کالاباغ ڈیم: سب رکاوٹیں ختم!

مرکز میں تحریک ِ انصاف کی حکومت کا کوئی بھی اتحادی کالاباغ ڈیم کا مخالف نہیں

مرکز میں تحریک ِ انصاف کی حکومت کا کوئی بھی اتحادی کالاباغ ڈیم کا مخالف نہیں

نیوز ٹائم

مجھے اپنی آنکھوں پر یقین تو نہیں ہے مگر پھر بھی لگ رہا ہے کہ ایسی شاندار سیاسی صورتحال اور ایسا سازگار ماحول بن چکا ہے جو ماضی میں کبھی بھی نہیں تھا۔ گویا کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے راستے میں حائل سب رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں۔ مرکز میں تحریک ِ انصاف کی حکومت کا کوئی بھی اتحادی کالاباغ ڈیم کا مخالف نہیں۔ پنجاب میں تحریک ِ انصاف کی حکومت ہے اور ن لیگ صوبہ پنجاب کی پارٹی ہونے کے سبب کالاباغ ڈیم کی کھلی مخالفت نہیں کر پائے گی۔

پنجاب، مرکز اور خیبر پختونخوا ایک ہی صفحے پر ہیں تینوں جگہ تحریک ِ انصاف نے زیادہ سیٹیں حاصل کر لی ہیں۔ ماضی میں کالاباغ ڈیم کی سب سے زیادہ مخالفت خیبر پختونخوا سے ہوتی تھی اب اے این پی کی انتخابی طاقت اس قدر کمزور ہو گئی ہے  کہ اس کی مخالفت سے ڈیم کی تعمیر کے راستے میں کوئی نمایاں رکاوٹ پڑنے کا امکان نہیں رہا۔ بلوچستان میں اوپر تلے کئی حکومتوں نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قراردادیں منظور کروائیں  اور ڈٹ کر بیان بھی دیئے اس بار بلوچستان میں محب وطن پارٹی  کی حکومت ہے، وہ بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر وفاق کی ہاں میں ہاں ملائے گی۔ قوم پرستوں کی انتخابی اور سیاسی طاقت توڑی جا چکی ہے، اس لئے اب بلوچستان سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ باقی رہ گیا صوبہ سندھ اور وہاں برسر اقتدار پیپلز پارٹی، وہ ظاہر ہے کالاباغ ڈیم کی مخالفت جاری رکھے گی لیکن آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات اور دوسرا سندھ حکومت چھینے جانے کا خوف انہیں کوئی بڑی تحریک چلانے سے باز رکھے گا۔

ساتھیو، غیب کی طرف سے جو بھی نظر میں آیا ہے وہ سب کچھ کالاباغ ڈیم کے لئے حالات سازگار کرنے کے لئے ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سب سیاسی تبدیلیاں کالاباغ ڈیم بنانے کے لئے لائی گئی ہیں۔ اب کالاباغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے اسی لئے عالم غیب سے یہ تبدیلیاں آئی ہیں اور اب کسی بھی دن ڈیم کی ہر صورت میں تعمیر کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔ ماضی میں پاکستان کے کئی اسٹیک ہولڈرز، کالاباغ ڈیم کے بارے میں شک و شبہ کے شکار تھے مگر اب ان کا ذہن اور ان کی منصوبہ بندی واضح رخ اختیار کر چکی ہے۔ مقتدر حلقے تو پہلے ہی پانی کی کمیابی پر متفکر تھے اور ہر صورت ڈیم بنانا چاہتے تھے  مگر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے مستقبل پر غور و فکر میں تسلسل میں رہتے تھے  مگر اب عدلیہ کی حمایت ملنے سے یہ کام آسان ہو جائے گا  اور عمران حکومت اس چیلنج کو اس لئے بھی قبول کرے گی کہ اگر وہ کالاباغ ڈیم بنا لے تو اس کو ایک ٹرم اور مل جائے گی۔ ہر طرف سے شاباش اور واہ واہ کے ڈنگے بجینے لگیں گے۔

نیا پاکستان بننے کے بعد کی سب سے بڑی خوش خبری یہی ہے کہ پاکستان کی خوشحالی کی علامت کالاباغ ڈیم کے راستے میں حائل تقریبا تمام رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں البتہ چھوٹی موٹی مخالفتیں اور مسائل تو موجود رہیں گے اور یہ سوچنا بھی نہیں چاہئے کہ 100 فیصد لوگ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر متفق ہوں گے تب ہی اس کی تعمیر ممکن ہو گی۔ دنیا میں آج تک کسی بھی معاملے پر 100 فیصد اتفاق نہیں ہوا تو کالاباغ ڈیم پر بھی کبھی نہیں ہو گا۔ بس سازگار ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔ اندازہ یہ ہے کہ کچھ قوم پرست اس پر راضی نہیں ہوں گے اندرون سندھ میں شدید مزاحمت ہو گی، پختون قوم پرست بالخصوص اے این پی اس حوالے سے سخت موقف کا اظہار کرے گی، بلوچستان میں اپوزیشن بھی تحفظات ظاہر کرے گی، کچھ ماہرین معیشت اور کچھ آبی وسائل کے ماہرین بھی اعداد و شمار اور دلائل کے ساتھ میدان میں اتریں گے مگر حکومتی، عدالتی اور ریاستی حمایت کے بعد کالاباغ ڈیم کے راستے میں کونسی رکاوٹ باقی رہ گئی ہے؟

 باقی رہ گئے چند شرپسند جو کالاباغ ڈیم کی مخالفت کر کے اپنی سیاسی یا صوبائی دوکان چلانا اور چمکانا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ملکی استحکام، ملکی سلامتی اور یکجہتی کو نقصان پہنچانا ہے  وہ غیر آئینی طور پر آئین کی روح کے خلاف کام کریں گے ایسے لوگوں کا بالکل صحیح علاج آرٹیکل 6 ہے۔ اگرچہ آج تک آمروں پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکا مگر اس کی پیچیدہ وجوہات تھیں لیکن ڈیم کے خلاف باتیں کرنے والوں پر آرٹیکل 6 لگانے میں رکاوٹ کیا ہے؟ عدالتی، حکومتی اور ریاستی ادارے سب ایک صفحے پر ہیں، کوئی جلوس نکالے یا جلسہ کرے، کوئی مخالفت کرے یا حمایت، کالاباغ ڈیم ہر صورت میں بنانا ہے  یہ ریاست کی خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے اور جب کوئی آپریشن ناگزیر ہو تو پھر اسے زبردستی بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔

اہم نوٹ: یہ کالم نگار انتہائی ڈرپوک ہے بالخصوص آرٹیکل 6 سے تو بہت ہی خوفزدہ ہے کیونکہ جب سے جنرل مشرف آرٹیکل 6 کے تحت لمبی سزا بھگت رہے ہیں یہ کالم نگار اور بھی خوفزدہ ہو گیا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی حمایت میں اسی جذبے کے تحت ہی کالم لکھا گیا ہے وگرنہ پہلے یہی سمجھتا تھا کہ صوبوں اور جماعتوں کے اتفاق رائے کے بغیر کالاباغ ڈیم نہیں بننا چاہئے۔ مگر جب سے سر پر آرٹیکل 6 کی تلوار لٹکی ہے میں تو کالاباغ ڈیم کا بھرپور حامی بن گیا ہوں۔ کالم کو اسی نظر سے پڑھا جائے۔

No comments.

Leave a Reply