سراج الحق نے پارلیمنٹ میں حلف نہ لینے کی فضل الرحمان کی تجویز مسترد کر دی، متحدہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں ،

متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر  اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق

متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق

لاہور، کراچی  ۔۔۔ نیوز ٹائم

متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر اور Jamaat-e-Islami پاکستان کے Amir Siraj ul Haq نے پارلیمنٹ سے حلف نہ لینے کی مولانا فضل الرحمان کی تجویز مسترد کر دی،  پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے عمران خان کا وعدہ پورا ہونے کا انتظار کریں گے، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جمہوریت کے استحکام کے لیے بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، ہم نے باکردار قیادت کو انتخابی عمل کا حصہ بنایا لیکن اداروں کی بہت زیادہ مداخلت نے رائے عامہ کو متاثر کیا۔Jamaat-e-Islami کے مرکز Mansura میں پریس کانفرنس کے دوران سراج الحق نے کہا کہ مخالفت برائے مخالفت کے قائل نہیں، پورے وقار کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ نائب صدر MMA نے کہا کہ ہم نے باکردار قیادت کو انتخابی عمل کا حصہ بنایا  لیکن اداروں کی بہت زیادہ مداخلت نے رائے عامہ کو متاثر کیا اور قومی و سیاسی قیادت کو منظر سے ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ سراج الحق نے کہا کہ کراچی سے دیر اور چترال تک انتخابی نتائج بروقت جاری نہ کیے جا سکے اور الیکشن کے پورے عمل کو مشکوک بنایا گیا، افسوس کہ پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال کر ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع کیا گیا۔  سراج الحق نے کہا کہ جمہوریت کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر اس کی روح نکالنے کی کوشش کی گئی  تاہم شدید تحفظات کے باوجود نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں،  پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے عمران خان کا وعدہ پورا ہونے کا انتظار کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جمہوریت کے استحکام کے لیے بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔

الیکشن میں بڑی ناکامی کے بعد متحدہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کے اہم رکن جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان کی مجوزہ احتجاجی تحریک کا حصہ بننے پر تیار نہیں۔ اس حوالے سے جماعت کی قیادت پر ذمے داروں اور کارکنان کا دبائو ہے کہ ایم ایم صرف ”انتخابی اتحاد” تھا۔ چنانچہ الیکشن کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں، خصوصاً ایسی بدترین ناکامی کے بعد۔

واضح رہے کہ متحدہ مجلس حالیہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی 13 نشستیں، خیبر پختوانخواہ اسمبلی کی 9، بلوچستان اسمبلی کی 10 اور سندھ اسمبلی کی ایک سیٹ ہی حاصل کر سکی ہے۔ ان سیٹوں میں سے جماعت اسلامی کو سندھ میں صوبائی اسمبلی کی ایک اور خیبر پختون میں سے ایک قومی اور ایک صوبائی کی سیٹ ملی ہے۔ جبکہ 2013ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کو قومی کی 12 اور صوبائی کی 19 نشستیں ملی تھیں۔

ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس عمل کو حالیہ الیکشن کے لیے فعال کرنے کے بعد سے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان مسائل کو حل نہ کرنے سے ایم ایم اے انتخابات میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکی۔ اس وجہ سے اب ایم ایم اے کے مقاصد کی تکمیل سے قبل ہی ٹوٹنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا  جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی کے بزرگ اراکین کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر جماعت کی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے میں جا کر جماعت اسلامی نے اپنا اثر کھویا ہے۔ اسی وجہ سے الیکشن میں ماضی کے برعکس کامیابی کے بجائے ناکام کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس تنقید میں اس وقت اضافہ ہوا جب مولانا فضل الرحمان نے الیکشن نتائج تسلیم کرنے کے بجائے دوبارہ الیکشن کرانے، احتجاجی تحریک چلانے اور حلف نہ اٹھانے کا معاملہ اٹھایا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے مرکزی شوریٰ کا اجلاس اتوار کو لاہور منصورہ میں طلب کیا گیا  جس میں شکست کی وجوہات، احتجاجی تحریک میں شامل ہونے یا نہ ہونے سمیت دیگر امور پر مشاورت کی جائے گی۔

ذرائع کے بقول حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان ایم  ایم اے میں جانے کی وجہ سے جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔ کیونکہ 2013ء کے الیکشن میں خیبر پختون میں اسے صوبائی اسمبلی کی 19 نشستیں ملی تھیں جس کے بعد اس کو 6 خواتین کی مخصوص نشستیں دی گئیں۔ جبکہ قومی اسمبلی کی 12 نشستیں اور ایک سیٹ اس کو قبائلی علاقے سے بھی ملی تھی، جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کے پاس قومی کی کل 13 سٹییں ہو گئی تھیں۔ جبکہ ایم ایم اے کا اتحادی ہونے کے باوجود بھی جماعت اسلامی کے امیدواروں میں صرف مولانا عبد الاکبر چترالی نے پی ٹی آئی کے عبد الطیف کے مقابلے مین 48616 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ دیر بالا سے صوبائی ایک سیٹ جیتی ہے جس میں پی کے 12 سے مولانا عنایت اللہ نے پی ٹی آئی کے نوید انجم خان کو شکست دے کر 27413 وو حاصل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان سے جماعت اسلامی کو کوئی بھی سیٹ نہیں ملی  جبکہ  سندھ میں کراچی میں لیاری کی ایک نشست سے سید عبدالرشید نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالناصر بلوچ کے مقالے میں 16082 ووٹ کے کامیابی حاصل کی ہے۔

جماعت اسلامی خیبر پختون کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا تھا کہ ہمیں کم از کم خیبر پختونخواہ میں ایم ایم اے کی حکومت بنانے کی توقع تھی۔ کیونکہ صوبے میں 99 جنرل سیٹیں ہیں  اور ہمیں تو امید تھی کہ 60 کے لگ بھگ سیٹیں ہم لے لیں گے جس کے بعد ہم حکومت بنا سکیں گے۔ تاہم خلاف توقع نتائج آئے ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہت ساری دینی و مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کا حصہ نہیں بن سکیں۔ جبکہ 2002ء میں جس طرح تحریک چلی تھی اس وقت وہ تحریک نہیں چلائی جا سکی۔ احتجاجی تحریک میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی نے اس حوالے سے مرکزی شوریٰ کا اجلاس لاہور میں بلایا ہے جس میں تمام فیصلے کئے جائیں گے۔

No comments.

Leave a Reply