افغان طالبان اور امریکہ میں براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار ہونے لگی

امریکی سفیرایلس ویلز  ملاقات  کی قطر میں طالبان کے اہلکاروں سے ملاقات

امریکی سفیرایلس ویلز ملاقات کی قطر میں طالبان کے اہلکاروں سے ملاقات

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغان طالبان کے سربراہ مولوی Hebatullah Akhundzadaنے قطر کے دفتر کی سفارش پر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے ابتدائی مسودے کی منظوری دے دی ہے۔ جبکہ حقانی نیٹ ورک نے بعض معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ادھر افغان طالبان نے پاکستان کی نئی حکومت کے حوالے سے کوئی ردعمل دینے سے گریز کرتے ہوئے انتظار کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دسیتاب اطلاعات کے مطابق افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے امریکا کی خاتون نمائندہ Alice Wells نے چند روز قبل قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں Mawlawi Abbas Stanikzai ، Shahab Din اور Sohail Shaheen کے ساتھ ملاقات کی۔ قطر میں امریکی سفارت خانے کے حکام بھی اس ملاقات میں شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق امریکا نے افغان طالبان سے ایک مہینے کے اندر براہ راست مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ وہ ترکی، قطر یا سعودی عرب میں بھی مذاکرات کرنے پر تیار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات ممکنہ طور پر وسطی ایشیا کے کسی ملک میں بھی ہو سکتے ہیں۔ حزب اسلامی کے سابق ترجمان اور اب قطر دفتر میں افغان طالبان کے ترجمان Sohail Shaheen کے مطابق امریکا براہ راست مذاکرات کے لیے نہ صرف آمادہ ہے، بلکہ طالبان کی شرائط پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے جمعہ کے روز افغان رہبر شوریٰ کو امریکی تجویز سے آگاہ کیا، جس کے بعد شوریٰ نے مذاکرات کے لیے ابتدائی تجاویز پیش کی ہیں اور اس ابتدائی مسودے کی افغان طالبا کے سربراہ مولوی Hebatullah Akhundzadaنے بھی منظوری دے دی ہے۔ ابتدائی مسودے کے مطابق طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہو گا۔ امریکا اگر افغانستان حکومت کے صلاح و مشورہ کرنا چاہتا ہے تو طالبان کو کوئی اعتراض نہیں۔ امریکی انخلا کی مدت 3 سال سے ایک دن بی زیادہ نہیں ہو گی اور اس دوران امریکا تمام اسلحہ افغانستان سے واپس لے جائے گا۔ کسی بھی طالبان مخالف گروپ اور پرائیوٹ ملیشیا کو کئی اسلحہ نہیں دیا جائے گا۔

افغان طالبان کو حکومت میں شامل کیا جائے گا اور انہیں کئی صوبوں کی گورنر شپ دی جائے گی۔ افغان طالبان ابتدائی طور پر 13 صوبوں کی گورنرشپ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ افغان طالبان، امریکا اور ایران کے مسئلے پر غیر جانبدار رہیں گے، جبکہ امریکا، ایران کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا اور افغانا طالبان کے درمیان اس نکتے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ امریکا، ایران کے خلاف افغان طالبان کی مدد چاہتا ہے اور اس کے عوض افغان طالبان  کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہے۔ تاہم طالبان نے یہ بات سختی سے مسترد کر دی ہے اور مذاکرات میں یہ تحریری نکتہ شامل ہو گا کہ ایران اور امریکا کی ممکنہ محاذ آرائی میں نہ صرف افغان طالبان غیر جانبدار رہیں گے، بلکہ امریکہ کو افغان سرزمیں استعمال بھی نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی افغان طالبان کے تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور سب سے پہلے Anas Haqqani کی رہائی عمل لائی جائے گی۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے امریکہ کی جانب سے بعض تجاویز پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور افغان طالبان کے رہنمائوں کو بتایا ہے  کہ حقانی نیٹ ورک 1980ء سے 1990ء تک تقریبا 10 سال امریکا کا اتحادی رہا ہے۔ اس لئے وہ جانتے ہیں کہ امریکا کا جب بڑا مقصد پھنس جاتا ہے تو وہ اپنے دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتا ہے اور یہ تعلق مطلب نکلنے تک ہی رہتا ہے۔ ایران کی وجہ سے افغان طالبان کی قدر و قیمت اس وقت بڑھ گئی ہے۔ اس امریکا کو افغان طالبان کی ضرورت ہے۔ اسی لئے قطر دفتر کے سامنے امریکی حکام نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ امریکا کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے بعد طالبان سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم اس وقت افغان طالبان کے ساتھ ایران، سعودی عرب، امریکا اور روس کے خفیہ رابطے جاری ہیں  اور ان ممالک کی کوشش ہے کہ کسی بھی معاہدے ک صورت میں امریکا کو زیادہ فائدہ نہ پہنچے۔ ادھر افغان طالبان نے پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل اور تحریک انصاف کی جیت پر کوئی ردعمل دینے سے اپنے تمام عہدیداروں کور وک دیا ہے اور انہیں انتظار کرنے کی پالیسی اخیتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

No comments.

Leave a Reply