بہترین لیڈر وہ ہوتا ہے جو ملک کو بحران سے نکالے : ایک جائزہ

عالمی منظرنامے پر اس وقت موجود اہم شخصیات بڑی تبدیلیاں لانے کی اہل ہیں۔ فوٹو

عالمی منظرنامے پر اس وقت موجود اہم شخصیات بڑی تبدیلیاں لانے کی اہل ہیں۔ فوٹو

نیوز ٹائم

بحران بڑا یا لیڈر یہ حادثہ انفرادی، اجتماعی، سماجی یا قومی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔  سماجی علوم، سوشل سائنسز اور خصوصاً سوشیا لوجی کے ماہرین اس سے اتفاق کریں گے  کہ حادثہ جو تبدیلی کا عکاس بھی ہوتا ہے عموماً اور بظاہر اچانک یا ایک دم رونما ہوتا معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں اس کے پس منظر میں فکر و احساس اور چھوٹے بڑے واقعات کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔ معاشرتی، سماجی اور ارتقائی عمل جو منفی اور مثبت دونوں طرح کا ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ ہر معاشرے میں جاری و ساری رہتا ہے اور اس پر موسم، ماحولیات، قدرتی آفات بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور غیر قدرتی عوامل بھی، جہاں تک تعلق غیر قدرتی عوامل کا ہے تو یہ انسانی ہاتھوں سے اور انسانی فکر و عمل کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں ان میں جنگیں، خانہ جنگی، سائنسی ایجادات اور دریافتیں، ٹیکنالوجی، صنعت و تجارت، میڈیا  اور آج کے دور میں اس سے منسلک دیگر شعبے یا ادارے  جیسے دنیا کا مرکزی بینکنگ سسٹم، اسٹاک ایکسچینج وغیرہ۔  جہاں تک قدرتی عوامل اور قدرتی آفات کا تعلق ہے تو قبل از تاریخ اور تاریخ کے اعتبار سے ہمیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھنڈرات کی صورت میں ایسے آثار قدیمہ دکھائی دیتے ہیں  جو قدرتی عوامل اور قدرتی آفات کے سبب تباہ ہوئے۔

انہی کھنڈرات میں بعض ایسے بھی ہیں جو غیر قدرتی عوامل جیسے جنگوں اور خانہ جنگوں کی وجہ سے برباد ہو گئے۔  جہاں تک تعلق قبل ازتاریخ کا ہے تو اس پر بھی تحقیق کر کے بہت سی قدیم تہذیبوں کی خوشحالی سے لے کر تباہی تک کے واقعات اور اسباب معلوم کئے گئے ہیں  مگر ان میں ان شخصیات کے بارے میں بہت ہی کم اور مبہم انداز کی معلومات سامنے آتی ہیں  جو اس تہذیبی عمل اور ارتقا کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کے حوالوں سے اہم رہی ہوں۔ تاریخی اعتبارسے جائزہ لیں تو جب سے انسان نے حروف تہجی ایجاد کئے اور لکھنا شروع کیا  تو اس نے اپنی تاریخ کو تحریر کی صورت دے کر سماجی عمل اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی سماج میں ہونے والی منفی اور مثبت تبدیلوں کے ساتھ ان شخصیات کو بھی تاریخی ریکارڈ میں محفوظ کر لیا  جو ان تبدیلیوں کے محرک ثابت ہوئے۔  دنیا کے مختلف خطوں اور معاشروں میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں میں اگرچہ پورے معاشرے کے افراد کا کسی نہ کسی لحاظ سے حصہ ہوتا ہے  لیکن کوئی ایک واضح، یا نمایاں کردار ادا کرنے کی وجہ سے رہنما کہلاتا ہے، اسی رہنمائی میں شخصیات کے حوالے سے دو شعبے اہم ہوتے ہیں۔

ایک مفکرین یا دانشوروں کا اور دوسرا ان مفکرین کے وہ نظریات جن کو عملی جامہ پہنا کر محرک شخصیت جو سماج میں عملی طور پر تبدیلی لاتی ہے اور لیڈر کہلاتی ہے، چونکہ تبدیلی کی ساری کمانڈ اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لیے مفکرین یا دانشوروں کا نام قدرے پس منظر میں رہ جاتا ہے، پھر اکثر معاشروں میں تبدیلیوں کے اعتبار سے ایک ہی دانشور یا مفکر کی بجائے وقت کے تسلسل کے لحاظ سے ایک سے زیادہ مفکرین یہ فرائض انجام دیتے ہیں اس لیے بھی مفکرین زیادہ نمایاں نہیں ہوتے،  مگر انسانی تاریخ اس بات کی گواہی بھی دیتی ہے کہ کوئی مفکر بڑا انقلابی نظریہ پیش کرتا ہے جس کی بنیاد پر سماجی تبدیلی انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو پھر محرک شخصیت (لیڈر) کے ساتھ یا اس سے بھی کہیں زیادہ شہرت مفکر یا دانشور کو حاصل ہوتی ہے۔

جس کے نظریات کے سبب معاشرے میں تبدیلی کے لیے عوام کے ذہن تیار ہوئے ہوتے ہیں، انسانی تہذیبی ارتقا میں اس حوالے سے اللہ تعالی نے ہی انسان پر احسان فرمایا اور اسے علم دیا  اور وہ کچھ بتایا جو وہ اس سے قبل نہیں جانتا تھا۔  یوں اللہ تعالی کے پیغامات اور احکامات نبیوں اور رسولوں کے ذریعے آئے اور اس کے بعد جب یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا  تو پھر دنیا میں انہی بنیادوں پر اس علم کا اعتراف کرتے اور بعض مفکرین کے حوالے سے اعتراف نہ کرتے ہوئے سماجی ارتقائی عمل کے لیے فکر و دانش کا عمل جاری رہا اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔

اس عمل میں نیکی و بدی یا مثبت اور منفی لحاظ سے دو صورتیں متوازی رہی ہیں۔  دنیا میں سادہ سماج نے 19ویں  صدی عیسوی میں سائنس و ٹیکنالوجی کو نمایاں طور پر اپنانا شروع کیا  اور یہ صورت تیز رفتاری سے مغرب خصوصاً یورپ میں سامنے آئی، اس کا تاریخی پس منظر بہت طویل ہے،  یہاں صرف ایک صدی یعنی 1918ء سے 2018 ء  تک کا جائزہ لینا مقصود ہے،  اس دوران پہلی اور دوسری جنگ عظیم ہوئیں، روس میں اشتراکی انقلاب آیا،  دنیا میں جنگ کے 7 ساتھ امن کی کوششیں بھی ہوئیں اور League of Nations اقوام عالم کے ادارے کی ناکامی کے بعد  1945ء میں یو این او، اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا، پھر سرد جنگ ہوئی جس میں کوریا اور Vietnam کی جنگیں اہم رہیں۔ کیوبا میزائل بحران کی وجہ سے روس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات پیدا ہوئے،  عرب، اسرائیل اور پاک، بھارت تین تین جنگیں ہوئیں، امریکہ کے ایٹمی قوت بننے کے بعد 1964ء تک روس، برطانیہ، فرانس اور چین ایٹمی قوت بنے، اس کے بعد 1998ء میں بھارت اور پاکستان بھی ایٹمی قوت بن گئے۔

ایران میں انقلاب رونما ہوا، افغانستان میں سابق سوویت یونین نے جارحیت کی اور 1990ء تک نہ صرف سوویت یونین کو شکست ہوئی  بلکہ خود سوویت یونین ہی ٹوٹ گئی اور عملی طور پر مشرقی یورپ سمیت تقریبا پوری دنیا ہی سے اشتراکی نظام رخصت ہوا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہوئے بس اتنا کافی ہو گا کہ یہ کہہ دیا جائے کہ جتنے واقعات اور تبدیلیاں اس ایک صدی میں ہوئی ہیں اتنے بڑے واقعات اور تبدیلیاں پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہوئیں۔ اس دور میں جو مفکرین اہم ترین رہے ان میں سے اکثر اس صدی سے چند برس قبل رہے ان میں اہم ترین Karl Marx ، Voltaire ، Jean-Jacques Rousseau وغیرہ رہے۔

اور جو لیڈر سامنے آئے ان میں روس کے Vladimir Lenin ، Joseph Stalin ، امریکہ کے صدور، Woodrow Wilson 1913-21ء ترکی کے Mustafa Kamal Pasha ، افغانستان کے King Ghazi Amanullah ، ہندوستان کے Mohandas Gandhi اور Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah اہم تھے  جو پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی نمایاں ہوئے۔  پہلی جنگ عظیم ہی تاریخِ انسانی کا وہ اہم واقعہ ہے جب ایک جنگ نے کسی نہ کسی اعتبار سے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔  یہ اس عمل کا نتیجہ تھا جس کے آغاز میں 1492ء میں اسپین سے مسلمانوں کی 800 سالہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ اسی سال امریکہ دریافت ہوا تھا اور اس کے چند برس کے اندر پوری دنیا کا مکمل نقشہ دنیا کے لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا۔

نوآبادیاتی نظام جلد عالمی تجارتی اقتصادی نظام سے مربوط ہو کر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوا۔ پھر دنیا دو گروہی اتحاد کی صورت میں واضح ہوئی جس کے نتیجے میں جنگ عظیم اول ہوئی اور اس کے اختتام پر سب سے زیادہ نقصان اسلامی ممالک کو ہوا۔  جنگ عظیم اول کے بعد سے 1945ء یعنی دوسری جنگ عظیم تک دنیا میں صرف 3 اسلامی ملک ایسے تھے جو آزاد کہلاتے تھے، حجاز مقدس جس کو اس لیے برائے نام آزاد رکھا گیا تھا کہ عالمی سطح پر مسلمان مشترکہ طور پر شدید ردعمل کا مظاہرہ نہ کر بیٹھیں، افغانستان جو روس اور برطانوی، ہندوستان کے درمیان حائل ریاست، بفر اسٹیٹ کے طور پر تھا کہ کہیں دو بڑی قوتیں براہ راست آپس میں نہ ٹکرا جائیں، اور صرف ترکی ایک ایسا اسلامی ملک تھا جس کو مصطفی کمال پاشا نے برطانیہ سے جنگ کے بعد آزاد کروایا تھا جو ترکی جمہوریہ اور قدرے نیشنلسٹ اور سیکولر ملک بن گیا تھا۔  یہی وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں تحریک خلافت، طویل جدوجہد کے بعد ہندوستان میں سیاسی سماجی لحاظ سے سبق حاصل کر کے خاموش ہو گئی تھی اور Allama Iqbal نے اس مایوس صورتحال میں دنیا کے مسلمانوں سے کہا تھا۔

اگر عثمانیوں پہ کوہ ِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

پہلی جنگ عظیم کے صرف ایک سال بعد تیسری برطانوی افغان جنگ 1919ء میں ہوئی اگرچہ یہ جنگ چند روزہ تھی مگر اس میں پہلی بار Kabul پر برطانوی ہند کی فضائیہ نے بمباری کی اور جنگ کے بعد افغانستان نے نہ صرف مکمل خودمختاری حاصل کر لی بلکہ اس نے روس کی مدد سے اپنی فضائیہ بھی بنانے کا آغاز کر دیا  مگر تھوڑے عرصے بعد ہی افغانستان میں برطانوی سازش کے ذریعے وہاں کے مقبول King Ghazi Amanullah کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے بعد 1939ء تا 1945ء دوسری جنگ عظیم جاری رہی اس دوران اور اس کے فورا بعد جو لیڈرشپ عالمی سطح پر سامنے آئی  ان میں امریکی صدرو Franklin D. Roosevelt ، 1933-45ء Harry S. Truman 1945-53ء Stalin ، Winston Churchill ، John Diggle ، Quaid-e- Azam Mohammed Ali Jinnah ، Pandit Jawaharlal Nehru ، Mao Zedong ، Zhou Enlai اور تھوڑے عرصے بعد ملائیشیا کے Tunku Abdul Rahman ، انڈونیشیا کے Sukarno ، مصر کے Jamal Abdul Nasir ،  چیکو سلواکیہ کے Martial Tattoos شمالی کوریا کے Kim Il Sung ، اور ویتنام کے Ho Chi Minh شامل تھے۔

جنگ عظیم کے بعد مرحلہ وار نوآبادیاتی نظام ختم ہو رہا تھا البتہ سرد جنگ کے آغاز کے بعد ہی سے عالمی سطح پر مربوط معاشی اقتصادی نظام کا نقشہ  دوسری جنگ عظیم سے دو، تین سال پہلے ہی انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ آئی ایم ایف اور پھر ورلڈ بنک کی صورت میں اور سیاسی سطح پر اقوام متحدہ اور خصوصاً اس کی سیکیورٹی کونسل کی تشکیل کے ساتھ 1943ء تا 1945-46ء بنیادی ڈھانچے کی صورت تشکیل پا چکا تھا۔  1947 سے 50ء کی دہائی کے وسط تک اس بدلتی ہوئی صورتحال کو مسلم دنیا میں صرف پاکستان، مصر اور انڈونیشیا، کی لیڈرشپ سمجھتی تھی۔

پاکستان میں Quaid-e- Azam Mohammed Ali Jinnah کی وفات اور Liaqat Ali Khan کی شہادت کے بعد ہماری قیادت نے اس صورتحال کے مقابلے کے بجائے مفاہمت کی پالیسیوں کو اپنایا، Quaid-e- Azamکو آزادی کے بعد جو پاکستان ملا اس نئی مملکت کو جہاں اقتصادی، معاشی مسائل درپیش تھے وہاں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت، بھارت کی جانب سے اثاثوں کی تقسیم اور ملک میں اعلی فوجی و سول بیوروکریسی میں مسلمانوں کا کم ہونا شامل تھا مگر ان تمام مسائل کے باوجود کشمیر میں مجاہدین اور پاک فوج کی بھارت کے خلاف جنگ میں آدھا کشمیر آزاد کرانا ایک اہم ترین کارنامہ تھا۔  جنگ عظیم اول اور دوئم کا زمانہ ایسا دور ہے کہ اس میں دنیا جنگ کے نام پر عالمی سطح پر دو گروہوں میں دو مرتبہ تقسیم ہوئی، 7 کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

یہ سیاسی نوآبادیاتی نظام کے جبر کا عالمی، علاقائی اور مقامی سطحوں پر شدید ردعمل تھا جس نے نہ صرف عالمی سطح کے اجتماعی مفادات کا ٹکرا پیدا کیا بلکہ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں بڑی لیڈرشپ کو جنم دیا اور ان لیڈروں نے معاشروں میں اپنی ساکھ بنا کر قوم و ملک پر اعتبار قائم کر کے جدوجہد کے ذریعے آزادیاں حاصل کیں اور کہیں اپنی آزادی کو مستحکم کرتے ہوئے اپنے قومی وقار کو بلند کیا، اپنی خوشحالی اور ترقی کو پائیدار بنایا۔  نظریات کی بنیادوں پر سابق سوویت یونین، چین اور پاکستان اہم تھے اور Quaid-e- Azamاس لحاظ سے منفرد تھے کہ انہوں نہ صرف دو قومی نظریے کے ساتھ 1916ء کے میثاق لکھنو میں ہندو، مسلم اتحاد کی بنیاد پر ہندوستان کی جلد اور یقینی آزادی کا قابل عمل فارمولہ دیا  اور جب اس پر کانگریس کی بدنیتی کو بھانپ لیا تو 1940ء کی قرارداد ِ پاکستان کے صرف 7 سال کے اندر پاکستان قائم کر کے دکھا دیا۔

جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کی دوسری دہائی تک بیشتر ملکوں میں جنگ عظیم دوئم کے زمانے کی لیڈرشپ رہی تھی، البتہ اس دور میں امریکہ کے جان ایف کینڈی اہم ترین رہے مگر تیسری دہائی میں جب سرد جنگ عروج پر پہنچی تو اس میں سوویت یونین کے Nikita Khrushchev ، Leonid Brezhnev Alexei Kosygin ، امریکہ کے صدور، Richard Nixon ، Gerald Ford اور Jimmy Carter اہم رہے جبکہ پاکستان سمیت اسلامی دنیا میں جو لیڈرشپ ابھری وہ بہت اہم تھی، ان میں پاکستان کے Zulfiqar Ali Bhutto ، سعودی عرب کے King Faisal ، شام کے صدر اسد، لیبیا کے صدر Colonel Moamer Gaddafi ، عراق کے صدر Saddam ، افغانستان کے صدر Dad ، ایران کے Imam Khomeini اہم تھے۔  Quaid-e-Azam کے بعد آج کے پاکستان میں سب سے زیادہ سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشی تبدیلیاں Zulfiqar Ali Bhutto کے دور میں ہوئیں اور ان تبدیلیوں کے اثرات کسی نہ کسی حوالے سے پوری دنیا پر بھی مرتب ہوئے جس طرح پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے میں روس، اسلامی دنیا اور امریکہ میں منفی اور مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ اسی طرح کی صورتحال 1971ء سے 1981ء تک رہی۔

1971 کی پاک، بھارت جنگ نے بھارت، سوویت یونین اتحاد پر چین، امریکہ اور پاکستان مختلف انداز سے مستقبل قریب کی پالیسیوں، منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں کو ترتیب دینے لگے۔ اس صورتحال میں قدرے مختلف پہلوئوں سے اس وقت اضافہ ہوا جب 1973ء کی تیسری عرب اسرئیل جنگ ہوئی۔ ان دونوں جنگوں سے اسلامی ممالک میں امریکہ اور سوویت یونین سے تعلقات کے لحاظ سے اعتماد و اعتبار میں کمی واقع ہوئی جس کے ردعمل میں 1974ء میں پہلی بار مقصد اور قدرے حقیقی اتحاد کی صورت مسلم ممالک میں پیدا ہوئی اور اس کا فائدہ بھٹو نے حاصل کیا اور لاہور میں کامیاب اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرائی، بھٹو نے عالمی سطح پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کی۔

پاکستان کو دولت مشترکہ سے نکال لیا، انہوں نے ایک جانب امریکہ اور برطانیہ سے باوقار انداز میں تعلقات قائم کئے تو ساتھ ہی ان کو سیاسی اور عسکری قوت کے لحاظ سے متوازن رکھنے کے لیے چین اور سوویت یونین سے بھی تعلقات استوار کئے، عرب اور خلیجی ممالک سے بہتر تعلقات اور دوستی کی وجہ سے جب ان ملکوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہو تو پاکستان سے تقریباً 3.5 ملین افراد ان خلیجی ریاستوں اور عرب ملکوں میں گئے جہاں انہوں نے جب مستقل بنیادوں پر کروڑوں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھیجنا شروع کیا تو اس کی وجہ سے ملک اور معاشرے کے بہت سے شعبوں میں واضح انداز میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک جانب تو پاکستان مالی اور اقتصادی اعتبار سے خصوصاً امریکہ اور مغربی ملکوں کے دبائو سے کافی حد تک آزاد ہو گا  تو دوسری جانب پاکستانی معاشرے میں جہاں صنعتی اور زرعی اصلاحات سے طبقاتی طور پر ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی تھی وہاں جب ہمارے دیہی علاقوں سے لاکھوں نوجوان روزگار کے لیے عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں گئے تو وہاں ان کی آمدنیاں ملک میں اجرت کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ تھیں اور یوں جن کو صدیوں سے کمی یعنی کمتر کہا جاتا تھا ان لوگوں نے محنت نہ کرنے والے بڑے اور درمیانے درجے کے زمینداروں کے گھروں کے سامنے بڑے اور پختہ مکانات بنائے۔

یوں یہ تبدیلی سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلی تھی جس کا مضبوط اور پائیدار تسلسل بدقسمتی سے جاری نہ رہا بلکہ معاشرے میں آبادی اور سماجی ساخت میں منفی تبدیلیوں کا سلسلہ اسی کی دہائی سے شروع ہو گیا جس کی وجہ سے خصوصا جب سرد جنگ کے اختتام 1990ء کے 11 سال بعد نئی طرز کی جنگ شروع ہوئی جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔  اس دوران خصوصا اسلامی دنیا کے بہت سے ممالک امریکہ اور دیگر ممالک کے زیرِعتاب رہے، اس دوران تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں اور معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یوں پاکستان پر بھی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا اور بدقسمتی سے ملک میں کرپشن کسی وبا کے انداز میں شدت اور تیز رفتاری سے بڑھی اور اس کی وجہ سے ملک بحران کا شکار ہوا اور وقت کے ساتھ اس دو پہلو ہی بحران میں میڈیا وار یا پروپیگنڈے سے پاکستانی عوام میں مایوسی بڑھنے لگی۔

یہ صورت 2006-07 ء سے بڑھتی ہوئی 2014 ء تک رہی مگر اس کے بعد پاکستانی فوج نے آپریشنوں کے ذریعے اس دہشت گردی کی جنگ کے خلاف غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس دوران جب 2007 ء  دسمبر کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی مرکز اور صوبہ سندھ میں برسر اقتدار آئی تو اس کے ساتھ ہی ملک میں جمہوری عمل شروع ہوا اور بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا  پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت ملک کے صدر آصف علی زرداری نے اس معاہدے کی پاسداری کی۔ باوجود اس کے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے ان پر اور پیپلز پارٹی کی حکومت اور ان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر پیپلز پارٹی نے اس دوران پارلیمنٹ سے 18ویں آئینی ترمیم منظور کروا لی اور پھر باوجود اس ترمیم اور مسلم لیگ ن سے مفاہمت کے پی پی پی 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن سے شکست کھا گئی مگر اس دوران طویل عرصے بعد ملک میں ایک تیسری قوت پاکستان تحریک انصاف نہ صرف میدان عمل میں آئی بلکہ اس جماعت نے ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچا۔

پاکستان تحریک انصاف نے 2013 ء کے عام انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ ن کے بعد مجموعی طور پر پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ لیئے تھے مگر قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں پیپلز پارٹی سے کچھ کم تھیں اور پنجاب میں قومی اور صوبائی حلقوں میں اکثر حلقوں میں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی۔ ان انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے انتخابات میں مسلم لیگ ن پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے  اور احتجاجی تحریک شروع کی گئی جو کسی نہ کسی اعتبار سے 2018 ء کے انتخابات تک جاری رہی۔  اس دوران جب عالمی سطح پر پانامہ لیک سامنے آئیں تو شریف خاندان پر اربوں ڈالر کی کرپشن اور ان رقوم کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات شروع ہوئے تو دوسری جانب 2008 ء سے 2018 ء تک قائم رہنے والی گذشتہ دونوں حکومتوں کی داخلی اور خارجہ پالیسیاں ہی ناکام نہیں رہیں بلکہ نواز حکومت نے تو اقتصادی بحران کے دوران اداروں کے درمیان تصادم کی پالیسی کو اختیار کر کے اپنے اقتدار  اور اپنے خاندان کو مقدمات سے بچانے کے لئے سب کچھ دائو پر لگا دیا اور یوں ملک انتہائی شدید نوعیت کے سیاسی و اقتصادی بحران کا شکار ہوا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا سیاسی اقتصادی بحران ہے۔

پہلا بحران قیام پاکستان کے ساتھ ہی نمودار ہوا تھا جب کانگریس اور انگریزوں کی کوشش تھی کہ پاکستان کی نئی ریاست ناکام ہو جائے  جس کو قائد اعظم نے باوجود جسمانی ناتوانی کے اپنی زندگی کے آخری ایک سال میں90% کم کر دیا تھا،  دوسرا بحران زیادہ شدید تھا جب 16 دسمبر 1971ء کو ملک دولخت ہو گیا تھا اور آج کے پاکستان کا بھی تقریبا 5000 مربع میل رقبہ بھارت کے قبضے میں تھا،  بھارت کے پاس 90000 جنگی قیدی تھے اور پاکستان کے خزانے میں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی صرف 3 مہینوں کی رقم تھی،  20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو صدر مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار ان کے حوالے کر دیا  تو ان کی ساکھ عوام میں بطور ایماندار محب وطن اور ذہین لیڈر کے بہت مستحکم تھی اور عالمی سطح پر خصوصاً ان کی خارجہ پالیسی اور حکمت عملی کو دشمن بھی تسلیم کرتے تھے اور اپنی ان صلاحیتوں کو انہوں نے بطور وزیر خارجہ دنیا سے منوایا تھا۔

یہ حیرت انگیز حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی ان خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر صرف دو برسوں میں ملک کو سیاسی و اقتصادی بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا، آج پاکستان اپنی 71 سالہ تاریخ کے تیسرے اور بڑے بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس میں بھی ملک کو اپنی سالمیت، کے ساتھ اقتصادی، سیاسی، خارجی اور دفاعی مسائل کا سامنا ہے۔  1947-48ء میں اس وقت دنیا کا نوآبادیاتی نظام ختم ہونا شروع ہی ہوا تھا اور چین جیسے ملک سمیت دنیا کے تقریبا 70 سے زیادہ ملک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال وغیرہ کی نوآبادیات سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے تھے اس لیے قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کو امریکہ کی جانب جھکنا پڑا، مگر بھٹو نے 1962ء کی بھارت، چین جنگ کے بعد ہی چین سے تعلقات کو بہتر کرنے کی حکمت عملی سے صدر ایوب خان کو آگاہ کرتے ہوئے  امریکہ کے مقابلے ایک توازن قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی اور بعد میں اس صورتحال میں مزید بہتری آتی رہی۔ دسمبر 1971ء کے دوسرے بحران میں جس میں ملک دو لخت بھی ہو گیا بھٹو نے کامیابی سے ملک کو باہر نکال لیا تھا۔

اب اس تیسرے بحران میں اگرچہ مسائل تقریباً وہی ہیں یعنی اقتصادی، سیاسی، خارجی اور دفاعی مگر آج دنیا کی صورتحال بہت بدل چکی ہے  اب سرد جنگ کے بعد کی جنگ جس کو 9/11 کے بعد سے دہشت گردی کی جنگ کا نام دیا گیا ہے  اس جنگ کو بھی اب 17 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کو اب تک کامیابی یا کامیابی کی وہ سطح حاصل نہیں ہوئی ہے جو اسے پہلی، دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد سرد جنگ کے اختتام 1990ئ تک حاصل ہوئی۔ اب امریکہ کے مقابلے میں اس جنگ کے حوالے سے پراکسی لڑائیاں جاری ہیں جو مجموعی طور پر سرد جنگ کی طرح ہی عالمی سطح پر لڑی جانے والی جنگ ہے۔  اب اس جنگ میں بھارت، چین، ایران، روس، امریکہ اور دوسرے ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی اس جنگ کا دورانیہ غالبا امریکہ کے مقررہ وقت سے زیادہ ہو چکا ہے اور جب جنگ طویل ہو جائے تو اس کے اخراجات کو طویل مدت تک برداشت کرنا عوام کو طویل مدت تک خصوصا جارحانہ انداز کی جنگ میں شامل رکھنا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔

اس وقت عمران کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی حکومت جس نے ابھی ایک ماہ کی مدت پوری نہیں کی ہے  ان بیرونی محاذوں پر ماضی کے مقابلے میں باوجود گمبھیر اقتصادی بحران کے اصولی موقف پر ٹھہری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اندرونی مسائل اور ان مسائل کے حل کے لیے کئے جانے والے وعدوں کا بوجھ بھی پی ٹی آئی پر ہے مگر ایک چیز جو ملک کی تاریخ میں تیسری مرتبہ کسی قیادت کو حاصل ہے  وہ عمران خان سے نوجوان نسل کا عشق کی حد تک لگائو ہے اور کروڑوں افراد فی الحال عمران خان سے جذباتی انداز میں پیار کرتے ہوئے اِن کی شخصیت پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔

ان سے قبل یہ اعزاز Quaid-e-Azam اور ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل رہا اور ان دونوں قومی ہیروز نے قوم و ملک سے مثالی وفا کی اور قوم کی محبت اور اعتماد کا بھرم قائم رکھا، ان تینوں شخصیات سے قوم کی محبت اور اعتماد کی بنیادی وجہ ان کا ایماندار ہونا اور اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کسی قوت کے آگے نہ جھکنا ہے۔ اب اگر Quaid-e-Azam اور بھٹو کے ادوار میں بااثر عالمی شخصیات اور اس عہد میں ان کے کردار کو مدنظر رکھیں، جس کا مختصر جائزہ لیا جا چکا ہے تو آج صورتحال بہت نازک اور دلچسپ بھی ہے، اگرچہ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے آج 2018  ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ تک بنیادی چیزیں یا مسائل وہی ہیں جنہوں نے 100 سال پہلے عالمی سطح پر اس وقت کی دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کو متاثر کیا تھا۔ دنیا کے وسائل اور دولت پر قبضہ اور اقتصادی طور پر اجارہ داری پہلی جنگ عظیم میں اس عالمی طرز عمل کے نتیجے میں اشتراکیت نے جنم لیا،

دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا مگر اقتصادی نوآبادیاتی نظام سرد جنگ کے ساتھ پھیلنے لگا، 1990 میں جس سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا اس میں اشتراکیت کو شکست ہوئی اور وہ دنیا سے تقریبا ختم ہو گئی۔آج تک کی دنیا میں ہونے والی تمام جنگوں سے مختلف ہے اس کے فریقین اعلانیہ طور پر دنیا کے سامنے نہیں ہیں، یہ جنگ ملکوں کی سرحدوں کی بجائے عموماً ان کے شہروں میں پراکسی انداز میں جاری ہے لیکن سرد جنگ کے برعکس دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے اقتصادی بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے اس کی ایک وجہ تو بڑی قوتوں خصوصاً امریکہ کی جانب سے بعض ملکوں پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ عالمی اقتصادی پابندیاں ہیں اور دوسری اہم وجہ ان ملکوں میں جہاں دہشت گردی ہے دہشت گردی سے سہم کر سرمایہ اور سرمایہ کار سکڑتا رہا ہے یا وہاں سے ہجرت کرتا رہا ہے، یوں عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے سکڑنے یا بہت کم مدت میں ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونے کی وجہ سے بھی سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور سب سے اہم پیداواری مسائل پوری دنیا میں شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور یہی عالمی ردعمل ہے کہ اب دنیا کے اہم ممالک میں پہلی دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے خاتمے کی طرح کی لیڈر شپ عالمی سیاسی منظر نامہ پر نمودار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

جو امید افزا بھی ہے اور خطرناک بھی۔ امید افزا یوں ہے کہ اب ایک جانب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی کوششیں ماضی کے مقابلے میں بہت تیز ہو گئیں ہیں امریکہ اور نیٹو ممالک کے حاکمانہ طرز عمل کو بھی ترقی پذیر ممالک نے دلائل اور توجیہات کی بنیاد پر چیلنج کر دیا ہے اگر چہ فی الحال امریکہ اور مغربی ممالک نے اپنی عالمی اقتصادی برتری اور قوت سے اسے دبانے کی کوشش کی ہے جس کی واضح مثال ترکی کی کرنسی کی قدر کو گرانا اور ایران پر شدید اقتصادی پابندیوں کا دوبارہ نافذ ہونا اور اپنے معاہدوں سے یکطرفہ طور پر مکر جانا، اور پاکستان کے کولیشن سپورٹ فنڈز کے 80 کروڑ ڈالر کا روک لینا ہے، اس صورتحال میں خصوصاً اگر امریکہ کا جائزہ لیا جائے تو سرد جنگ کی کامیابی میں رونالڈ ریگن اہم رہے  اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی صدور بش سینئر اور جونیئر دونوں اہم رہے،  مگر آج شائد دنیا کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس وقت امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ وہ 14 جون 1946ء کی پیدائش کے مطابق 72 سال کے ہیں۔

ان کی اہلیہ Melania Trump ان کے مقابلے میں 48 برس کی ہیں ان کی شادی 13 سال پہلے ہوئی تھی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس 3.1 ارب ڈالر کی دولت ہے اور یہی ان کی شہرت کی وجوہات ہیں، صدر ٹرمپ کے بعد اب عمران خان کے بطور اہم لیڈر اس عہدے کے دوسرے رہنمائوں سے موازانہ کریں تو اہم ترین ولادی میر پیوٹن ہیں جو 7 اکتوبر 1952 ء کو پیدا ہوئے، ان کی عمر 66 سال ہے وہ بھی اسپورٹس مین ہیں اور جوڈو کراٹے میں بلیک بیلٹ ہیں وہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے اہم عہدیدار تھے وہ گذشتہ 18 برسوں سے روس میں برسراقتدار ہیں۔ اس بار مارچ 2018 ء میں پیو ٹن 76% ووٹ لے کر دوبارہ 2024 ء تک روس کے صدر منتخب ہوئے ہیں، اور مشرق وسطی، ایران، ترکی، سینٹرل ایشیا اور افغانستان کی صورتحال پر ان کے کردار اور روس کی پالیسی نے انہیں دنیا کا ایک اہم لیڈر بنا دیا ہے۔

اسی طرح چین جو آج دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے یہاں Xi Jinping صدر ہیں اور وہ بھی دوبارہ منتخب ہوئے ہیں، وہ 15 جون 1953ء کو پیدا ہوئے اور اس وقت ان کی عمر 65 سال ہے  اور اس وقت وہ نہ صرف چین جیسے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑے ملک کے سربراہ ہیں جو اب اقتصادی استحکام کے بعد عالمی سطح پر دفاعی اعتبارسے بھی ایک بڑی قوت بن رہا ہے اور اس وقت اس کے تابناک مستقبل کی ضمانت دنیا کے بیشتر ماہرین دے رہے ہیں۔ ملائشیا کے سربراہ Mahatir Mohammad کا ذکر یہاں اس لیے ضروری ہے کہ وہ طویل عرصے تک ملائشیا کے سربراہ رہنے کے بعد ازخود اقتدار سے دستبردار ہو گئے تھے، مگر ان کے بعد کی لیڈرشپ نے کرپشن سے ملک کی ترقی کو متاثر کیا تو وہ حال ہی میں دوبارہ برسرِاقتدار آئے اور ملائشیا کی معیشت کو دوبارہ سنبھالا۔  مہاتر محمد 1925ء میں پیدا ہوئے ان کی عمر اس وقت 93 سال ہے۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ اور تقریبا ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ دنیا کے اہم ماہر معاشیات تصور کئے جاتے ہیں اور ایک بار پھر ملائشیا کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف ہیں۔  پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسلامی قوت اور دوستی کے علاوہ مجموعی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کی خصوصی اہمیت رہی ہے  اور گذشتہ دو برسوں سے سعودی عرب میں بھی اقتدار میں تبدیلی کے ساتھ بنیادی طور پر ان کی پالیسیوں میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے  اور داخلی طور پر King Salman bin Abdulaziz Al Saud اور Crown Prince Mohammad Bin Salman برسر اقتدار ہیں  اور بادشاہ کے ساتھ Crown Prince Mohammad Bin Salman بہت اہم ہیں، King Salman bin Abdulaziz Al Saud کی عمر 83 سال ہے  اور Crown Prince Mohammad Bin Salman جو 31 اگست 1985ء کو پیداہوئے تھے۔ اس وقت 32 سال کے ہیں اور یہ امید ہے کہ وہ مستقبل میں طویل عرصے تک حکمرانی کریں گے۔ اِس وقت سعودی عرب، یمن جنگ کے حوالے سے فیصلہ کن موقف اختیار کر چکا ہے، اور یہاں امن، یمن میں ایسی حکومت کے قیام پر ہی قائم ہوتا نظر آتا ہے جس کے تحت سعودی عرب کو مستقبل میں کسی طرح کی کوئی پریشانی یا اندیشہ نہ ہو، اسی صورتحال پر وہ ہمسایہ ملک قطر سے بھی اختلافات رکھتے ہیں، اندرونی طور پر شہزادہ محمد بن سلمان نے کر پشن کے خلاف کاروائیاں کی ہیں اور سابق شاہی اور اہم عہدیداروں سے اربوں ڈالر کی رقوم واپس لی ہیں، پاکستان کے سعودی عرب سے مراسم دفاعی اعتبار سے بھی بہت اہم ہیں۔

ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور گذشتہ 10 برسوں میں دونوں ملکو ں کے درمیان بعض امور پر ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی دکھائی دی،  چین، روس، ملائیشیا، سعودی عرب کی طرح ایران میں بھی سیاسی قیادت مستحکم نظر آتی ہے۔ یہاں صدر حسن روحانی گذشتہ سال منتخب ہوئے ہیں، وہ 12 دسمبر 1948 ء کو پیدا ہوئے  اور اس وقت ان کی عمر 69 سال ہے، وہ سابق اعلی فوجی افسر رہے، ایران، عراق جنگ میں انہوں نے شجاعت کی بنیاد پر ایرانی فوج کے اعلی ایوارڈ حاصل کئے، 1989 میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے سے ریٹائر ہو کر پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے اور اب ایران کے 7ویں اور مقبول صدر ہیں، لیکن بھارت اور افغانستان جن سے پاکستان کے مسائل طے پانے ہیں یہاں کی قیادت کو جلد انتخابات کا سامنا کرنا ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم Narendra Modi کی تاریخ پیدائش 17 ستمبر 1950 ء ہے یعنی وہ اس وقت 68 سال کے ہیں، گجرات کے وزیر اعلی کی حیثیت میں انہوں نے دو بنیادوں پر شہرت حاصل کی، ایک مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے انہیں دہشت گرد کہا گیا، دوئم یہ کہ انہوں نے صوبہ میں بے مثال ترقیاتی کام کئے، تقریبا ڈیڑھ لاکھ ڈیلے ایکشن ڈیم بنا کر نہ صرف زیرِ زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو دوبارہ مستحکم کر دیا  بلکہ یہاں پائیدار خوشحالی اور ترقی کی بنیاد رکھی مگر ان کے عہد میں کشمیری تحریکِ آزادی میں ماضی کے مقابلے میں بہت تیزی اور شدت آ گئی اور اب خود بھارتی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر، بھارت کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، مودی کو آئندہ سال انتخابات کا سامنا ہے۔ اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ پاک، بھارت تعلقات کی بحالی پاکستان میں مداخلت اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے مودی تیار ہوتے ہیں یا انتخابات کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں خطے میں بدلتی صورتحال بھی اہم ہے، افغان صدر اشرف غنی جو 21 ستمبر 2014 ء کو بہت متنازعہ صورتحال میں صدر منتخب ہوئے تھے آئندہ سال ان کو بھی دوبارہ انتخابات کا سامنا ہو گا، ان کو افغانستان میں نہ صرف اندرونی و بیرونی شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے بلکہ ان کے ہاں کرپشن اور دہشت گردی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے،

اس پورے تناظر میں دیکھیں تو عمران خان جو 5 اکتوبر 1952ء کو پیدا ہوئے اور ابھی 66 برس کے ہیں، عالمی شہرت یافتہ کرکٹر اور سوشل ورکر ہیں، سماجی خدمات اور کرکٹ میں مثالی کارکردگی کے بعد میدانِ سیاست میں آئے اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اس وقت ملک کے مقبول لیڈر کے طور پر وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، ان کو پاکستان کے گمبھیر اقتصادی مسائل کے ساتھ اندرونی طور پر بہت مضبوط حزب اختلاف اور طاقتور بیوروکریسی کا مقابلہ بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باوقار انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا ہے، 7 ستمبر کی شام وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خصوصا بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیمز بنانے اور قرضوں کی واپسی کے لیے امداد کریں اور ڈالر بھیجیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کی بطور لیڈر ساکھ کتنی مضبوط ہے اس کا اندازہ چند دنوں میں اس وقت ہو جائے گا  جب ان کی اپیل کے ردعمل پر قوم ان کی اور نئے پاکستان کی مدد کر کے اس کی تعمیرنو کرے گی۔

No comments.

Leave a Reply