افغانستان کی کہانی تاریخ کی زبانی

امریکہ نے قومی مفاد میں17 سال میں ہزاروں افغان قتل کیے

امریکہ نے قومی مفاد میں17 سال میں ہزاروں افغان قتل کیے

نیوز ٹائم

افغانستان کے بارے میں ایک ضرب المثل مشہور ہے اللہ آپ کو کوبرا سانپ کے زہر، شیر کے دانتوں اور افغان کے انتقام سے بچائے۔ ایک امریکی کانگریس ممبر نے تحریر کیا کہ امریکہ نے قومی مفاد میں17 سال میں ہزاروں افغان قتل کیے، کئی بلین ڈالر خرچ کیے مگر اس کا مشن ناکام ہوا اور مقاصد حاصل نہ ہوئے۔ افغانستان ایک بند ملک ہے جو روس، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران اور پاکستان کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ پشتون ولی افغانستان کی قدیم روایت ہے ۔ عزت، مہمان نوازی اور انتقام اس کے بنیادی اصول ہیں۔ افغانستان میں پشتونوں کی آبادی زیادہ ہے جو افغان، پاکستان سرحد کے آر پار پھیلی ہوئی ہے۔ دوسرے نمبر پر ازبک اور تاجک ہیں۔ برطانیہ اپنے سامراجی دور میں افغانستان کو فتح نہ کر سکا۔

برطانیہ کے وزیر اعظم Churchill نے کہا تھا کہ افغانستان میں جنگ سرمائے کا ضیاع اور رسوائی کا باعث ہے۔ 1979میں روس نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنی افواج افغانستان میں داخل کر دیں۔ یہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ روس کی مہم جوئی سے امریکہ کو سنہری موقع مل گیا اور اس نے افغانستان کو روس کا ویتنام بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ پاکستان کے آمر جنرل Zia-ul-Haq اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے افغان جہاد کے لیے امریکہ سے اتحاد کر لیا۔ دنیا کے کئی ممالک خصوصی طور پر سعودی عرب نے افغان جہاد کی مالی معاونت کی۔ 1980اور 1991ء کے دوران امریکہ نے 5 بلین ڈالر کا اسلحہ افغان مجاہدین کو سپلائی کیا۔ شدید لوکل مزاحمت کی بنا پر روس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

افغان جہاد کے دوران پاک فوج کے غیر معمولی کردار کی وجہ سے پاکستان کو نقصانات کا متحمل ہونا پڑا۔ آمر جرنیل نے اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کونسل در نسل دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ امریکہ نے روس کو شکست دینے کے بعد افغانستان کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی۔ افغانستان کا نظم و نسق اور امن و امان برباد ہو کر رہ گیا۔ مجاہدین اور وار Lords قتدار کی خاطر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہونے لگے۔ اغوا، بھتہ خوری، زنا بالجبر اور قتل و غارت گری کی وارداتیں عام ہونے لگیں۔ افغان عوام کے لیے عزت سے جینا محال ہو گیا۔

ان حالات میں ملا عمر نے طلبہ کے ایک گروپ کے ساتھ جہاد کا آغاز کیا اور افغانستان کا امن بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ طالبان کی سادگی اور ایمانی جذبے سے متاثر ہو کر افغان عوام نے ان سے تعاون کیا۔ ملا عمر کی قیادت میں طالبان کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے افغانستان میں امن بحال کر دیا۔ امریکہ اور مغربی ممالک طالبان کی مقبولیت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ملا عمر نے اسلام اور Pashtun nationalism کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اپنے مثالی کردار سے افغان عوام کے دل جیت لیے۔ طالبان اگر مفکر اسلام Allama Iqbal کے اسلامی تصور کے مطابق جہاد کر کے طرز حکمرانی کو زمانے کے نئے تقاضوں کے ساتھ جوڑتے تو دنیا ان کو تسلیم کر لیتی مگر انہوں نے اپنی فقہ پر عمل کر کے کچھ ایسے انتہا پسندانہ اقدامات اٹھائے جو جدید دنیا کو پسند نہ آئے۔

القائدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن جس نے افغان جہاد میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور امریکہ کا لاڈلہ تھا۔ طالبان حکومت کا اتحادی اور مہمان تھا۔ 9/11 کے سانحے کے بعد امریکہ نے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا جسے ملا عمر نے مسترد کر دیا۔ امریکہ نے 2001ء کے آخر میں نیٹو کے تعاون سے افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان پر آمر جرنیل Pervez  Musharraf حکمران تھا اس نے اپنے اقتدار کے لیے قومی مفاد کے برعکس امریکہ کی غیر معمولی شرائط پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی بننا قبول کر لیا۔ امریکہ نے افغانستان پر شدید بمباری کی طالبان پسپا ہو کر کابل سے فرار ہو گئے۔ امریکہ نے Pashtun ethnicity کو نظر انداز کر کے افغانستان پر Non-Pashtun Afghans ، شمالی اتحاد (Tajik ، Uzbek) کی حکومت قائم کر دی البتہ حکومت کا سربراہ پشتون Hamid Karzai کو نامزد کیا جس کا پشتون علاقوں میں کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا۔ امریکی سرپرستی میں قائم کی گئی مخلوط افغان حکومت امن کے قیام اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکام رہی۔ افغانستان کے پشتون علاقوں کے افغان احساس محرومی کا شکار ہو گئے اور وہ پشتون طالبان سے تعاون کرنے لگے۔

افغان طالبان کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر پاکستان طالبان نے بھی الگ تنظیم بنا لی۔ افغانستان میں القائدہ، افغان طالبان، ISIL اور پاکستان طالبان اپنے اپنے مقاصد کی خاطر افغان حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکہ، افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اور اب باعزت واپسی کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں۔

تحریک انصاف کی حکومت افغانستان کے مسئلے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔  وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی دورہ سے پہلے افغانستان کا دورہ کیا تاکہ زمینی حقائق کے بارے میں پوری معلومات حاصل کی جا سکیں۔ امریکہ، افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ البتہ اس کی خواہش ہے کہ امریکی افواج کے انخلا سے پہلے، افغانستان میں امن اور استحکام آ جائے جو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران پاک، امریکہ تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ میں امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ Mike Pompeo اور قومی سلامتی کے مشیر John Bolton سے ملاقاتیں کی ہیں جن کو مثبت اور خوشگوار قرار دیا جا رہا ہے۔  وزیر خارجہ Mike Pompeo پرامید ہیں کہ پاک، امریکہ تعلقات میں تنائو ختم ہو جائے گا اور دونوں ممالک مشترکہ مقاصد کے لیے پیش قدمی کریں گے۔  امریکی اہلکاروں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ پاکستان کو امریکہ کے علاوہ روس، چین اور ایران کو اعتماد میں لے کر افغان مسئلے کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔ نئی حکومت اگر عوامی سطح پر وفود کے تبادلے کر کے افغان عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرے تو دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply