اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو 4 ارب ڈالرز قرض دینے پر رضامند، بیرون ملک سے پاکستانیوں کا پیسہ واپس لانے کیلئے دو آپشنز کی تجویز

اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد کیلئے 4 ارب ڈالرز تقریباً 5 کھرب روپے قرض دے گا۔

اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد کیلئے 4 ارب ڈالرز تقریباً 5 کھرب روپے قرض دے گا۔

کراچی، اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد کیلئے 4 ارب ڈالرز تقریباً 5 کھرب روپے قرض دے گا۔ برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسلامی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو 4 ارب ڈالرز قرض دینے پر رضامندی ظاہر کر دی، اسلامی بینک پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کا منتظر ہے جس کے بعد رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاک، سعودی عرب تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، سعودی عرب، پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا چاہتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو آتے ہی شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،  غیر ملکی قرضوں کی فوری ادائیگی کیلئے 12 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی، یہ رقم حاصل کرنے کیلئے مزید قرض لینے سمیت دیگر آپشن بھی استعمال کئے جائیں گے۔اس سے قبل چین بھی پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج کے طور پر 1.2 ارب ڈالر قرض فراہم کر چکا ہے، جس کے بعد ملک میں پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کچھ کمی واقع ہوئی تھی۔

دوسری جانب پاکستانیوں نے متحدہ عرب امارات میں 5000 ارب روپے مالیت سے زائد کی جائیدادیں اور سوئٹزرلینڈ، برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں غیر قانونی دولت چھپانے کیلئے قائم ٹیکس سیف ہیونز میں پاکستانیوں کے 350 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے بینک اکائونٹس میں سے ممکنہ طور پر پیسہ واپس لانے کیلئے دو مختلف آپشنز اختیار کرنے کی سفارش کر دی گئی ہے۔ سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر، برطانیہ میں 100 ارب ڈالر اور دنیا کے دیگر ممالک میں 50 ارب ڈالر کے بینک کھاتے موجود ہیں۔ منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ سفارشات سپریم کورٹ کی جانب سے گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ کی سربراہی میں غیر ملکی اکائونٹس  اور غیر ملکی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور ان کی واپسی کیلئے مختلف سفارشات تیار کرنے والی کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں دی گئی ہیں جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی شخصیات کی جانب سے بیرون منتقل کردہ کئی سو ارب ڈالر کی واپسی کیلئے انٹرنیشنل کریمنل لا،  اقوام متحدہ کے قوانین اور دوطرفہ معاہدوں کو استعمال میں لانے اور پاکستان کی بیورو کریسی، بزنس مین اور عام شہریوں کی جانب سے بیرون ملک منتقل کردہ اربوں ڈالر کی واپسی کیلئے  پہلے معاہدوں کے تحت معلومات کے حصول اور بعد میں ان ممالک کی عدالتوں میں کیس دائر کر کے سرمایہ کی واپسی کیلئے دوطرفہ معاہدوں کا سہارا لیا جائے۔

تاہم پاک، سوئس معلومات کے تبادلے کے معاہدے میں ایک شق 25 کی تشریح مانگی گئی ہے  جس کے سبب پاکستان کو سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 3  سال سے زائد پرانے اکائونٹس کی معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں گی۔ پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے بینک کھاتوں میں موجود 200  ارب ڈالر سے زائد کی معلومات کا حصول ایک معمہ بن گیا ہے۔ پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان جس نئے معاہدے پر 2017 ء میں سوئس فیڈرل کونسل اور ایف بی آر نے دستخط کئے ہیں اس کے تحت پاکستان میں اگر کسی سیاسی شخصیت یا بزنس مین کے خلاف ٹیکس چوری یا ٹیکس کی ادائیگی سے جان بوجھ کر اور قابل ٹیکس آمدن چھپانے کی ضمن میں  گزشتہ تین سال سے کارروائی جاری ہے  تو ایسے کیسوں کی بنیاد پر پاکستانی باشندوں کے سوئس بینکوں میں موجود بینک اکائونٹس کی معلومات کے حصول کیلئے  سوئس عدالت کے ذریعے سوئس بینکوں سے معلومات کے حصول کیلئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply