نئے وزیر اعظم کا انجام ؟

نئے وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی اگلے چھ ماہ میں نظر آ جائے گی

نئے وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی اگلے چھ ماہ میں نظر آ جائے گی

 (حامد میر کالم)

نیوز ٹائم

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ کراچی اور کچرا ایک دوسرے کی پہچان بن چکے ہیں۔ کراچی کا کچرا صرف گندگی کا ڈھیر نہیں رہا بلکہ اس گندگی میں سے کبھی کبھی ایسی چیزیں بھی نکل آتی ہیں جنہیں یہ قوم بہت مقدس سمجھتی ہے۔  25جولائی کے الیکشن سے قبل پاکستانی قوم کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے  اسے بہت سوچ سمجھ کر بیلٹ باکس میں ڈالیں لیکن 25 جولائی کے بعد بہت سے ووٹ کراچی میں کچرے کے ڈھیروں پر جلتے ہوئے دیکھے گئے۔ کراچی کے شہریوں نے کچرے کے ڈھیروں پر جلائی جانے والی قوم کی کچھ مقدس امانتوں کو آگ سے بچا لیا  تو پتہ چلا یہ ایسے بیلٹ پیپرز تھے جن پر پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان تیر اور MQM Pakistan کے انتخابی نشان پتنگ کے سامنے مہریں لگی ہوئی تھیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیلٹ پیپرز کے تحفظ کیلئے فول پروف انتظامات کا دعویٰ کیا تھا لیکن جب یہ بیلٹ پیپرز کچرے کے ڈھیروں پر جلتے نظر آئیں گے تو پھر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ الیکشن کمیشن نے فول پروف انتظامات نہیں کئے بلکہ پوری قوم کو فول بنانے کے انتظامات کئے۔25جولائی کی رات میں کراچی میں جیو نیوز کی الیکشن ٹرانسمیشن میں موجود تھا اور رات 9 بجے کے بعد پیپلز پارٹی، MQM، مسلم لیگ (ن)، Muttahida Majlis-e-Amal ، پی ایس پی، Tehreek-e-Labaik اور اے این پی سمیت کئی جماعتوں نے دھاندلی کے بارے میں اول فول شروع کر دی تھی۔

مجھے 2018ء کے الیکشن کی رات 2013ء  کا الیکشن یاد آ گیا۔ 2013 میں تحریک انصاف دھاندلی کا شور مچا رہی تھی۔ 2013 کے الیکشن کی رات لاہور سے تحریک انصاف کے امیدوار Shafqat Mahmood نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ ان کا نتیجہ روک لیا گیا ہے۔ میں نے الیکشن ٹرانسمیشن میں کافی شور مچایا کہ شفقت محمود کا نتیجہ کیوں روکا گیا۔ یہی معاملہ کراچی میں Dr. Arif Alvi کو درپیش تھا جس جس کی بات میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ گئی وہ بچ گیا باقی سب ہار گئے۔

 2018ء کے الیکشن کی رات تحریک انصاف نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، MQM، مسلم لیگ (ن) اور MMA چیخ رہی تھی۔ رات ساڑھے 11  بجے مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق وزیر نے WhatsApp کال پر کہا کہ ہم لٹ گئے، برباد ہو گئے کوئی ہماری نہیں سن رہا پلیز ہمارے لئے آواز اٹھائو۔ دل چاہا کہ ان صاحب کو جواب میں کہوں کہ روک سکو تو روک لو لیکن پھر خیال آیا کہ بیچارا مشکل میں ہے۔  میں نے موصوف کو اتنا ضرور کہا کہ 2013ء کے الیکشن کی رات ایسی ہی چیخ و پکار تحریک انصاف والے کر رہے تھے  اور جب میں ان کی شکایت عوام تک پہنچاتا تھا تو آپ مجھ پر عمران خان سے دوستی نبھانے کا الزام لگاتے تھے  اور Ishaq Dar نے تو الیکشن کمیشن سے میری تحریری شکایت کر دی تھی۔  میں نے اس مسلم لیگی رہنما سے کچھ مزید تفصیلات لے کر ان کی شکایت کا بھی ذکر کر دیا۔ 25جولائی کی رات دھاندلی کی سب سے زیادہ شکائتیں بلوچستان سے آ رہی تھیں۔ 2013 میں بھی سب سے زیادہ شکائتیں بلوچستان سے آئیں اور کوئٹہ میں کچرے کے ڈھیروں سے بیلٹ پیپرز ملے تھے۔ 2013 میں الیکشن سے پہلے ہی سب جانتے تھے کہ نواز شریف اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔

2018 میں الیکشن سے پہلے اکثر لوگوں کو پتہ تھا کہ عمران خان وزیر اعظم ہوں گے۔ ہمارے ملک میں وزیر اعظم کا فیصلہ الیکشن سے پہلے ہو جاتا ہے۔ الیکشن محض ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے جس پر اربوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ جس طریقے سے 2013ء میں نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا اسی طریقے سے 2018ء میں عمران خان کو وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے۔ 2013 میں بھی نواز شریف کو آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑی تھی۔ 2018ء میں عمران خان بھی آزاد امیدواروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے تحریک انصاف Maulana Azam Tariq کے بیٹے Muavia Azam Tariq کے دروازے پر جا پہنچی ہے۔مسلم لیگ (ن) والوں کو Chaudhry Parvez Elahi یاد آ گئے ہیں۔

یاد کیجئے کہ 25 جولائی سے پہلے مسلم لیگ (ن) والے کیا کیا نہیں کہتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی ہمیں ڈھونڈے گی اور ہم نہیں ملیں گے۔ کوئی کہتا تھا کہ 25 جولائی کو نواز شریف کا بیانیہ پاکستان میں انقلاب برپا کر دے گا لیکن 25 جولائی کے بعد مسلم لیگ (ن) ایک طرف پیپلز پارٹی سے جھک جھک کر مل رہی ہے دوسری طرف چوہدری پرویز الہی کو سلیوٹ مار رہی ہے۔ کہاں گیا آپ کا انقلاب اور آپ کا نظریہ؟ جب اس ناچیز نے پاناما اسکینڈل کے بعد یہ کہنا شروع کیا کہ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کی بجائے کچھ سوالات کا صاف اور سیدھا جواب دیا جائے تو Maryam نواز صاحبہ کا رویہ ہی بدل گیا اور پھر ان کی سرکردگی میں چلنے والے سوشل میڈیا سیل نے میرے مرحوم والد کو بھی نہیں بخشا۔ میں تو ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتا تھا لیکن جو بگاڑ سکتے تھے ان کے فیصلے کی اطلاع اس ناچیز نے 30 مئی 2016ء کو اپنے کالم میں آپ کو د ے دی تھی جس کا عنوان تھا مائنس تھری  اس کالم میں بتایا گیا تھا کہ الطاف حسین کے بعد نواز شریف اور آصف زرداری کو مائنس کیا جائے گا۔ نواز شریف مائنس ہو گئے زرداری صاحب کو مائنس کرنے کی کوشش ابھی جاری ہے۔

22جون 2017ء  کو مافیا کے عنوان سے اپنے کالم میں بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر گڑبڑ شروع ہو چکی ہے  اورکچھ وزرا کا خیال ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کا کنٹرول نواز شریف کے ہاتھ سے نکل کر ایک مافیا کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جو حکومت کو برباد کر دے گا۔ کچھ دنوں بعد نواز شریف نااہل قرار دے دیئے گئے اور جن کا وزیر اعظم ہائوس پر قبضہ تھا وہ بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو 25 جولائی 2018ء کو ہوا وہ ہمیں ایک سال پہلے ہی نظر آ رہا تھا  اور اسی لئے میں نے 31 جولائی 2017ء کو روک سکو تو روک لو کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا  کہ مسلم لیگ (ن) کو روک سکو تو روک لو والا متکبرانہ انداز چھوڑ کر Yallah Yarasollah نواز شریف بے قصور والا عاجزانہ انداز اختیار کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن)ن کی قیادت نے عاجزی اختیار نہیں کی۔ انقلاب کا نعرہ لگا دیا لیکن ماضی کی غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا۔ نواز شریف اپنی انا کے گھوڑے پر سوار تھے اور چوہدری نثار ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔انا کے سوار کی عزت پھر بھی باقی ہے لیکن ہوا کے گھوڑے کا سوار عبرت کی مثال بن گیا ہے ۔

11 ستمبر 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا تینوں میں کوئی فرق نہیں اس میں لکھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف بھی اقتدار کے لئے سمجھوتے کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ تینوں میں کوئی فرق نہیں اور آخر میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ جو کچھ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ ہوا یہی کچھ عمران خان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ عمران خان کے ساتھ وہ کچھ نہ ہو جو پہلے وزرائے اعظم کے ساتھ ہوا۔ میں نے 24 جولائی 2017ء کو اپنے کالم کا عنوان اگلے وزیر اعظم کا انجام رکھا تھا  اور لکھا تھا کہ جب تک سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہوں گی اگلے وزیر اعظم کا انجام وہی ہو گا جو نواز شریف کا ہوا۔ آج کے کالم میں دوبارہ عرض ہے کہ عمران خان ان غلطیوں سے پرہیز کریں جو نواز شریف کو جیل پہنچانے کا باعث بنیں۔ دو دن پہلے مولانا فضل الرحمان نے آصف زرداری کو مسلم لیگ (ن) کی مدد سے وزارت عظمی کا عہدہ پیش کیا  تو زرداری صاحب نے جواب دیا کہ عمران خان کو سبق سکھانا ہے تو اسے وزیر اعظم بننے دو۔

خان صاحب اس وزیر اعظم ہائوس کی طرف مت جائیں جہاں کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرتا۔ پرانے وزیر اعظم ہائوس کے ساتھ ساتھ پرانے وزرائے اعظم کی پرانی غلطیوں سے بھی پرہیز کریں  ورنہ آپ کا انجام پچھلے وزرائے اعظم سے کچھ مختلف نہ ہو گا اور یہ انجام اگلے  6ماہ میں نظر آ جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply