نیو وفاقی بجٹ: آمدنی کے لیے عوام پر بوجھ کیوں؟

اب 4 لاکھ روپے سے 8 لاکھ تک سالانہ آمدنی والے کو 1000 روپے اور 12 لاکھ تک آمدنی والے کو 2000 روپے سالانہ ٹیکس دینا ہو گا

اب 4 لاکھ روپے سے 8 لاکھ تک سالانہ آمدنی والے کو 1000 روپے اور 12 لاکھ تک آمدنی والے کو 2000 روپے سالانہ ٹیکس دینا ہو گا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

وفاقی حکومت نے قومی خزانے کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ذریعہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس مقصد کے لیے وہ گورنر ہائوسز، وزرائے اعلی ہائوسز اور وزیر اعظم ہائوس کو بھی استعمال کریں گے اور نجکاری بھی کریں گے۔  لیکن ایک خبر بڑی چونکا دینے والی ہے جس سے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نقصان ہو گا۔ وہ خبر یہ ہے کہ سابق حکومت نے انکم ٹیکس سے استثنیٰ کی جو حد مقرر کی تھی اس کے بارے میں ایف بی آر نے نوٹس جاری کر دیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو سابق حکومت کی جانب سے دی گئی رعایت ختم کر دی گئی ہے۔ سابق حکومت نے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی تک کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ یعنی ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی والے کو ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوا تھا۔ اب 4 لاکھ روپے سے 8 لاکھ تک سالانہ آمدنی والے کو 1000 روپے اور 12 لاکھ تک آمدنی والے کو 2000 روپے سالانہ ٹیکس دینا ہو گا اس سے زیادہ آمدنی والوں کو 5 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔

اس حوالے سے ایک ابہام بھی ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد بریفنگ میں حکومت کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ حکومت نے ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا ہے یہ کام پارلیمنٹ کرے گی جبکہ دوسری جانب خبر ایجنسیوں سے ایف بی آر کے نوٹیفکیشن کی خبر ہے۔ نوٹیفکیشن کا مطلب فیصلے کا نفاذ ہے۔ اگر نوٹیفکیشن درست ہے تو وزیر اطلاعات غلط اطلاع دے رہے ہیں اور اگر وہ درست فرما رہے ہیں  تو پھر ایف بی آر کے نوٹیفکیشن کی خبر کا کیا کریں، بہرحال اس حوالے سے ابہام دور کرنا حکومت کا کام ہے کیونکہ فنانس ایکٹ ہو یا پھر ایک روپے کا ٹیکس لگانے کا فیصلہ یہ تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے ٹیکس میں رعایت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فنانس ایکٹ میں ترمیم پارلیمنٹ سے کرائی جائے گی۔ بہرحال فیصلہ حکومت کا یہی ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ اس فیصلے سے حکومت کو کیا فائدہ اور نقصان ہو گا اس کا جائزہ لینا حکومت کا کام ہے  لیکن یہ صرف حکومت کا مسئلہ نہیں کیونکہ 150 سے 2  لاکھ لوگ جو 4 لاکھ روپے سالانہ آمدنی رکھتے ہیں یعنی تنخواہ پاتے ہیں ان سے 1000 روپے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس سے قومی خزانے کو جتنا فائدہ ہو گا اس کے مقابلے میں معاشرے میں بے چینی میں اضافہ زیادہ ہو گا کیونکہ 33000 روپے کے لگ بھگ تنخواہ میں سے 80 یا 85 روپے ٹیکس ماہانہ کٹوانا کوئی مشکل کام نہیں لیکن بلاوجہ یہ تاثر ذہنوں پر رہے گا کہ ہمارے اوپر حکومت نے اضافی بوجھ لاد دیا ہے۔ ہاں جو 12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں ان کے لیے سالانہ 60000 یا ماہانہ 5000 روپے ٹیکس دینا مشکل نہیں لیکن جو رعایت دی جائے جا چکی تھی وہ واپس لینا بہرحال زیادتی ہے۔ یہ تجویز جب پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی تو اس وقت اس کے بارے میں مزید چھپی ہوئی چیزیں سامنے آئیں گی۔

لیکن ایک سوال یہ ہے کہ کیا آمدنی بڑھانے کے لیے عوام پر بوجھ ڈالنا ضروری ہے؟ ہمارے سامنے اس حوالے سے بڑی مثالیں اپنے ملک کی موجود ہیں۔ عبد الستار افغانی دو مرتبہ کراچی کے میئر رہے اور کراچی کا بجٹ چند لاکھ سے کروڑوں پھر اربوں روپے تک پہنچا تقریباً 8 برس کے عرصے میں ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں لگایا بلکہ شہر کی آمدنی میں اضافہ کیا اور شہر کو ترقی بھی دی۔ اداروں میں بھی اضافہ اور کراچی واٹر اینڈ کراچی بورڈ جہاں جیسا ادارہ ان ہی کے دور میں قائم ہوا۔ اگر وہ اور ان کی ٹیم چاہتی جیسا کہ ان کو بیورو کریٹس کی جانب سے مشورے بھی دیے گئے تو وہ ٹیکس لگا بھی سکتے تھے اور معمولی اضافے بھی کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے آمدنی کے ذرائع اور وسائل میں اضافہ کیا چوریاں روکیں اور نگرانی کی یہی کام پہلی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے نعمت اللہ خان صاحب کی سرکردگی میں کیا انہوں نے بھی پیٹرول، کسٹمز، ٹھیکوں میں بدعنوانی وغیرہ کو روکا اور سٹی گورنمنٹ کو اربوں روپے دلوائے۔ مرکز سے فنڈ لے کر دیا اسی طرح کے پی کے جب سراج الحق وزیر خزانہ تھے اور بعد میں جماعت اسلامی کے بلدیات کے وزیر تھے۔ عوام پر بوجھ ڈالے بغیر خدمت کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ یہ کام تو آسان ہے اور بیورو کریسی اور پرانے سیاستدانوں کی روش یہی ہے۔ ہر حکومت کو ٹیکس مشین بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ٹیکس مشین بننے کے بجائے لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لانے کے وعدوں کو پورا کرے۔ اسی طرح بیرون ملک سے رقم واپس لانے کے لیے ماہرین کی خدمات لینے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو ماہرین آج، کل دستیاب ہیں زیادہ تر تو اسی قسم کے ہیں جو ملک سے دولت ٹونے کے بعد باہر بھجوانے کے مشورے اور طریقے بتاتے ہیں۔ ان کو اس کا الٹا کام دیا جائے گا تو وہ کیسے کریں گے۔ خصوصاً ایسے حالات میں کہ حکومتی ٹیم میں آنے والے زیادہ تر لوگ وہی ہیں جو جنرل پرویز مشرف، ق لیگ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں میں شامل رہے اسمبلیوں میں بھی الیکٹ ایبلز کی سیاست کے نتیجے میں ایسے ہی لوگ آ گئے ہیں تو پھر وہ ایسا کیوں ہونے دیں گے بہرحال یہ حکومت کا امتحان ہے۔ اسے عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے اور غیر مقبول فیصلے کرنے کے بجائے اپنی توجہ وسائل بڑھانے پر اور چوری روکنے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔

کہنے اور سننے میں تو یہ بھی اچھا لگتا ہے کہ گورنر ہائوسز اور وزیر اعظم ہائوس کو میوزیم اور یونیورسٹی بنانے سے 115 کروڑ کی بچت اور آمدن بھی ہو گی اور یہ کہ سرکاری عمارتیں ہوٹل بنیں گی۔ یہ حساب کتاب کون بتا رہا ہے ان ماہرین کو بھی سامنے آنا چاہیے۔ ریڈ زون میں یونیورسٹی کیسے بنے گی کیا حقیقتاً ریڈ زون ختم کیا جا رہا ہے۔ اور کیا یونیورسٹی اور میوزیم پر اخراجات نہیں ہوں گے۔ ابھی تو مالی، باورچی، ڈرائیور، منیجر قسم کے لوگ بھرتی ہوئے ہیں میوزیم کے لیے تو تربیت یافتہ ٹیکنیکل لوگ بھرتی کرنے ہوں گے جن کی تنخواہیں اور مراعات زیادہ ہوں گی۔  ایک ماہر کی تنخواہ میں پورے گورنر ہائوس کے عملے کی تنخواہ آ جائے گی۔ لہذا ایسے فیصلے کرنے سے قبل مشورے ضرور کر لینے چاہییں۔

No comments.

Leave a Reply