نیتن یاہو کے دورہ مسقط کے بعد کیا ہو گا؟، عمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا

عمان سلطنت قابوس اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو

عمان سلطنت قابوس اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو

نیوز ٹائم

عرب عوام اور میڈیا کے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دور Muscatپر عام سے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خطہ اپنے ماضی کے مقابلے میں اب کتنا تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ سلطنت آف عمان نے خود اس دورے کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیلی سرگرمی اب صرف سیاسی میل ملاقاتوں تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ معیشت اور کھیل ایسے دوسرے شعبوں میں تعلقات بڑھانے کے بارے میں بات چیت کی گئی ہے اور اس کا متعدد عرب ممالک میں اعادہ کیا جا چکا ہے۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسرائیل سے  ممنوعہ تعلق داری کا اختتام ہے؟ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے عرب کلچر کی جڑیں بڑی گہری ہیں اور یہ ابھی تک زندہ ہے۔ البتہ اب ایک تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ اس کی حیثیت عرب حکومتوں کی پالیسیوں کو حرکت دینے والے انجن کی نہیں رہی ہے۔  پہلے عرب حکومتیں اس کو ایک گیند کی طرح ایک دوسرے کی جانب اچھالنے کی عادی تھیں۔

سلطنت آف عمان  نے ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ اس نے چیزوں کے ساتھ واضح اور کھلے پن سے معاملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمان علاقائی تنازعات میں سے کسی کا بھی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے ان (عرب) حکومتوں نے اپنے میڈیا کا رخ عمان کی جانب نہیں کیا ہے حالانکہ نیتن یاہو کے ساتھ وزرا کا ایک وفد بھی Muscat کے دورے پر گیا تھا اور انھوں نے بڑے خوشگوار ماحول میں یہ دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے پس پردہ مناظر ابھی تک نامعلوم ہیں۔  اومان کی اسرائیل اور فلسطین کے تنازع میں ثالثی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس سے بظاہر اس بات کا امکان نہیں کہ مصر اس دیرینہ تنازع میں اپنے ثالثی کے کردار سے دستبردار ہو جائے گا۔ اسی طرح اس کو ایرانی، اسرائیلی تنازع میں بھی کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس کا ایک جواز یہ ہے کہ اومان طرفین کے لیے ایک قابل اعتماد اور دیانتدار ثالث ہے۔

اسرائیل کا ایران کے خلاف اہم کردار:

ایران اس وقت دونوں محاذوں پر اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ شام میں اس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکا کی اس کے خلاف پابندیوں کا دوبارہ نفاذ کیا جا چکا ہے اور صرف ایک ہفتے کے بعد نومبر کے اوائل میں اس کی تیل کی برآمدات اور ڈالر میں رقوم کی ترسیل پر مزید پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ اس دوران میں ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ اسرائیل خطے میں شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد سے اپنا کردار ان علاقوں تک بڑھا رہا ہے  جنھیں وہ اپنی ایک سیکیورٹی بیلٹ قرار دیتا ہے۔ اسرائیل نے شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو نشانہ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے  اور اس نے وہاں ایسا کردار ادا کیا ہے جو عرب ممالک بھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔  اس سے خطے میں فوجی توازن قائم ہو گیا ہے اور اسرائیل علاقائی سلامتی کا ایک داخلی کردار بن گیا ہے  جبکہ اس سے پہلے اس کو ایک ایسا زہریلا سیب قرار دیا جاتا تھا جس کا ذائقہ کوئی بھی چکھنے کو تیار نہیں تھا۔

شام کی جنگ میں اسرائیل کے کودنے کے بعد توازن بھی تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔ ترکی اور روس کے علاوہ ایران کی شام جنگ میں بہت زیادہ مداخلت سے اسرائیل کو بھی اس میں کودنے اور ایک اہم کھلاڑی بننے کا موقع مل گیا۔ بالخصوص اس وقت جب امریکا اور ترکی دونوں ہی شام میں ایرانی رجیم کے توسیع پسندانہ عزائم اور بالادستی کے قیام کے لیے کوششوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے تھے  جبکہ یہ واضح ہو چکا تھا کہ ایران اپنی کٹھ پتلی شتر بے مہار ملیشیائوں کی مدد سے ایک شہنشاہیت قائم کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ جو لوگ اسرائیل کی فلسطینی تنازع کے تناظر میں مخالفت کرتے رہے تھے، وہ بھی اسرائیلی فضائیہ کے شام میں فضائی حملوں کے خیر مقدم پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان حملوں سے شام میں ڈرامائی طور پر صورت حال تبدیل ہو گئی تھی اور خطے میں ایرانی خطرات کو روک لگانے میں بھی مدد ملی تھی۔ اسرائیل نے خود کو خطے کے فوجی کیمپوں کے قلب میں مسلط کیا ہے اور اس کی مداخلت کے بغیر سپاہِ پاسداران انقلاب ایران کی توسیع پسندی کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاسداران انقلاب روسی فوج کی حمایت کے حصول اور سیاسی موجودگی برقرار رکھنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

کیا ایران، اسرائیل کے ساتھ اپنی سوجھ بوجھ کو بڑھا رہا ہے اور درمیانی واسطوں کے ذریعے سے اس کو کوئی یقین دہانی کرانے کی کوشش کر رہا ہے؟ یا پھر یہ اسرائیل ہے جو ایران کو کوئی پیغام دینا چاہتا ہے اور یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ امریکا کے فیصلہ سازی کے عمل اور پالیسیوں پر بہت حد تک اثرا نداز ہوتا ہے۔ چنانچہ ایرانی رجیم کے بائیکاٹ اور معاشی طور پر اس کو اپاہج کرنے کے لیے ان پالیسیوں پر تیزی سے عمل کیا گیا ہے۔ خطے میں یہ اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور یہ اسرائیلی لیڈروں کی مسقط میں سرگرمیوں کو روکیں گی نہیں۔درحقیقت ایک طرح سے یہ شام، یمن اور دوسرے تنازعات پر پیدا ہونے والی سیاسی تقسیم کا آغاز ہے۔

دوسری جانب عمان نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ انہیں اسرائیل بطور ایک مشرق وسطیٰ کی ریاست قابل قبول ہے،  عمان کی جانب سے یہ بیان اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دورہ عمان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے علاقائی امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کو فائدہ ہو گا۔  عمان کے وزیر خارجہ Yusuf bin Alawi  نے بحرین میں عرب کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمان، اسرائیل اور فلسطین کو قریب لانے کیلئے تجاویز دے رہا ہے حالانکہ وہ اس معاملے پر ثالث نہیں ہے۔ عمانی وزیر خارجہ Yusuf bin Alawi  کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ خطے میں ایک اور ریاست بھی موجود ہے اور ہم سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ پوری دنیا اس حقیقت سے باخبر ہے۔ Yusuf bin Alawi  کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ یہ کام فی الوقت بہت آسان ہے اور یہ کوئی پھولوں کی سٹیج ہے لیکن ہماری اولین ترجیح تنازع کو ختم کرنا اور ایک نئی دنیا کی طرف جانا ہے۔ کانفرنس کے موقع پر بحرین کے وزیر خارجہ Khalid Bin Ahmed Al Khalifa نے اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لئے عمان کی کوششوں کی حمایت کی جبکہ سعودی وزیر خارجہ  Adel al-Jubeir کا کہنا تھا کہ ان کا ملک اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ امن عمل ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کنجی ہے۔ واضح رہے کہ مناما میں ہونے والی تین روزہ عرب کانفرنس میں سعودی عرب اور بحرین نے بھی شرکت کی جبکہ ان کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر دفاع جم میٹس کے علاوہ ان کے اطالوی اور جرمن ہم منصب بھی شریک تھے جبکہ اردن کےKing  عبد اللہ دوئم نے بحیرہ مردار میں سیلاب کے باعث 21 افراد کی ہلاکت کے بعد کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ آخری مرحلے میں منسوخ کر دیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply