کشمیر کی تاریخ میں 27 اکتوبر کا سیاہ دن کیوں ہے؟

ستائیں اکتوبر کو کنڑول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں آباد کشمیری یوم سیاہ مناتے ہیں۔

ستائیں اکتوبر کو کنڑول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں آباد کشمیری یوم سیاہ مناتے ہیں۔

نیوز ٹائم

ستائیں اکتوبر کو کنڑول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں آباد کشمیری یوم سیاہ مناتے ہیں۔ مظفر آباد سے سری نگر تک کشمیری ہم آواز ہو کر کشمیر پر بھارت کے قبضے کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔  کشمیر میں 27  اکتوبر کو یوم سیاہ منانے کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب کشمیر کی وادیوں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ بھارت نے اپنی فوج سری نگر ایئر پورٹ پر اتار دی ہے اس کے ساتھ کشمیر کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔ حالات سے مایوس ان سرگرم اور جواں سال سیاسی کارکنوں نے پاکستان کی طرف ہجرت شروع کر دی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور اس کے قائد Sheikh Mohammad Abdullah بھارتی فوج کو ایک ناگزیر برائی، جان بچانے کے لیے شراب کا گھونٹ اور مسیحا جان کر بغلیں بجا رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ چند ہی برس میں فوج امن و امان قائم کر کے خودمختار کشمیر کو ان کی جھولی میں ڈل کر Lakhanpur سے آگے چلی جائے گی۔ مگر ان کی یہ غلط فہمی تادیر برقرار نہ رہ سکی۔ نیم خودمختار ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعظم کو جلد ہی اندازا ہو گیا کہ کوئی چھوٹی قوم جب بڑی قوموں کے مفادات کا ایندھن بن جائے تو اس کے پاس سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔

وزیر اعظم کشمیر کو اپنے عہدے کے دوران ہی احساس ہو گیا کہ قبائلی لشکر Baramullaتک سیر و تفریح اور کشمیر کے حسنِ بے مثال کی ایک جھلک دیکھ کر کسی Womans کی طرح شرما کر لجا کر واپس وزیرستان چلے گئے ہیں مگر قبائلیوں کے نام پر بن بلائے مہمان Maratha Empire Army تو اس قدر ڈھیٹ ہیں کہ واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ خوبرو لوگوں کی دھرتی پر قبیح صورت Maratha کی مسلسل موجودگی کسی ستم سے کم نہ تھی ان کے ہاتھوں میں ہمہ وقت تنی ہوئی وہ بندوقیں تھیں جن کی نال میں آخر تک روشنی کا کوئی سراغ نہیں بلکہ تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اس صورت حال سے مایوس وزیر اعظم کشمیر اور شیرِ کشمیر Sheikh Mohammad Abdullah کی بے چینی بڑھنے لگی اور انہوں نے بھارت سے کشمیر میں اپنا قیام طویل کرنے کے بجائے وعدوں کی پابندی کرنے کی بات کرنا شروع کی۔ اس بات سے دہلی والوں کی جبینیں شکن آلود ہوتی چلی گئیں اور پھر وزیر اعظم کشمیر کو اصلی اور بڑے وزیر اعظم ہند Pandit Nehru نے جو ذاتی زندگی میں ان کے ہم ذات Coal Brahmin ، سوشلسٹ نظریاتی ساتھی تھے، انہی کی طرح مذہب کو ریاستی امور سے دور کسی کھونٹے میں باندھنے کے قائل تھے، نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا اس شعر سے مختلف نہ تھا۔

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

اصلی وزیر اعظم Pandit Nehru نے اپنے دوست لیکن چھوٹے وزیر اعظم Sheikh Mohammad Abdullah کو اقتدار کی مسند سے اٹھا کر پٹخ دیا اور ان کا ٹھکانہ جیل قرار پایا۔ اس کے بعد بھارت نے دنیا کی ہر عیاری، دھوکا دہی، جعل سازی، دھونس، دھاندلی، ظلم و تعدی کا سہارا لے کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر آفرین ہے کشمیری قوم کے عزم و ہمت پر کہ جو 66 برس سے مسلسل ایک ہی حرف انکار بلند کیے ہوئے ہیں کہ وہ بھارتی نہیں، نہ بھارتی بن سکتے ہیں۔ بھارت نے انہیں اندار گاندھی کی موت پر آنسو بہانا سکھانے کی ہر تدبیر کی مگر وہ جذباتی اور سیماب صفت لوگ بھٹو اور ضیا الحق کی موت پر روتے رہے، بھارت نے انہیں   کپیل دیو اور اظہر الدین کے چھکوں پر دیوانہ وار رقص پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ میانداد اور شاہد آفریدی کے چھکوں پر رقص و مستاں ہوئے۔ بھارت نے ان کے ذہنوں کی انڈینائزیشن کی تدبیریں کیں تو یہ صوفی منش قوم خود اپنی ذات اور قومی وجود میں گم ہو کر Self centred ہو کر رہ گئی۔ اس نے اس بات سے کوئی غرض نہیں رکھی کہ Lakhanpur سے آگے کون حکمران ہے اور کیا ہوتا۔ دہلی کے روز و شب کیا ہیں؟ اور وہاں کیا ہوتا ہے؟ اس نے بھارت کے دیوہیکل ہیروز کے مقابلے میں کشمیریت اور کشمیری شناخت کا چراغ جلائے رکھنے کے لیے اپنے چھوٹے چھوٹے میڈ اِن کشمیر ہیرو تراشے اور تلاشے۔وہ بھارت کے دکھ میں اس کے ساتھ روئے نہ اس کی خوشیوں میں ہنسے۔

کشمیری قوم آج بھی مصر ہے کہ بھارت انہیں بھارتی بنانا چاہتا ہے تو اس کے معروف جمہوری طریقہ اختیار کرے۔ وہ طریقہ جس کا اعلان و اظہار مہاراجا کے پروان الحاق ملنے کے بعد Viceroy ہند، Lord Mountbatten نے کیا تھا کہ ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں اگر کوئی اختلاف پیدا ہو گا اسے عوام کی مرضی کے اصول کے تحت حل کیا جائے گا۔ Pandit Nehru نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے خطاب میں Lord Mountbatten کی مبہم اصطلاح کو استصواب رائے کا واضح نام دیا۔ Sheikh Abdullah نے الحاق کو عوامی تائید کی legitimacy تو دی مگر وہ مسلسل کہتے رہے کہ الحاق عارضی ہے۔ کشمیری آج بھی Pandit Nehru کے اقوال اور وعدوں کی چتا کو کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں مگر بھارت بطور ریاست ان اصولوں اور وعدوں سے انکاری ہو چکا ہے۔ کشمیریوں کا بھارت کے ساتھ یہی یک نکاتی جھگڑا ہے۔ وہ بھارت سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم اور جنگ آزادی کے بانی Pandit Nehru کے اقوالِ زریں کی پاسداری چاہتے ہیں۔ وہ انڈیا ونز فریڈم نامی شہرہ آفاق خود نوشت کے مصنف کشمیر کو اپنی محبوبہ کہنے والے پنڈت نہرو کی تقریروں اور وعدوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔

وقت کے گھڑیال پر کشمیریوں کے جذبات کی سوئی 1948ء کے پہلے یوم سیاہ سے 2013ء تک انہی وعدوں پر اٹک کر رہ گئی ہے۔ بھلا نظریات کے اس تسلسل کو اس دھارے کو فوج کے ذریعے موڑا جا سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔  Pandit Nehru کے وعدے تاریخ کا ایسا قرض ہیں اور بوجھ ہیں جنہیں چکائے بغیر، اتارے بغیر بھارت کو سکون و آرام حاصل نہیں ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت، دنیا کے سب سے بڑی جمہوریہ، مغرب کی پسندیدہ ترین ریاست، اسرائیل اور امریکا جیسے طاقتور ملکوں کی اسٹرٹیجک پارٹنر، معاشی آسودگی، سیاسی استحکام، داخلی امن و امان کی بے شمار منزلیں عبور کرنے، میزائلوں کا انبار لگانے کے باوجود پنڈت نہرو کے وعدوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔

پاکستان کے ساتھ بھارت کی کشیدگی کی کلید کشمیر ہے اور کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رکھ کر دونوں ملکوں میں مثالی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے  اور مثالی تعلقات قائم نہ ہونے کا نقصان یہ ہے کہ نہ بھارت، افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے معدنی ذخائر تک پہنچ سکتا ہے اور نہ مست ہرنی کی طرح سارک ممالک میں آزادانہ تجارت اور آمدورفت کی چوکڑیاں بھر سکتا ہے۔ حد تو یہ اس عارضے کی وجہ سے وہ اپنے عالمی کی دخل اندازی اور قبولیت کے باوجود سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے سے بھی محروم ہے۔

No comments.

Leave a Reply