پاک، جرمن تعلقات

انتخابات میں کامیابی  پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے عمران خان کو فون کر کے انہیں وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش دی تھی

انتخابات میں کامیابی پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے عمران خان کو فون کر کے انہیں وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش دی تھی

نیوز ٹائم

جرمنی پاکستان کا سب سے بڑا یورپی پارٹنر ہے۔ جرمنی نہ صرف اقتصادی لحاظ سے بہت اہم ملک ہے بلکہ یورپی یونین کی پالیسیوں میں کافی اثرورسوخ رکھتا ہے اور یورپی یونین کے تمام اہم فیصلے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت جرمنی کے دارلحکومت برلن میں ہوتے ہیں۔ لہذا جرمنی، پاکستان کے لیے ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ انتخابات میں کامیابی  پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے عمران خان کو فون کر کے انہیں وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش دی  تھی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں وسعت کی خواہش کا اظہار کیا۔ جرمن چانسلر نے وزیر اعظم کو دورہ جرمنی کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔ جرمنی، پاکستان کو مشینیں، کیمیکل، الیکٹرانک مصنوعات اور گاڑیاں برآمد کرتا ہے اور پاکستان سے ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات درآمد کرتا ہے۔

سن 2016 ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارتی حجم 250 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔ پاکستان اور جرمنی میں تجارت کے فروغ کے امکانات کافی ہیں۔ پاکستان اور جرمنی کی تجارت میں حائل مشکلات کا پتہ چلانے اور ان مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جرمنی کئی شعبوں بالخصوص اسکل ڈویلپمنٹ، قابل تجدید توانائی اور واٹر مینجمنٹ وغیرہ میں کافی مہارت رکھتا ہے اور پاکستان اس سے ان شعبوں میں استفادہ حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان، جرمنی سے اعلی تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں بھی مدد لے سکتا ہے۔  پاکستان میں بالخصوص بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے کافی مواقع ہیں اور جرمنی کے سرمایہ کار اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ووکیشنل ایجوکیشن ٹریننگ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں جرمنی، پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ اچھی فنی تعلیم کے ذریعے پاکستان کے کاروباری سیکٹرز اسٹینڈرائزڈ ہوں اور طالب علموں کو جو سرٹیفکیٹ ملیں ان سے ان کی اہلیت میں بھی اضافہ ہو گا اور وہ کوالٹی کے اچھے معیارات کو بھی فالو کر سکیں گے، اس کے علاوہ ان کی اسناد کو بھی دنیا بھر میں تسلیم کیا جائے گا۔ جرمنی کے ساتھ پاکستان کے ثقافتی اور تعلیمی وفود کا بھی زیادہ سے زیادہ تبادلہ ہونا چاہیے۔

توانائی، زراعت، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں سرگرم عمل جرمن کمپنیوں کو پاکستانی تاجروں سے ملوانا چاہیے۔ جرمن کمپنیوں کو بتانا چاہیے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے کتنے مواقع موجود ہیں۔ جرمنی میں ہر سال بڑی تعداد میں گاڑیوں، ٹیکسٹائل، چمڑے، زراعت اور دیگر مصنوعات کی بین الاقوامی تجارتی نمائش منعقد ہوتی ہے۔ پاکستان ایسی 30 نمائشوں میں حصہ لیتا ہے جن میں شرکت کے لیئے ہر سال سینکڑوں پاکستانی تاجر جرمنی آتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ رینیوایبل انرجی کے شعبے میں کاروباری افراد کو چیلنجز کا بھی سامنا رہتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں ریگولیٹری ایشوز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں توانائی اور آٹو موبائل سیکٹر میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ جرمنی کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو توانائی کے متبادل اور قابل تجدید ذرائع کے استعمال کو ترویج دینے کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں جرمنی دنیا کے بہت سے دیگر ملکوں سے کہیں آگے ہے۔ جرمنی میں صنعتی اداروں کے علاوہ گھریلو صارفین میں بھی اپنی ضرورت کی بجلی اپنے طور پر تیار کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمنی میں بجلی کی سالانہ کھپت 600 ٹیٹرا واٹ آور ہے۔

ایک جائزے کے مطابق 2050ء تک جرمنی اس قابل ہو سکتا ہے کہ اپنی بجلی کی تمام تر ضروریات توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے حاصل کر سکے۔ پاکستان قریب گزشتہ ایک دہائی سے تونائی بحران کا شکار ہے۔ پاکستان میں بجلی کی ضرورت کا تخمینہ 22 سے 24 ہزار میگا واٹ تک ہے۔ جرمنی محض ونڈ انرجی سے 25 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی کو بھاری ٹیکنالوجی کے حوالے سے خاص شہرت حاصل ہے۔ جرمنی کی کارساز صنعت کے مختلف برانڈز ہیں جنہیں لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ سن 2016ء اور سن 2017ء میں کاروں کی عالمی امپورٹ میں جرمنی کا حصہ 22 فیصد تھا۔  پاکستان میں جرمن کار انڈسٹری کے پلانٹ لگانے اور جرمنی کے انرجی سیکٹر کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان اور جرمنی کے تعلقات کو صرف چند شعبوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کی توسیع کے بے پناہ مواقع موجود ہیں جن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

No comments.

Leave a Reply