سعودی بادشاہت اور نیا بحران

صحافی جمال خاشقجی کی موت کے بعد سعودی حکومت بلکہ خود شاہ سلمان اور ولی عہد ایک نئے بحران کا شکار ہیں

صحافی جمال خاشقجی کی موت کے بعد سعودی حکومت بلکہ خود شاہ سلمان اور ولی عہد ایک نئے بحران کا شکار ہیں

نیوز ٹائم

یہ بحران گذشتہ دو اڑھائی ہفتے میں نہ صرف پیدا ہوا ہے، بلکہ اس کی شدت اور گہرائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ویسے تو بحران اور سیاست و اقتدار کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پس ماندہ اقوام تک کسی تفریق کے بغیر دیکھا جا سکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں اور غلام گردشوں سے بحران کی ہوائیں گزرتی رہتی ہیں۔  کبھی ان کی رفتار نرم ہوتی ہے اور وہ دبے پائوں ایک طرف سے آتی اور دوسری طرف نکل جاتی ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ در و دیوار سے ٹکراتے منہ زور تھپیڑوں کی طرح ایوانِ اقتدار کی بنیادوں کی ہلاتی نظر آتی ہیں۔ اس وقت Saudi King Salman bin Abdulaziz کا اقتدار ایسے ہی ایک بلاخیز بحران کی زد پر آیا ہوا ہے۔ بحران کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ امریکا سے یورپ تک مقتدر ممالک کے سربراہوں نے اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ یہ ردِعمل سعودی حکومت پر دبائو کی فضا میں اضافہ کر رہا ہے۔

دوسری طرف عالمی ذرائع ابلاغ، حقوقِ انسانی، آزادیِ اظہار اور انصاف و مساوات کی متعدد تنظیمیں اور مختلف ممالک کی صحافتی برداری اس مسئلے پر نہ صرف کھلے عام اپنی رائے اور ردِعمل کا اظہار کر رہی ہیں،  بلکہ اس ضمن میں راست اور فوری اقدامات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے بھی اس خبر کے پھیلائو اور بحران کی شدت میں اضافے میں خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِس وقت یہ مسئلہ عالمی سطح پر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے۔ سعودی حکومت، بلکہ خود Saudi King Salman bin Abdulaziz نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات کا آغاز بھی کیا ہے،  لیکن فی الحال اس پر دبائو کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

2 اکتوبر کو جب مسئلے کا آغاز ہوا، بلکہ واقعہ رونما ہوا، اس وقت سعودی ایوانِ اقتدار کی محفوظ چھتوں کے سائے تلے بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ گمان بھی نہ گزرا ہو گا  کہ اس واقعے کے نتیجے میں وہ شور برپا ہو گا کہ جس سے ان پرسکون سائبان کے دیوار و در لرز اٹھیں گے۔ ایک صحافی یک بہ یک اتنا اہم ہو جائے گا کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں اس کے حق میں آواز بلند کرنے لگیں گی۔ دنیا بھر میں صحافی برادری کے وہ لوگ جنھوں نے کل تک ایک شخص کا نام بھی نہ سنا ہو گا،  وہ اس کے طرف دار اور حمایتی بن کر سامنے آ جائیں گے اور ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملا کر ایسی گھن گرج پیدا کریں گے کہ ساری دنیا ان کی طرف متوجہ ہو جائے گی۔ اگر اس کا ذرا سا بھی اندازہ سعودی حکومت کے افراد کو ہوتا تو مسئلے کا کوئی اور حل سوچا جاتا اور یہ واقعہ ہرگز رونما نہ ہوتا۔  یقینا ایسی کسی بات کا گمان خود جمال خاشقجی کو بھی نہ ہو گا۔

Jamal Khashoggi کون تھا؟ ایک صحافی جو لگ بھگ سال 15 ماہ پہلے سعودی عرب سے ازخود جلاوطنی اختیار کر کے امریکا منتقل ہو گیا تھا۔ اِس لیے کہ اپنے ملک میں اس کے لیے حالات ناسازگار ہو گئے تھے۔ وہ اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس نے محنت کی تھی۔ اپنے معاشرے میں پہچان حاصل کی تھی اور شعبے میں جگہ بنائی اور نام کمایا تھا۔ وہ کوئی عام، گمنام سا صحافی نہیں تھا۔ ان لوگوں میں تھا جن کی پیش کی ہوئی خبریں اور تیار کی ہوئی رپورٹیں توجہ سے دیکھی جاتی تھیں اور ان کی گونج دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ اس کی رسائی ایوانِ اقتدار تک تھی اور Al – Saud کے کتنے ہی افراد سے اس کے ذاتی اور قریبی مراسم تھے۔

شاہی حلقوں میں اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا، اور اسے وہ خبریں بھی مل جاتی تھیں جو اس کے پیشہ ور ساتھیوں تک پہنچ نہیں پاتی تھیں۔ خبر کے حوالے سے Jamal Khashoggi کا رویہ ہی الگ تھا۔ خبر رسانی کے معاملے میں وہ کسی دبائو، مصلحت اور خوف کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھی اس کا ایک فقرہ دہراتے ہیں کہ میں اپنے ملک و قوم کا وفادار ہوں اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ مزاج کی اسی قطعیت نے اس کے لیے مسائل پیدا کیے اور اس نے شاہ سلمان کی حکومت خصوصاً Crown Prince Mohammad bin Salman کے بعض فیصلوں پر کڑی تنقید کی۔ بس پھر اس کے بعد تو حکومتِ وقت سے اس کے ٹکرائو کا ماحول بنتا چلا گیا۔ یہ محسوس کر کے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے، اس نے جلاوطنی اختیار کی اور امریکا آ گیا۔صحافتی حلقوں میں Jamal Khashoggi کی پہچان صرف اپنے ملک تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ باہر بھی جانا پہچانا جاتا تھا،  اس لیے سعودی عرب سے امریکا منتقل ہونے کے بعد اسے کام کاج کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑا، اور وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے لگا۔ اب اس کی تحریروں میں اور زیادہ کھلا پن آ گیا اور خصوصاً Crown Prince Mohammad bin Salman کڑی نکتہ چینی کا ہدف بننے لگا۔

سعودی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کے پس منظر میں Jamal Khashoggi نے Crown Prince Mohammad bin Salman اقتدار کی واضح لفظوں میں نشان دہی کی۔ یہی نہیں، بلکہ شہزادے کے طاقت و اختیار کے مظاہر کو بھی صاف صاف نمایاں کیا۔ Jamal Khashoggi کی تحریروں نے سعودی حکومت کے بارے میں کئی ایسے سوالات اٹھائے جن کی گونج عالمی ذرائعِ ابلاغ میں سنی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بعض مواقع پر سعودی ایوانِ اقتدار کو وضاحت یا صفائی بھی پیش کرنی پڑی۔ یوں Jamal Khashoggi اس کے لیے ایک مسلسل دردِسر بن گیا۔ Jamal Khashoggi چونکہ اب امریکا میں تھا، اس لیے اسے کسی بھی چیز کی پروا تھی اور نہ ہی کوئی خوف۔ اس دوران میں عالمی صحافتی حلقوں میں اس کی پذیرائی میں تیزی سے اور بہت زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی مانگ بھی بہت بڑھ گئی۔ سیمینارز اور کانفرنسز میں اسے بہت زیادہ بلایا جانے لگا۔  ایسی ہی ایک تقریب میں وہ ترکی گیا ہوا تھا جہاں اس کی ملاقات ہم پیشہ خاتون Hatice Cengiz (Khadija Genghis) سے ہوئی۔   Jamal Khashoggi امریکا میں مالی اور پیشہ ورانہ حالات سے بے شک مطمئن تھا، لیکن بے پناہ تنہائی نے اس کی زندگی میں جو خالی پن پیدا کیا تھا،  وہ سخت تنقید کا باعث تھا۔ یہی وہ شے تھی جس نے Jamal Khashoggi اور Khadija Genghis کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ جلد ہی بات رشتہ ازدواج تک پہنچی۔ اس کے لیے Jamal Khashoggi کو قانونی کارروائی کی ضرورت تھی۔ کاغذات کا حصول استنبول میں سعودی سفارت خانے سے ممکن تھا۔ 2 اکتوبر کو  Jamal Khashoggi اس کام کی انجام دہی کے لیے Khadija Genghis کے ساتھ سفارت خانے پہنچا۔ Khadija Genghis کو باہر انتظار کے لیے کہہ کر وہ سفارت خانے میں داخل ہوا، لیکن پھر کبھی واپس نہیں آیا۔

انتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ شام ہو گئی اور سفارت خانے کے اوقاتِ کار ختم ہو گئے۔ تب Khadija کی بے چینی ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ اس نے عملے کے افراد سے Jamal Khashoggi کے بارے میں دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ کام نمٹا کر جا چکا ہے۔ یہ جواب Khadija کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ بھلا وہ کیسے جا سکتا ہے جبکہ میں یہیں موجود ہوں، اس نے بہ آوازِ بلند کہا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ دوسرے دروازے سے نکل گیا تھا۔ ناممکن، Khadija نے سوچا۔ وہ چونکہ  Khashoggi اور سعودی حکومت کے معاملات سے اس عرصے میں اچھی طرح واقف ہو چکی تھی،  اس لیے اب تشویش اور خوف کی لہریں اس کے اندر دوڑنے لگیں۔ سفارت خانے کے عملے کا وہی ایک جواب تھا۔ Khadija Genghis نے وہاں سے نکلتے ہوئے اپنے شعبے کے دوسرے لوگوں سے رابطہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پہلے سوشل اور پھر الیکٹرونک میڈیا پر پھیلتی چلی گئی کہ Khashoggi استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لاپتا ہے اور بعد ازاں عالمی سطح پر اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی اس کی گمشدگی کا سوال گونجنے لگا۔

سعودی حکومت نے پہلے خاموشی اختیار کی، پھر بڑھتی ہوئی گونج کو دیکھتے ہوئے اس معاملے سے لاتعلقی اور لاعلمی کا اظہار کیا۔ گزرتے دنوں کے ساتھ صرف Khadija Genghis کے خوف میں ہی اضافہ نہیں ہو رہا تھا،  بلکہ بین الاقوامی میڈیا اس سے زیادہ تشویش کا اظہار کرنے لگا۔ معاملے کی تحقیقات کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے مطالبات اور میڈیا میں Khashoggi کی موت کے خدشات کا اظہار اس شدومد سے ہونے لگا کہ خود امریکی صدر کو بھی معاملے میں شامل ہوتے ہوئے بیان دینا پڑا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ سعودی حکومت کے ایما پر ہوا ہے تو اسے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

ادھر سعودی حکومت کا موقف بدستور وہی کہ وہ اس واقعے سے لاتعلق اور لاعلم ہے۔ دو ہفتے سے زائد وقت گزر گیا۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ خدشہ یقین کے ساتھ سامنے آنے لگا کہ Khashoggi کو قتل کر کے اس کی لاش کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔ ترکی کے سراغ رساں ادارے پہلے ہی حرکت میں آ چکے تھے۔ Khashoggi کی تلاش جاری تھی، لیکن کوئی نشان، کوئی سراغ کچھ بھی تو نہیں مل پا رہا تھا۔ ترکی کے تحقیقاتی اداروں نے اس اثنا میں استنبول میں سعودی سفارت خانے کا دو بار دورہ کیا اور اس کی مکمل تلاشی لی گئی،  لیکن ایک گمبھیر بے یقینی اور سکوت کے سوا کہیں کچھ بھی نہیں تھا۔ آخر 17 دن بعد حقیقت سامنے آ گئی اور جس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا، وہ سچ ثابت ہوا۔ Khashoggi اب اس دنیا میں نہیں تھا۔  سعودی حکومت نے اس کے استنبول کے سفارت خانے میں ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی۔ بتایا گیا کہ سفارتی عملے سے اس کی بدمزگی ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچی جس میں اس کی موت واقع ہوئی۔ ظاہر ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کے لیے یہ جواب متوقع تو ضرور تھا، لیکن تسلی بخش ہرگز نہیں۔ اس پر شور برپا ہونا فطری تھا۔ اب دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی ادارے اور افراد اس واقعے پر سخت غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ Khashoggi کی موت کے ذمے دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ قدرے نرم رویہ اختیار کرنے والے ممالک کا بھی تقاضا ہے کہ آزادانہ تحقیقات اور اطمینان بخش اقدامات کیے جائیں۔ ابتدا میں اس مسئلے پر امریکا اور سعودی عرب کے مابین تنائو کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ جیسا کہ سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا، کشیدگی کا اظہار اس سطح پر ہوا کہ امریکی صدر نے خود اس سلسلے میں سعودی عرب کے حکومتی افراد کے خلاف بیان دیا۔ تاہم اب سعودی عرب نے جب Khashoggi کی موت کی تصدیق کی ہے، امریکا اور سعودی عرب کے مابین سفارتی سطح پر اس مسئلے کو سلجھانے کا تاثر ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کے اس اعتراف اور اس کے ساتھ کیے گئے اقدامات،  یعنی نائب انٹیلی جنس سربراہ سمیت پانچ افراد کی برطرفی اور 18 اہلکاروں کی گرفتاری کو امریکا کے حکومتی ذرائع نے سراہا اور خوش آئند قرار دیا ہے اور اعتبار کا اظہار کیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے شفاف تحقیقات اور انصاف کے مطابق اقدامات کیے جائیں گے۔

امریکی حکومت کے اعلامیے سے بات واضح ہو گئی ہے کہ دونوں کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا بحال ہے۔ صرف امریکا پر ہی موقوف نہیں، اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر سعودی حکومت نے متعدد ممالک کو سفارتی ذرائع سے اعتماد میں لیا ہے۔ اس لیے سعودی حکومت کے اعتراف اور اس کے ساتھ حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے کھلے لفظوں میں سراہا ہے۔ ترکی کہ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا ہے، اس کے صدر کا کہنا ہے کہ اس قتل کی تحقیق و تفتیش سے حاصل ہونے والی تمام تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔ فرانس نے سعودی حکومت کے بیان کو ناکافی قرار دیا ہے اور واقعے کی جملہ تفصیلات کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے اور قتل کی مذمت بھی کی ہے،  اور اس نے انھی دنوں سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ داروں کی کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے بھی اس واقعے پر پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے اور سعودی حکومت کی وضاحت کو غیر اطمینان بخش قرار دیا گیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ قاتلوں کو اپنے اقدام کا جواب دینا ہو گا۔ آسٹریلیا نے اس واقعے کی تفصیلات اور اعترافی بیان کے سامنے آنے کے بعد سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اسپین کی طرف سے بھی اس قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

دوسری طرف عرب میڈیا ایسوسی ایشن نام کی تنظیم نے Khashoggi کے قاتلوں اور قتل کے احکامات جاری کرنے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔  جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس قتل کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کروانے کے لیے کہا ہے، تاکہ صحیح رپورٹ سامنے آ سکے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے شروع ہی سے اس خبر پر پوری سنجیدگی سے توجہ دی ہے۔ ظاہر ہے، Khashoggi اس برادری کا ایک فعال، سرگرم، حقیقت پسند، بے باک اور مثالی فرد تھا۔  اس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہوئے موت کو گلے لگانا قبول کیا،  لیکن جھکنے سے انکار کر دیا۔ صحافتی حلقوں میں اسے تادیر ایک باکردار شخص اور روشن حوالے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس کی موت کی تصدیق کی خبروں نے کتنے ہی ملکوں کے ذرائعِ ابلاغ کے حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں تو پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ وہ ایک بند معاشرہ ہے اور بادشاہت کے نظام کی وجہ سے اس کے ذرائعِ ابلاغ پر بھی حکومت کا مکمل اختیار ہے۔ وہاں ایسی کوئی خبر آسانی سے منظرِعام پر نہیں آ سکتی جو بادشاہ، اس کے نظام اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف ہو۔ Khashoggi کے قتل کے معاملے پر الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی خبروں کا اثر ہی تھا کہ جس کا اظہار اقوامِ متحدہ، جرمنی، آسٹریلیا اور اسپین وغیرہ کے ردِعمل میں ہوا ہے۔

فی الحال Saudi King Salman bin Abdulaziz جو کچھ عرصے سے پس منظر میں تھے، ایک بار پھر منظر پر ابھر آئے ہیں۔ Crown Prince جو اس سے پہلے اقتدار کے چہرے کی حیثیت سے فیصلے کرتا اور اقدامات کے احکامات جاری کرتا ہوا سامنے تھا، سرِدست پس منظر میں چلا گیا ہے۔ حکومت نے دو مشیر، پانچ اعلی افسران برطرف کر دیے ہیں۔  واقعے سے وابستہ 18 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے، ان اقدامات کا بنیادی مقاصد یہ تاثر دینا ہے کہ سعودی بادشاہت کا اس واقعے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے  اور وہ ایسے ہر عمل کو ناپسندیدہ سمجھتی اور قابلِ گرفت گردانتی ہے۔ تاہم سعودی حکومت کے اقدامات کے باوجود میڈیا پر ردِعمل کا جو طوفان سامنے آیا ہے،  اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ردِعمل عالمی سطح پر ہے جو پہلے ہی سعودی عرب اور اس کے نظامِ بادشاہت کے لیے اچھے جذبات نہیں رکھتا۔ Khashoggi کے واقعے کے پس منظر میں جس طرح Crown Prince Mohammad Bin Salman کے احکامات اور اقدامات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے،  وہ اس طوفان کو بڑھا دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ سعودی حکومت ایک ایسے بحران سے دوچار ہے، جس کی شدت اور سنگینی کو قابو میں لانے پر اس کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بحران King Salman کی حکومت کے لیے خطرات پیدا کر رہا ہے یا پھر سعودی نظامِ حکومت خود پورا کا پورا اس کی زد میں آئے چلا جا رہا ہے؟ اس ضمن میں مختلف آرا اور اندازے سامنے آ رہے ہیں، تاہم صحیح جواب آنے والا وقت ہی فراہم کرے گا۔  خود یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ یہ آنے والا وقت اور کتنے فاصلے پر ہے؟

No comments.

Leave a Reply