معاشی بحران: ڈالر کی قدر میں 5.36روپے کی کمی، ایرانی کرنسی کی قدر میں ریکارڈ کمی،100000 ریال کا ایک ڈالر

انٹربینک میں ایک ڈالر 122.50 روپے  کا ہو گیا

انٹربینک میں ایک ڈالر 122.50 روپے کا ہو گیا

نیوز ٹائم

پاکستان میں انتخابات 2018ء کے انعقاد کے بعد سے پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 5.36 روپے کی کمی ہوئی ہے۔ انٹربینک میں ایک ڈالر 122.50 روپے  کا ہو گیا، انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں چار سال بعد ایک دن میں اتنی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق روپے کی قدر بڑھنے سے قرضوں کے بوجھ میں کمی کا امکان ہے، روپے کی قدر کے سبب 450 ارب روپے کا بوجھ کم ہو گا۔

روپے کی گرتی ہوئی قدر پر 15 مئی، 17 جولائی 2017ء اور 2 جولائی 2018ء  کو اپنے لکھے گئے کالموں میں بتایا تھا کہ قرضوں کی ادائیگیوں، اضافی امپورٹس، 31 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے اور 18 ارب ڈالر کے ریکارڈ کرنٹ اکائونٹ خسارے کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر شدید دبائو ہے جو گر کر 130 روپے کی سطح تک آ سکتا ہے جبکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر صرف 9 ارب ڈالر ہیں جس کے باعث بالآخر 20 جولائی کو انٹربینک میں روپیہ اپنی نچلی ترین سطح 128.50 روپیہ اور اوپن مارکیٹ میں 130.50 روپے تک پہنچ گیا  اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے راتوں رات ملکی قرضوں میں 800 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو بڑھ کر 8120 ارب روپے ہو گئے۔  کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے کے علاوہ اربوں ڈالر امپورٹ کیلئے کسٹم گرین چینل کا غلط استعمال اور ڈالر کی سٹے بازی بھی روپے کی قدر میں کمی کا سبب بنی جس کے بعد ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے فوری اقدامات سے صرف گزشتہ 10 دنوں میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 6 روپے یعنی 4.61 فیصد کمی ہوئی۔

پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان ہوتی نے بتایا کہ FATF کے پاکستان کو منی لانڈرنگ روکنے کیلئے تجویز اقدامات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے 24 جولائی کو اندرون ملک کیش کرنسی کی نقل و حمل اور اوپن اکائونٹ پر پابندی لگا دی ہے  جو بلیک منی کے پھیلائو کو روکے گی۔  اسٹیٹ بینک کے اس اقدام سے ڈالر کی خرید اور طلب میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ ملک بوستان نے بتایا کہ آج منی چینجر کے پاس تقریباً 5 ملین ڈالر جمع ہیں جس کو کوئی خریدنے والا نہیں، جس کی وجہ سے ہمارے پیسے بلاک ہو گئے ہیں اور پیر کو ہم یہ ڈالر اسٹیٹ بینک کو فروخت کریں گے۔ حکومت کا حالیہ دنوں میں ڈالر کی بیرون ملک بالخصوص افغانستان اسمگلنگ روکنے کیلئے لئے گئے اقدامات اور انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کی وجہ سے 28 جولائی کو ڈالر اوپن مارکیٹ میں 122 روپے پر فروخت ہوا جو انٹربینک سے 4 روپے کم ہے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میری یہ رائے ہے کہ صرف روپے کی قیمت کم کر کے ایکسپورٹس کو نہیں بڑھایا جا سکتا  بلکہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے پیٹرولیم اور ڈیزل مصنوعات، صنعتی خام مال جیسی ضروری اشیا مہنگی ہو جائیں گی جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آ سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے غیر مستحکم روپے کی گرتی ہوئی قدر  اور اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کی اطلاعات پر اسٹاک ایکسچینج سے بیرونی سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں  جس کی وجہ سے ہماری اسٹاک مارکیٹ مستحکم نہیں ہو پا رہی۔ عالمی مارکیٹ میں کرنسیوں کی قدر میں کمی کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں دسمبر 2017ء  سے اب تک تقریباً 20 فیصد کی کمی آ چکی ہے جبکہ بھارتی روپے کی قدر میں 6.9 فیصد اور ترکش لیرا کی قدر میں 22 فیصد کمی آئی ہے۔  پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجوہات میں 18 ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے جو 2016-17ء کے مقابلے میں 42.5 فیصد زیادہ اور جی ڈی پی کا 5.8 فیصد ہے  جس کو حکومت نے ایکسپورٹ میں اضافے اور امپورٹس میں کمی کر کے رواں مالی سال 5 سے 6 ارب ڈالر کم کرنا ہو گا  جبکہ ایکسٹرنل اکائونٹ کیلئے آنے والی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو گا۔

گزشتہ مالی سال 25 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کے مقابلے میں 56 ارب ڈالر کی بے لگام امپورٹ کے باعث ملک کو تقریبا 31 ارب ڈالر تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ اس عرصے میں بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر 19.5 ارب ڈالر تک رہی ہیں جبکہ بیرونی سرمایہ کاری جمود کا شکار رہی جس کی وجہ سے ملک میں ڈالر آنے کے مقابلے میں اس کا انخلا زیادہ رہا۔ حکومت نے نہایت تاخیر سے غیر ضروری اشیا کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی کیلئے حال ہی میں امپورٹ پر 100 فیصد ایل سی مارجن یعنی لیٹر آف کریڈٹ کی ایڈوانس ادائیگی، اضافی کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی جیسی شرائط عائد کی ہیں۔

سابق وزیر خزانہ اور ممتاز معیشت دان Dr. Hafeez Pasha نے ملک کی موجودہ ابتر معاشی صورتحال کے پیش نظر فنانشل ایمرجنسی لگانے کی تجویز دی ہے۔ بزنس میں نہایت بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ حکومت منی بجٹ لانے پر غور کر رہی ہے اور تمام درآمدی اشیا پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی یا 1550 اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی جس میں دوائیاں اور خام مال سمیت کچھ اشیا پر استثنی برقرار رہیں گا، عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے  جس کے صنعتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ڈالر کی بے لگام اڑان کو دیکھتے ہوئے صنعتکار یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ ان کی امپورٹ کی گئی اشیا کی مستقبل میں کیا لاگت ہو گی۔ انہی مسائل پر گفتگو کیلئے میں نے اپنے قریبی دوست اور نگراں وزیر تجارت و ٹیکسٹائل میاں مصباح الرحمن کو کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر عشایئے پر مدعو کیا تھا۔  وزیر تجارت نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے حکومت کو پیداواری لاگت میں کمی، ایکسپورٹ سرپلس میں اضافہ اور ایکسپورٹرز کے ریفنڈز جیسے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔  انہوں نے بتایا کہ حکومت کے ایکسپورٹ کے مراعاتی پیکیج کے بعد ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے  اور ملکی ایکسپورٹس بمشکل 24.5 ارب ڈالر رہیں۔  انہوں نے ایکسپورٹرز کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈ میں حکومت کی مالی مشکلات کا ذکر کیا  اور وعدہ کیا کہ کمرشل ایکسپورٹرز کو بھی ایکسپورٹ مراعاتی پیکیج میں شامل کرنے کا نوٹیفکیشن جلد جاری کیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ روپے کی قدر ضرورت سے زیادہ گر گئی ہے  جو ملک میں مہنگائی اور افراط زر میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

موجودہ معاشی بحران آنے والی نئی حکومت کیلئے بڑے چیلنجز ہیں جن کو نئی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر ہینڈل کرنا ہو گا۔ نئی حکومت کو چاہئے کہ وہ پہلے 100 دن کیلئے اپنی ترجیحات بزنس کمیونٹی کے ساتھ بیٹھ کر طے کرے۔ قرضوں کی حد کے قانون (Debt Limitation Act) کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی  لیکن ہمارے قرضے اس حد سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے 2.75 ارب ڈالر کے ڈالر اور سکوک بانڈز بھی جاری کئے جن کی ادائیگیاں 2019، 2025 اور 2036ء  میں ہیں۔ ملک کی موجودہ ابتر معاشی صورتحال کے پیش نظر 100 ڈالر کا 2025 ء کا بائونڈ کم ہو کر 90 ڈالر اور 2036 ء کا بانڈ کم ہو کر 85 ڈالر کی قدر پر آ گیا ہے جبکہ کچھ سال پہلے یہ بائونڈ پریمیم پر ٹریڈ ہو رہے تھے۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے دوبارہ بڑھ کر 1000 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں اور حال ہی میں حکومت نے عالمی مصالحتی عدالت کے فیصلے پر پاکستان کے کچھ آئی پی پیز (IPPs) کو کروڑوں روپے جرمانہ ادا کیا ہے جبکہ نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں پی آئی اے، اسٹیل ملز اور واپڈا کی نجکاری نہ کرنے کی وجہ سے ان اداروں کو چلانے کیلئے ہر سال حکومت کو 500 ارب روپے سالانہ قومی خزانے سے ادا کرنے پڑتے ہیں اور اب تک حکومت 980 ارب روپے ادا کر چکی ہے۔  بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے حکومت نے حال ہی میں چینی بینکوں سے 4 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے ہیں۔ معاشی پنڈتوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو 8 سے 10 ارب ڈالر قرضے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا  یا پھر دوست ممالک چین اور سعودی عرب، پاکستان کو اتنی رقم کرنٹ اکائونٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے دیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال باعث تشویش ہے،  بزنس کمیونٹی اور عوام عمران خان کی نئی آنے والی حکومت سے ضرورت سے زیادہ توقعات لگا رہے ہیں  کہ وہ ملک کو جلد ہی اس معاشی بحران سے نکال لیں گے لیکن ہمیں نئی حکومت کو وقت دینا ہو گا  کہ وہ وزرا کی ایک باصلاحیت ٹیم منتخب کر کے ترجیحی بنیادوں پر ان معاشی مسائل کو حل کرے۔

 ایک ڈالر ایک لاکھ ایرانی ریال کا ہو گیا ہے

ایک ڈالر ایک لاکھ ایرانی ریال کا ہو گیا ہے

دوسری جانب ایران کی کرنسی میں اتوار کو ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے اور ایک ڈالر ایک لاکھ ایرانی ریال کا ہو گیا ہے۔دوپہر کے وقت ایرانی ریال کا ڈالر کے مقابلے میں غیر سرکاری نرخ 102000  تھا۔ کرنسی کا لین دین کرنے والے تاجروں نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے  ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر میں ریکارڈ کمی میں کی تصدیق کی ہے۔ ایرانی ریال کی قدر میں گذشتہ 4 ماہ کے دوران میں نصف تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ مارچ میں ایک ڈالر 50 ہزار کے لگ بھگ ایرانی ریال میں خرید اور فروخت کیا جا رہا تھا۔ حکومت نے اپریل میں کرنسی کی قدر ایک ڈالر کے عوض 42 ہزار ایرانی ریال مقرر کرنے کی کوشش کی تھی  اور بلیک مارکیٹ میں کرنسی کا لین دین کرنے والے تاجروں کے خلاف کریک ڈائون کی دھمکی دی تھی۔ تاہم بینکوں نے جون میں مصنوعی طور پر کم کی گئی قیمت پر ڈالرز فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا  اور حکومت نے اپنے موقف میں نرمی کی تھی اور درآمدات والے بعض گروپوں کے بارے میں لچکدار رویہ اختیار کیا تھا۔

کرنسی کے اس بحران سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے مرکزی بینک کے سربراہ Wali ullah Saif کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔  ایرانیوں نے ریال بیچ کر ڈالر کی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے اور انھیں خدشہ ہے  کہ امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ملکی کرنسی کی قدر میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس لیے وہ ڈالر جمع کر رہے ہیں اور ڈالر کی مانگ میں اضافے سے اس کی قیمت میں بھی دگنا تک اضافہ ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جولائی 2015ء میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے علحیدگی کے فیصلے کے بعد سے ایرانی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکا جوہری سمجھوتے سے دستبرداری کے بعد ایران کے خلاف 6 اگست اور 4 نومبر کو دو مراحل میں نئی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ ان کے نفاذ کے بعد بہت سی غیر ملکی فرمیں ایران کے ساتھ کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گی  اور اس سے ایران کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply