خیبر پختونخوا میں محمود خان وزیر اعلیٰ نامزد، بلوچستان ،انتخابات کے بعد کا سیاسی منظر نامہ

خیبر پختونخوا میں محمود خان وزیر اعلیٰ نامزد

خیبر پختونخوا میں محمود خان وزیر اعلیٰ نامزد

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

خیبر پختونخوا کے نامزد وزیر اعلی محمود خان نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہمیشہ پی ٹی آئی کی حکومت رہے گی۔ خیبر پختونخوا کے نامزد وزیر اعلی محمود خان نے کہا ہے کہ وزارت اعلی کی دوڑ میں شامل تمام افراد میرے بھائی ہیں، سب سے رابطہ اور ملاقات کروں گا، سب ارکان اسمبلی کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ جمعرات کو بنی گالہ آمد پر میڈیا سے گفتگو میں محمود خان نے کہا کہ میں اللہ کے بعد عمران خان کا شکر گزار ہوں،  انھوں نے مجھے اس عہدے کے لیے نامزد کیا، پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، وزیر اعلی ایک بندے کو ہی بننا تھا،  65 ارکان اسمبلی میں سے ایک وزیر اعلی کا انتخاب ہونا تھا۔  بعد ازاں انھوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور حکومت سازی سمیت دیگر امور پر بات چیت کی۔

بلوچستان کے نامزد وزیر اعلیٰ جام کمال اور یار محمد رند

بلوچستان کے نامزد وزیر اعلیٰ جام کمال اور یار محمد رند

بلوچستان میں عام انتخابات 2018ء میں حق رائے دہی کا آغاز کوئٹہ میں پولنگ اسٹیشن کے باہر خودکش حملے سے ہوا۔ 31افراد جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے جو شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں کی بڑی تعداد زخمی  ہو گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انتخابات کے شور میں جاں بحق افراد کے لواحقین کی دل جوئی اور زخمیوں کی عیادت تو دور کی بات، کسی بڑے نے اس سانحے کو یاد تک نہیں کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو دہشت گردی کے خطرات منڈلانے کے باوجود ووٹ کا فریضہ ادا کرنے گھروں سے نکلے تھے۔ اور پولیس اہلکار پرامن ماحول میں انتخابات کے انعقاد کا فرض ادا کرنے کے دوران خالق حقیقی سے جا ملے۔

 سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ترجیحات کے تحت حکومت سازی اور حکومتوں میں جگہ بنانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں Pashtoonkhwa map اور نیشنل پارٹی کی گویا اس بار شامت آئی۔ نیشنل پارٹی کا تو مکمل طور پر صفایا ہو گیا۔ البتہ Pashtoonkhwa map کے حصے میں ایک نشست پھر بھی آئی، Balochistan Awami Party بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ اور اس جماعت کی حکومت کے امکانات عیاں ہیں۔

یہ خوش قسمتی ہے کہ ان کا قائد Jam Kamal جیسا جہاں دیدہ شخص ہے۔ Jam Kamal نے الیکشن کے دوران بہت بھاگ دوڑ کی، محنت اور تھکاوٹ ان کے چہرے پر نمایاں تھی۔  اگرچہ اس نے اور اس کے باپ، دادا نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سیاست کی ہے تاہم اس منصب کے لئے واقعی اہل ہیں۔ Jam Kamal کو نواز شریف کی حکومت کے دوران ساتھ نہیں چھوڑنا چایئے تھا۔  اسمبلیوں کی مدت پوری ہوتی تو بے شک اپنی راہ جدا کر لیتے۔ آخر انسان کی اپنی رائے و مرضی بھی تو ہوتی ہے۔ Nawab Zehri کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد جو حکومت بنی وہ دراصل نواز شریف کو یہ پیغام تھا کہ صوبے میں کسی کو بھی صاحب ِاقتدار بنایا جا سکتا ہے۔ اس حکومت نے صوبے Alauddin Mari کا تحفہ دیا۔ مرکز اور دوسرے صوبوں کی طرح یہ caretaker بھی جانبدار تھا۔

Sardar Akhtar Jan Mengal اور MMA (جے یو آئی ف) اپنی حکومت بنانے کی مساعی کر رہی ہے۔ ان کے پاس اراکین کی تعداد 15 ہے۔ انہیں Pashtoonkhwa map کے ایک رکن Nasrullah کی حمایت حاصل ہے Nawab Sanaullah Zehri یعنی ن لیگ، آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے ان کے بھائی Naimatullah Zehri کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔بی این پی عوامی اور اے این پی نے بڑی عجلت میں باپ کی حمایت کا اعلان کر دیا، ان کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ البتہ Sardar Akhtar Jan Mengal ، ٹھہرا اور قوی موقف کے ساتھ آگے قدم بڑھا رہے ہیں۔ Sardar Akhtar Jan Mengal کا Bani Gala نہ جانے کا فیصلہ بھی آبرو مندانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے نہ کہ کنواں پیاسے کے پاس۔ نہ کہ باپ کی طرح کہ پوری جماعت Bani Gala پہنچ گئی اور اپنے 4 اراکین قومی اسمبلی تحریک انصاف کی حمایت میں پیش کر دیئے۔بدلے میں تحریک انصاف نے صوبے میں ان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔

Sardar Yar Muhammad Rind پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اور اب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بھی ہیں ان سے اس ضمن میں مشاورت ہونی چاہئے تھی۔ کیونکہ پی ٹی آئی اپنی حکومت بھی بنا سکتی تھی۔ بہرحال سیاست لے دے کا نام ہے۔ عمران خان کو اپنی وزارت کیلئے اراکین قومی اسمبلی کی حمایت و تعاون بھی تو درکار ہے۔ عمران خان کو ویسے بھی ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہے جو عددی اعتبار سے بھی حزب اقتدار کے قریب ہیں اور ملک کی تقریباً سبھی جماعتیں انتخابات کی شفافیت پر معترض ہیں۔ بلوچستان میں Jam Kamal کو مشکلات کا سامنا ہو گا۔ کنگز پارٹی (باپ) کے اندر موقع کی تاک میں بیٹھے لوگوں کی کمی نہ ہے۔ Sardar Yar Muhammad Rind بھی انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔ دوئم حزب اختلاف بھی مضبوط حیثیت کی حامل ہے۔ گویا Jam Kamal کو اپنے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

شکست سے دوچار Pashtoonkhwa map کے چیئرمین Mahmood Khan Achakzai اپنے آبائی ضلع Qila Abdullah پر بھی نہ جیت سکے۔ ادھر ان کے بھائی ڈاکٹر Hamid Khan Achakzai جو سابقہ حکومت میں محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر تھے کے خلاف 4 جولائی کو QDA بدعنوانی کیس میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر ہوا۔ Hamid Khan Achakzai بلوچستان ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کر چکے ہیں۔ پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں بے قاعدگیوں کا یہ چند لاکھ روپوں کا کیس ہے۔ Hamid Khan Achakzai صاف دامن شخص ہیں۔ سول سیکرٹریٹ کے ایک بیوروکریٹ Hamid Khan Achakzai کے دور وزارت میں محکمہ پی اینڈ ڈی میں 2 یا 3 سال ایڈیشنل سیکرٹری تعینات تھا۔ اس راست گو صاحب نے بتایا کہ تعیناتی کے دوران Hamid Khan Achakzai یا ان کے کسی عزیز، قریب یا کسی ماتحت نے کبھی محکمانہ معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ نہ کسی کے خلاف ظابطہ و قانون کام کے لئے دبائو ڈالا گیا۔ نیز یہ کہ ان کی تعیناتی بھی Hamid Khan Achakzai کی خواہش کی بجائے محکمانہ قائدے ضابطے کے تحت ہوئی تھی۔

گورنر بلوچستان Mohammad Khan Achakzai نے اپنے منصب سے انصاف کیا ہے۔ غیر سیاسی و غیر جانبدار طور پر مرکز کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ ان کا مزید اس عہدے پر برقرار رہنا صوبے کے لئے بہتر ہے۔ انتخابات کے دوران Maulana Abdul Ghafoor Haidari نے ان پر الزام لگایا کہ گورنر ہائوس Pashtoonkhwa map کے انتخابی دفتر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ Maulana Abdul Ghafoor Haidari کی بات میں صداقت نہ تھی۔ Maulana Abdul Ghafoor Haidari ی نے حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود گورنر بلوچستان Mohammad Khan Achakzai پر الزام عائد کیا۔  کیونکہ انہیں امید تھی کہ وہ کوئٹہ کے حلقہ پی بی 32 پر کامیاب ہوں گے۔  لہذا Maulana Abdul Ghafoor Haidari کو اس الزام اور بہتان پر معذرت کر لینی چاہئے۔  آخری بات یہ کہ مجھے ایک اہم ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک اہم حکومتی شخصیت کی گاڑی سے پنجاب جاتے ہوئے  ڈیرہ غازی خان یا بلوچستان کے حدود میں بھاری رقم برآمد ہوئی ہے،  اگر ایسا ہے تو اس امر کی پردہ پوشی نہیں ہونی چاہئے۔

No comments.

Leave a Reply