نواز شریف بمقابلہ شہباز شریف

نواز شریف بمقابلہ شہباز شریف

نواز شریف بمقابلہ شہباز شریف

نیوز ٹائم

وقت نے ثابت کر دیا کہ میاں نواز شریف سیاست خوب کر سکتے ہیں لیکن حکومت نہیں چلا سکتے اور میاں شہباز شریف صرف حکومت چلا سکتے ہیں لیکن سیاست نہیں کر سکتے۔ میاں نواز شریف کو دو مرتبہ اقتدار دلوایا گیا اور ایک مرتبہ عوامی طاقت سے حاصل کیا لیکن تینوں مرتبہ اپنی مدت پوری کر سکے اور نہ دیگر اداروں کے ساتھ معاملات ٹھیک طریقے سے چلا سکے۔ میاں شہباز شریف نسبتاً اچھے حکمران ثابت ہوئے اور طاقت کے مختلف سرچشموں سے تعلقات رکھتے ہیں لیکن سیاست بالکل نہیں کر سکتے۔

گزشتہ انتخابات کے دوران Kalsoom Nawaz کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اڈیالہ جیل جانے کے لئے پاکستان آنے کا رسک لے کر میاں نواز شریف اور مریم نواز نے میاں شہباز شریف کو بائونسر دے دیا  لیکن ناکام انتخابی مہم اور خوف یا لالچ کی وجہ سے وہ اس پر چھکا تو کیا چوکا بھی نہیں لگا سکے۔ یقیناً شہر کے لوگ بھی ظالم تھے اور خوشامدی مشیروں نے بھی کردار ادا کیا لیکن مسلم لیگ (ن) کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار بڑی حد تو خود شریف برادران ہیں۔ میاں شہباز شریف اور ان کے بچوں کو ہمت کر کے یا تو اپنے بھائی اور ان کی بیٹی کو لڑائی کے راستے سے روک دینا چاہئے تھا اور جب روک نہیں سکے تو پھر چھوڑ دینا چاہئے تھا اور جب چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے تو پھر انہی کے بیانیے کو اپنا لینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ان تینوں میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ راستہ وہی صحیح تھا جو ابتدا میں میاں شہباز شریف تجویز کر رہے تھے اور پرویز مشرف یا پھر ان کے سرپرستوں سے جھگڑا مول لے کر میاں نواز شریف نے اس راستے کا انتخاب کیا  جس کا انجام یہی ہونا تھا جو ہو چکا۔ پاکستان کے زمینی حقائق سے وہی لائحہ عمل ہم آہنگ تھا جس کی دہائی چوہدری نثار علی خان دے رہے تھے۔  تب جب میاں نواز شریف، عرفان صدیقی اینڈ کمپنی کے ورغلانے پر طاقتور حلقوں سے چھیڑخانی شروع کر رہے تھے  تو شہباز شریف کو مزید شدت کے ساتھ اپنے بھائی کو روک دینا چاہئے تھا  تاہم جب روک نہ سکے اور جنگ چھڑ گئی تو پھر آدھا  تیتر اور آدھا بٹیر والی پالیسی اپنانے کی بجائے پوری قوت کے ساتھ انہیں اپنے بھائی اور بھتیجی کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہئے تھا۔ تاہم وہ اپنے بھائی کو چھوڑ رہے اور نہ ان کے بیانیے کو اپنا رہے ہیں۔

دوسری طرف میاں نواز شریف کا المیہ یہ ہے کہ وہ آج بھی اپنے خونی رشتوں کے سوا کسی اور پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی اور بھائی کی پالیسی میں فرق ہے،  انہوں نے پارٹی صدارت میاں شہباز شریف کے حوالے کر دی۔ اب اگر حالت جنگ میں فوج کی کمانڈ کسی ایسے کمانڈر کے حوالے کی جائے  کہ جو جنگ کے حق میں ہی نہ ہو یا پھر وہ جنگ سے خوفزدہ ہو تو اس فوج کا جو انجام ہو سکتا ہے، وہی مسلم لیگ (ن) کا ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں شہباز شریف نے آخری وقت تک مقتدر قوتوں سے بنا کر رکھی۔ وہ مسلسل بھائی کو مصالحانہ رویہ اپنانے کی درخواستیں کرتے رہے۔ وہ اپنے بھائی کو اس لابی کے نرغے سے بھی چھڑانے کی کوشش کرتے رہے جو خوشامد کر کے ان کے کان بھرتے رہے کہ پاکستان، ترکی اور میاں نواز شریف خود طیب اردگان بن گئے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کو بھی بنیادی طور پر میاں شہباز شریف نے میدان میں اتارا تھا اور آخری وقت تک ان حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ تاہم منطقی نتیجے کے طور پر شہباز شریف ناکام اور ان کے بھائی وار زون میں داخل ہو گئے۔ اب اس کے بعد ان کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو وہ اپنے بھائی کی سیاست سے علیحدہ ہو جاتے اور ظاہر ہے ایسا وہ نہیں کر سکتے تھے۔ نہ صرف گھریلو اور مشرقی ماحول کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے تھے بلکہ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ پارٹی ہی نہیں بلکہ ووٹ بھی میاں نواز شریف کا ہے۔ وہ اگر بھائی کو چھوڑتے تو سیاست میں صفر ہو جاتے۔ چنانچہ پھر دوسرا راستہ ان کے پاس یہی تھا کہ بھائی کا جانشین بن جانے کے بعد  وہ پوری یکسوئی کے ساتھ ان کے بیانیے (خواہ وہ غلط کیوں نہ ہو) کو اس وقت تک اپنائے رکھتے جب تک فریقین کو کسی دوسرے راستے پر قائل نہ کراتے۔ لیکن وہ درمیان میں لٹکے رہے اور شاید یہ مجبوری بھی تھی کہ خود ان کے سر پر بھی احتساب اور جیل کی تلوار لٹکائی جا رہی تھی۔ وہ ایک تو اس سے بچنا چاہ رہے تھے اور دوسری طرف ان کو یہ تاثر دیا جا رہا تھا  کہ جتنے بھائی ناقابل قبول ہیں، اتنے وہ قابل قبول ہیں۔ چنانچہ اس شکل میں ان کو آخری وقت تک ایک لالچ بھی دیا جاتا رہی۔ ادھر سے وہ بھائی اور ان کے بیانیے سے بھی پوری طرح اعلان بغاوت نہیں کر سکتے تھے۔ مقتدر حلقوں کی ان کے بارے میں یہ رائے بن گئی تھی کہ وہ اپنے بھائی کو نہیں چھوڑ سکتے اور ان کو آگے لانا بالواسطہ نواز شریف کو آگے لانے کے مترادف ہو گا۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بڑے بھائی کے بیانیے کے مطابق انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکے  اور دوسری طرف خود بھی اس سلوک سے دوچار ہو گئے جس سے ان کے بھائی ہو گئے تھے۔

انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو ایک اور موقع یوں میسر آیا کہ جے یو آئی، اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی، MQM اور حتی کہ PSP بھی اس کے بیانیے کی طرف آ گئیں جو میاں نواز شریف کا تھا۔ انتخابات سے قبل کی فضا میں مسلم لیگ (ن) نے اپنی جنگ تنہا لڑنی تھی اور کوئی بھی جماعت اس حد تک اس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی لیکن اگر آل پارٹیز کانفرنس میں میاں شہباز شریف، اپنے بھائی کے بیانیے کو اپنا لیتے تو پیپلز پارٹی کے سوا مذکورہ باقی جماعتوں کا ساتھ اس کو میسر آ سکتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کا سایہ اور مذکورہ جماعتوں کی اسٹریٹ پاور مل کر بڑی قوت بن سکتی تھی لیکن یہاں ایک بار پھر میاں شہباز شریف مصلحت، خوف یا پھر پنجاب حکومت کے لالچ کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے پھر ایسا Hemopathic قسم کا موقف اپنایا کہ اے پی سی کے بعد مذکورہ جماعتوں کے لوگ پیپلز پارٹی سے زیادہ میاں شہباز شریف سے مایوس دکھائی دے رہے تھے۔ چنانچہ نہ allice اپوزیشن بن گئی اور نہ پنجاب کی حکومت ہاتھ آئی۔ لیکن اب بھی میاں شہباز شریف، اپنے بھائی کے بیانیے کی طرف آنے پر آمادہ نہیں۔

اب اقتدار کے راستے تو بند ہو گئے لیکن شاید اب نیب اور عدالتوں کا خوف ان کو اس طرف جانے نہیں دے رہا۔ یوں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی کیفیت ہو گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی دونوں بھائی اپنے بیانیوں کا تضاد ختم کرنے کو تیار نہیں اور یہ تضاد اگر جاری رہے گا تو رہی سہی مسلم لیگ (ن) کا بھی ستیاناس ہو جائے گا۔ اس لئے پہلی فرصت میں دونوں بھائیوں کو اپنا بیانیہ ایک کر دینا چاہئے۔ شاید میاں نواز شریف اب وہاں تک جا چکے ہیں کہ جہاں سے واپسی فوری ممکن نہیں۔ اب میاں نواز شریف اپنے بھائی میاں شہباز شریف کو قائل کریں کہ وہ اس مسلم لیگ (ن) کے صدر بنیں جسے میاں نواز شریف نے جنگ میں اتار دیا ہے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر پارٹی میں ان لوگوں کو آگے کر لیں جو میاں نواز شریف کے بیانیے سے متفق ہوں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پارٹی بادشاہت کے انداز میں چلائی جا رہی ہو اور تمام اہم عہدے خاندان میں بانٹے جا رہے ہوں جبکہ نعرہ ووٹ کی عزت اور جمہوریت کا بلند کیا جا رہا ہو۔ وفاق میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بنیں اور پنجاب میں حمزہ شہباز شریف لیکن ایک اپوزیشن کی سیاست کرنے کو باپ تیار ہوں اور نہ بیٹا۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ دو کشتیوں پر سواری مزید نہیں ہو سکتی۔ زرداری مارکہ سیاست کرنی ہے جو میاں شہباز شریف کر رہے ہیں تو پھر دونوں بھائی وہ سیاست کریں اور مزاحمتی سیاست کرنی ہے جس کا تاثر میاں نواز شریف اور بالخصوص مریم نواز دے رہی ہیں تو پھر دونوں بھائی وہی سیاست کریں۔ ایک بھائی انقلابی بنیں اور دوسرا سمجھوتہ کریں۔ یہ طریقہ مزید جاری رہے گا تو مزید رسوائی مقدر ہو گی۔ فیصلہ دونوں شریفوں نے کرنا ہے۔

No comments.

Leave a Reply