کیا جنسی ہراسیت کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے؟: رپورٹ

اس MeToo تحریک نے عوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا

اس MeToo تحریک نے عوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا

واشنگٹن  ۔۔۔ نیوز ٹائم

نیو یارک ٹائمز نے اب سے ایک برس قبل ہالی ووڈ کی معروف شخصیت Harvey Weinstein کی طرف سے ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان سے زیادتی کرنے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس کے بعد سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی بہت سی خواتین جنسی ہراسیت اور جنسی حملوں سے متعلق اپنے ذاتی تجربات کے ساتھ سامنے آ چکی ہیں۔ یہ تحریک ٹویٹر کے ہیش ٹیگ #MeToo کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اس MeToo تحریک نے عوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔

حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے سپریم کورٹ کیلئے نامزد امیدوار جج Judge Brett Kavanaugh بھی تین خواتین نے الزام لگایا کہ انہوں نے انہیں زمانہ طالب علمی میں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔جنسی حراسیت کا مبینہ طور پر شکار ہونے والی خواتین کے سامنے آنے سے اس تحریک MeToo کو تقویت ملی ہے۔ تاہم، بعض ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ تحریک طویل عرصے تک موثر انداز میں جاری رہ پائے گی۔

خواتین کے حقوق سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم CARE کی طرف سے ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ 8 ممالک کے ہر 4 میں سے ایک شخص کا خیال ہے کہ اسے اپنی خواتین ملازمین کی طرف سے جنسی تسکین کا حق حاصل ہے۔ اس تنظیم کی Rachel Lemon نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسے خیالات کے حامل افراد کا تناسب مصر میں 62 فیصد تھا۔ لیکن امریکہ میں بھی نمبر یقینی طور پر کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر 8 میں سے ایک شخص کی بات کر رہے ہیں جو 2018ء میں بھی ایسا رویہ رکھتا ہے۔ لہذا، یہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ واقعی ایک عالمی مسئلہ ہے۔

کنسلٹنٹ Devya Taminکے مطابق MeToo تحریک کاروباری دنیا میں ایک تبدیلی کا باعث بن رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سرمایہ کار ایسے کاروباروں میں رقم لگانے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں جن میں MeToo کے حوالے سے سامنے آنے والے واقعات سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کاروباری کمپنیوں کے بورڈ پہلے سے زیادہ ذمہ دار ہوتے جا رہے ہیں اور اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے بورڈ میں خواتین کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی ساکھ کے حوالے سے موجود رسک سے بھی آگاہ ہیں۔ Devya Tamin کہتی ہیں کہ کاروباری کمپنیوں کے بورڈز نئے ارکان کی شمولیت سے زیادہ متنوع ہو گئے ہیں  اور یہ تنوع بورڈ کو اس بات کا اہل بناتا ہے کہ وہ درست فیصلے کریں۔ Devya Tamin نے دسمبر 2015 ء سے ایسے ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ مرتب کیا ہے جن میں لوگوں پر جنسی ہراسیت یا اس سے بھی زیادہ زیادتی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں اب تک 723 نام شامل ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ MeToo تحریک سیاسی تبدیلی کو بھی فروغ دے رہی ہو۔

اب نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں کانگریس، گورنر یا ریاستی اسمبلیوں کیلئے خواتین امیدواروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔  Center for American Women and Politics  کی Kelly Dittmar کا کہنا ہے کہ MeToo تحریک ایک ایسا ماحول تشکیل دے رہی ہے  جس میں خاص طور پر مردوں اور خواتین میں طاقت کے عدم توازن کے بارے میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں  اور اگر تمام اداروں میں طاقت کے عدم توازن پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ خواتین اہم فیصلے کرنے کا اختیار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کچھ امریکیوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک ایک تبدیلی لا رہی ہے۔  ریاست utah کی ایک گھریلو خاتون Teresa brent کہتی ہیں کہ اس تحریک کا یقینی طور پر اثر ہوا ہے  اور اب وہ اپنی بیٹیوں کو یہ سکھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ ایسے ممکنہ حالات سے کیسے نمٹ سکتی ہیں۔  Arizona State سے تعلق رکھنے والے ایک ویب اور Product Designer Eric Vincent کا کہنا ہے کہ یہ تحریک انہیں اس بات پر غور کرنے کی طرف مائل کرتی ہے کہ یہ صورت حال باقی تمام معاشرے میں اس قدر کیوں پھیلی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آنکھیں کھولنے والی اور حیران کر دینے والی بات ہے۔

تنظیم CARE کی Rachel Lemon کا کہنا ہے کہ خواتین کو بلاتفریق ہر جگہ ایسے مسائل کا سامنا ہے اور تشدد، عدم مساوات اور انتہائی غربت ان مسائل میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہ تنظیم مصر جیسے ممالک میں ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں یہ رکشا چلانے والوں کو تربیت دے رہی ہے کہ وہ اپنے رکشا کو خواتین کیلئے محفوظ سواری کیسے بنائیں۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ MeToo تحریک طویل عرصے تک جاری رہ پائے گی؟ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ خواتین کیلئے مکمل آزادی کے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس کیلئے صرف MeToo تحریک ہی کافی نہیں ہے بلکہ خواتین کو ایسے واقعات کے خلاف نڈر ہو کر بولنا پڑے گا۔

No comments.

Leave a Reply