکتی ہیں۔  انہیں پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سخت اپوزیشن کا سامنا ہو گا اور قانون سازی کے لئے انہیں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی،  اس کے لئے سیاسی مخالفین کے خلاف کسی طرح کی انتقامی کارروائی سے پرہیز کی پالیسی کا اعلان اچھا ہے۔  البتہ مرکز، پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان میں ممکنہ مخلوط حکومت کے باعث ان کے لئے اپنے ایجنڈے کے 11 نکات پر عمل کرنے میں آسانی ہو گی  کیونکہ ان کے 11 نکاتی ایجنڈے کا زیادہ تر تعلق صوبائی معاملات سے ہے۔ ملک کو جو معاشی و مالیاتی بحران درپیش ہے، اس کے سدِباب کے لئے فوری اقدامات ضروری ہوں گے۔ جس میں کشکول توڑنا تو دور کی بات بھیک کا دامن اور پھیل جائے گا۔ ترقی کے جس ماڈل کی وہ بات کر رہے ہیں اس کا مرکز انسانی ذرائع کی ترقی ہے جس میں صحت، تعلیم، تربیت، روزگار اور کاروبار کے مواقع ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ٹیسٹ یہ ہو گا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے غیر پیداواری اخراجات کتنے کم کرتے ہیں اور لوگوں پہ کتنا اور کہاں خرچ کرتے ہیں۔ ٹیکسوں کے نظام اور ریاستی اداروں میں اصلاحات کوئی آسان کام نہیں۔ اس پر 50 لاکھ گھروں، ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے پورے کرنے بھی ایک اہم مسئلہ ہیں۔

پہلے 100 دن کا امتحان، شاید پاکستان کی تاریخ میں کسی لیڈر کا سخت ترین امتحان ہے۔ اور اپوزیشن کو انہیں کام کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔  لیکن ان کے پاس اردگان کی طرح ایک دائیں بازو کی جدید منظم جماعت نہیں اور نہ ہی وہ ان بیساکھیوں سے جان چھڑا پائیں گے جن کے سہارے وہ وزیر اعظم ہائوس پہنچے ہیں جس میں رہنے سے وہ ہچکچا رہے ہیں۔ بڑا ڈیزائن تو یہی تھا کہ ایک پاپولر، سخت گیر اور اصلاحی پاور بلاک تشکیل پائے اور جس میں اداروں کا سکہ چلے۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خان ایک عوام تابع وزیر اعظم بنتے ہیں جو ان کی شخصیت میں نہیں یا ایک مضبوط سویلین حکمران کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ یا پھر ایک آمر؟ ان کے لئے بڑا چیلنج اچھی حکومت کو یقینی بنانا، معاشی بحران کو حل کرنا اور دنیا میں پاکستان کی تنہائی کی وجوہات کو دور کرنا ہو گا۔ اگلے 6 ماہ میں یا تو ان کے کس بل نکل جائیں گے یا پھر وہ آگے بڑھ جائیں گے۔ یہ تبھی ہو گا کہ کچھ قوتوں کی حد سے بڑھی ہوئی مداخلت آئینی دائرے تک محدود کر دی جائے۔ اور ووٹ کو عزت دو کتنی ہو پائے گی یا نہیں، اس کے لئے اگلے انتخابات تک انتظار کرنا پڑے گا۔

ترکی کے صدر اردگان کی اپنی دور حکومت میں کارکردگی:

حالیہ کچھ عرصے کے دوران جب سے نواز شریف کو گرفتار کیا گیا ہے اس وقت سے پاکستان کے تمام ہی ٹاک شوز اور اخبارات میں ترک صدر اردگان کی طرح ملک میں اسٹیبلشمنٹ پر گرفت قائم رکھنے اور اسے وزارتِ دفاع کی نگرانی میں دیتے ہوئے  ملکی سیاست میں دخل اندازی کے تمام دروازے بند کرنے کے عمل کو پاکستان میں بھی متعارف کروانے کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔  ترک صدر اردگان کو اسٹیبلشمنٹ پر سویلین حکومت کی گرفت اور ملکی سیاست میں دخل اندازی سے باز رکھنے کے لئے بڑے عمل سے گزرنا پڑا ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جدید جمہوریہ ترکی کے قیام ہی سے اپنی گرفت مضبوطی سے قائم کئے رکھی ہے۔  کبھی فوج نے مارشل لا لگاتے ہوئے براہ راست اپنا اقتدار قائم کئے رکھا تو کبھی اسٹیبلشمنٹ اپنی پسند کی سویلین حکومت کو برسر اقتدار لاتے ہوئے من و عن اپنے احکامات کی تعمیل کرواتی رہی ہے۔

Süleyman Demirel ، Tansu Çiller ، Bülent Ecevit ، Turgut Özal ، Yıldırım Akbulut ، Necmettin Erbakan تقریباً تمام ہی وزرائے اعظم ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کو اپنے تیار کردہ منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کا موقع نہ دئیے جانے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔  اسٹیبلشمنٹ نے صرف ملکی انتظامیہ پر ہی گرفت قائم نہ کئے رکھی بلکہ اردگان دور سے قبل تک ان کا ہمیشہ ہی میڈیا پر مکمل کنٹرول قائم رہا ہے۔  اخبارات کی خبروں سے لے کر کالموں تک کی ایک ہی جنبش میں کاٹ چھانٹ کر دی جاتی رہی ہے  اور کالم نگاروں کی اخبارات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹی بھی کروائی جاتی رہی ہے اور خاص طور پر مذہبی رجحان رکھنے والے کالم نگاروں کے کالموں کا قینچی کی زد میں نہ آنا ناممکن سمجھا جاتا رہا ہے۔ ترک فوج بیرکوں میں رہتے ہوئے بھی تمام سویلین حکومتوں کو تگنی کا ناچ نچاتی رہی ہے۔  ترک فوج اتاترک کے دور میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور ملک میں برپا کئے جانے والے انقلابات کی آڑ میں ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے تعاون  اور نام نہاد اور یکطرفہ سیکولرازم کی تلوار کا سہارا لیتے ہوئے سویلین حکومتوں کو کوالیشن پر مجبور کرتی رہی ہے۔ ترک اسٹیبلشمنٹ نے جس طریقے سے Necmettin Erbakan کی حکومت کا تختہ الٹا تھا، اسے کوئی بھی نہیں بھول سکا ہے۔ ملک میں نام نہاد سیکولرازم کی آڑ میں حزب ِ اختلاف کے ملین افراد پر مشتمل جلسوں اور ریلیوں کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے؟  جلسوں میں تو لوگ جوق در جوق شرکت کرتے رہے لیکن انتخابات کے وقت ووٹ کسی اور ہی جماعت کو پڑتے رہے۔

اسٹیبلشمنٹ نے اردگان کے دوسرے دور میں عدلیہ کا سہارا لیتے ہوئے Justice and Development Party پر پابندی لگانے کی بھی کوشش کی لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہاں بھی منہ ہی کی کھانا پڑی، Establishment نے AK Party کے پہلی بار برسر اقتدار آنے پر صدر اردگان کو مذہبی اشعار پڑھنے کی پاداش میں جیل کی سزا دلوا کر وزارتِ عظمی سے دو رکھنے کی بھی کوشش کی تھی جو دیگر پارٹیوں کے تعاون سے آئین میں ترامیم کرواتے ہوئے ناکام بنا دی گئی تھی۔  اردگان اس وقت ہی یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ دیگر سیاستدانوں کی طرح ان کی حکومت کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہے گی،  اس لئے انہوں نے پہلے روز ہی سے عوام کی خدمت کو اپنا اشعار بنا کر اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اردگان نے اپنی وزارتِ عظمی کے پہلے دونوں ادوار میں بڑے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو ذرہ بھر بھی نہ چھیڑا حالانکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تمام ریشہ دوانیوں سے پوری طرح باخبر تھے۔

اردگان نے اس دوران ملک کی اقتصادیات کی طرف خصوصی توجہ دی اور فی کس آمدنی کو 2000 ڈالر سے بڑھا کر 11000 ڈالر تک پہنچا دیا اور ملک کو اقتصادی لحاظ سے 16ویں بڑی طاقت بنا کر جی 20 ممالک کی صف میں جگہ پانے میں کامیابی حاصل کی۔ وزیر اعظم اردگان نے اپنے پہلے دونوں ادوار میں اپنی حکومت کو مضبوط بنانے اور ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے کی جانب خصوصی توجہ دی کیونکہ وہ جانتے تھے سیاسی لحاظ سے کمزور ہونے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ Adnan Menderes کی طرح انہیں بھی تختہ دار پر لٹکانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی اور مختلف وزرائے اعظم کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی طرح ان کی حکومت کا بھی تختہ الٹنے میں ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچائے گی۔

ان تمام باتوں سے باخبر وزیر اعظم اردگان نے اپنے پہلے دونوں ادوار کے برعکس تیسرے دور میں 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد آخر کار اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالنے سے قبل اردگان نے محکمہ پولیس کی ازسرنو تشکیل کی، اس کی خفیہ سروس ڈیپارٹمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ سروس ڈیپارٹمنٹ سے بھی زیادہ مضبوط بنایا اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے حکومت کے خلاف بنائے جانے والے تمام پلان اور کارروائیوں سے متعلق معلومات یکجا کیں۔ اردگان حکومت نے اس دوران عدلیہ کو بھی نئے خطوط پر استوار کیا اور اس پر اسٹیبلشمنٹ کے تمام اثر و رسوخ کو ختم کرتے ہوئے اسے اسٹیبلشمنٹ کا ذیلی ادارہ بننے سے روک دیا۔ اردگان حکومت نے ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ عدلیہ اور محکمہ پولیس میں ہونے والی ان بڑی تبدیلیوں کے بعد اردگان حکومت نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق معلومات اور دستاویزات کو پولیس سے حاصل کرتے ہوئے عدلیہ کے روبرو پیش کر دیا اور اسی دوران آئین مین ترامیم کراتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ پر سول عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی راہ ہموار کرا لی۔

صدر اردگان کو اپنے وزیر اعظم ہونے کے ابتدائی دور میں مختلف شعبوں کے سربراہان متعین کرنے کا بھی حق حاصل نہ تھا۔ اردگان کی جانب سے مختلف عہدوں کے منتخب کئے جانے والے بیورو کریٹس اس وقت کے صدر Ahmet Necdet Sezer جو اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کی تعمیل کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے اردگان کی جانب سے متعین کئے جانے والے مختلف شعبوں کے سربراہان کو آئین کی رو سے ویٹو استعمال کرنے کے اختیارات سے وزیر اعظم اردگان کے پسندیدہ بیورو کریٹس کی اپنی میعاد پوری ہونے تک تعیناتی تک نہ ہونے دی۔ صدر Ahmet Necdet Sezer کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد جب Ak Party ہی سے تعلق رکھنے والے Abdullah Gül نے صدارتی فرائض سنبھالے تو اس وقت ہی اردگان کے لئے ملک کی ترقی کے راستے پوری طرح کھل گئے اور انہوں نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی کو دنیا کے گنے چنے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ترکی جیسے جیسے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا رہا اسٹیبلشمنٹ کے اندر تشویش کی لہر پیدا ہوتی رہی  کیونکہ ترکی تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک سے نکل کر دنیا کے 16ویں بڑے اقتصادی ملک کا روپ دھارتے ہوئے جی 20 ممالک کی صف میں شامل ہو چکا تھا۔

اسی دوران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دو بار اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی لیکن وقت سے قبل ہی اطلاع ملنے پر تختہ الٹنے کی کوششوں میں ملوث تمام جرنیلوں کو سزا دلوا کر پہلی بار سویلین حکومت کی اسٹیبلشمنٹ پر برتری کو ثابت کر دیا گیا  جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اردگان کے خلاف اپنی پالیسی میں تبدیلی کر لی اور سویلین حکومت کے خلاف کارروائی نہ کرنے ہی میں اپنے ادارے کی عافیت سمجھی۔ لیکن اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے اندر اردگان کے خلاف نفرت پھیلانے، ان کو غدار قرار دئیے جانے اور ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے Fethullah Gülen کے تعاون سے اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی 15 جولائی 2016ء  کو آخری کوشش کی  لیکن Allah کے فضل و کرم سے اردگان اور ان کی حکومت محفوظ رہی اور عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اور ٹینکوں کے آگے لیٹتے ہوئے ملک میں جمہوریت کا بھرپور ساتھ دیا۔

صدر اردگان نے اپنی انتھک کوششوں کے بعد ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے، عوام کے لئے خوشحالی اور رفاع کا بندوبست کرنے اور دنیا بھر میں ترکی کو بلند مقام دلوانے کے بعد ہی اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالا  اور اب اسٹیبلشمنٹ کو مکمل طور پر وزارتِ دفاع کے ماتحت کر دیا گیا ہے  اور ترکی کے ریٹایرڈ چیف آف جنرل اسٹاف Hulusi Akar کو وزیر دفاع متعین کرتے ہوئے فوج پر مکمل گرفت قائم رکھی ہوئی ہے۔

پاکستان میں بھی صرف اسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث ہونے سے روکا جا سکتا ہے جب کوئی سویلین حکومت اپنے عوام اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے  اور پاکستان کو دنیا میں بلند مقام دلوانے میں کامیاب ہو ورنہ اسٹیبلشمنٹ یوں ہی سیاستدانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہے گی  اور سیاستدان ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ پر سیاست میں دخل اندازی کا رونا روتے رہیں گے۔

No comments.

Leave a Reply