نواز شریف، مریم نواز خاموش کیوں؟، نواز شریف کا آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار

نواز شریف، مریم نواز   اور مولانا فضل الرحمان

نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان

لاہور ۔۔۔ نیوز ٹائم

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جان بوجھ کر فیصلہ کیا ہے کہ وہ اور ان کی بیٹی مریم نواز خود کو نمایاں کرنے سے گریز کریں گے اور خاموش رہیں گے تاہم ان کے ذہن میں مستقبل کے حوالے سے انہیں، ان کی پارٹی اور خاندان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی موجود ہے جس میں این آر او شامل نہیں۔ نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہو رہا، اور نہ ہی شریف فیملی این آر او چاہتی ہے،  جبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے کسی بھی این آر او کے خلاف خبردار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میں اتنی جرت ہونی چاہیے کہ اس شخص کا نام لیں جس نے این آر او کے حوالے سے ان سے، ان کی پارٹی یا کسی اور حلقے سے رابطہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کو اندرنی اور بیرونی دبائو کا سامنا ہے اور وقت بتائے گا کہ کون این آر او چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ آنے والے دنوں میں مزید کیسوں کے ذریعے مزید دبائو ڈالے گی لیکن اطمینان رکھیں، شریف فیملی کہیں نہیں جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر نواز شریف کی حکمت عملی یہ ہے کہ دیکھو اور انتظار کرو اور حکومت کو مزید غلطیاں کرنے دو۔

 یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ نہ تو آصف زرداری کے زیادہ قریب جایا جائے اور نہ تحریک انصاف یا عمران خان کے زیادہ خلاف۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن جو دونوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے دونوں سے درخواست کی کہ وہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کریں اور آپس میں بھی ون آن ون ملاقات کریں۔ مولانا فضل الرحمن دونوں کی غیر موجودگی میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر تذبذب کا شکار ہیں۔ اگرچہ پیغام کا اصل متن تاحال معلوم نہیں لیکن ذرائع کے مطابق شریف نے زرداری کو بتایا کہ ان کے خلاف کوئی بھی کیس میں نے نہیں بنایا اور جو کچھ ن لیگ کے پچھلے پانچ سالہ دورہ حکومت میں کراچی اور سندھ میں ہوا اس کی ہدایت انہوں نے نہیں دی۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پیغام میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے کردار کے حوالے سے بھی ذکر تھا اور بعض اوقات میاں نواز شریف نے چوہدری نثار سے اختلاف کیا تھا۔ بعض اقدامات جن میں ڈاکٹر عاصم کے خلاف ایکشن شامل ہیں، کے حوالے سے میاں صاحب اور چوہدری نثار ایک صفحے پر نہ تھے۔

دوسری جانب زرداری نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ نواز شریف نے چوہدری نثار یا سیکیورٹی ایجنسیز سے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر کوئی وضاحت طلب نہ کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو اپنی پارٹی رہنمائوں کی جانب سے دبائو کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت پر پارلیمنٹ کے اندر دبائو ڈالا جائے۔ لیکن مولانا فضل الرحمن زیادہ جارحانہ موڈ میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس ایک وسیع تر اتحاد میں تبدیل ہو جائے،  اور یہ وہ تجویز ہے جسے نواز شریف پہلے ہی مسترد کر چکے۔ نواز شریف کو یقین ہے کہ ان کی پارٹی صحیح ہے اور حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے انہیں یہ حوصلہ بخشا ہے کہ بغیر کسی جارحانہ روش اختیار کیے وہ تحریک انصاف اور عمران خان کو چیلنج کر سکتے ہیں اور انہیں مزید غلطیاں کرنے دیں۔ ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی خاموشی بھی حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اطمینان رہے کہ ہم کہیں نہیں جا رہے اور وقت بتائے گا کہ کون این آر او مانگتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد سے ان کی بیٹی نے تاحال تحریک انصاف یا عمران خان کے خلاف جارحیت نہیں دکھائی اور ٹوئٹ یا میڈیا سے گفتگو کے ذریعے کسی بھی قسم کا بیان دینے سے گریز کیا ہے۔ خود کو نمایاں ہونے سے گریز کرتے ہوئے میاں صاحب پارٹی اجلاس منعقد کر رہے ہیں اور آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے علاوہ دیگر سیاسی رہنمائوں سے مل رہے ہیں جبکہ ان کی بیٹی نے خود کو گھر تک محدود کر لیا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول نے بیگم کلثوم نواز کی تعزیت کیلئے رائیونڈ کا دورہ کیا تھا  تاہم اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی کے حوالے سے کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ ن لیگ کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ مریم کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں اور میاں صاحب نے خود فیصلہ کیا ہے کہ وہ مناسب وقت پر اپنا کردار ادا کریں گی،  جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر انہیں عدالت سے ریلیف ملتا ہے تو وہ بہتر پوزیشن میں ہوں گی۔

میاں صاحب اپنی پارٹی کی خامیوں اور خوبیوں سے خوب آگاہ ہیں اور موجودہ صورتحال میں کچھ ایسا کرنا نہیں چاہتے جس سے عمران خان کو اپوزیشن کے خلاف کوئی بہانہ ملے۔  بظاہر ایسا بھی لگتا ہے کہ ن لیگ اور نواز شریف کو یقین ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کرے گی  کیونکہ وہ بعض رہنمائوں کی نااہلی اور بعض پر ایف آئی اے، نیب اور انٹیلی جنس بیورو سے دبائو کے باوجود پارٹی میں کوئی بڑی دراڑ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔  حکومت کو خطرہ ہے کہ اگر جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو ن لیگ بطور پارٹی مضبوط بن کر ابھر سکتی ہے کیونکہ مقامی حکومتوں کی سطح پر اس کی جڑیں مضبوط ہیں۔

تاہم علیم خان، چوہدری سرور اور چوہدری پرویز الہی کو یقین ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ وہ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔  تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پنجاب میں کی جانے والے بعض اقدامات بھی ن لیگ کے فائدے میں چلی گئے جس میں وزیر اعلی کا انتخاب شامل ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب سے تحریک انصاف میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے اور خود پارٹی رہنمائوں نے بھی اعتراف کیا کہ امیدواروں کے چنائو میں غلطیوں کے باعث وہ ضمنی انتخاب میں ناکام ہوئے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت اگر چاہے تو ن لیگ میں گروپ پیدا کر سکتی ہے،  اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ ان کے بعض رہنما این آر او چاہتے ہیں، تاہم ن لیگ کا موقف ہے کہ وفاقی وزیر کا بیان اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ فواد چوہدری کو اپوزیشن کو بھڑکانے میں عبور حاصل ہے اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں  کیونکہ دونوں طرف سے زبانی کلامی حملے دیکھنے کو ملے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار فی الحال بیک سیٹ پر ہیں جبکہ گورنر پنجاب چوہدری سرور، اسپیکر چوہدری پرویز الہی اور سینئر وزیر علیم خان فرنٹ سیٹ پر ہیں۔

عمران خان کے پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کے وعدے کے باوجود سابق آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی نے آئی جی پنجاب کے اچانک تبادلے کے خلاف استعفی دے دیا۔ نئے آئی جی پنجاب کو گورنر پنجاب کا قریبی مانا جاتا ہے جو اس وقت صوبے میں طاقتور شخصیت ہیں۔ اپنے ساتھیوں کے دبائو کے پیش نظر عمران خان نے ناصر درانی کا تاحال کوئی متبادل نہیں دیا ہے  اور پولیس ریفارمز ٹاسک فورس غیر فعال ہو کر رہ گئی ہے۔ لہذا شریف برادران کی پالیسی ہے کہ دیکھو اور انتظار کرو۔

دوسری جانب جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے جاتی امرا میں ملاقات کے دوران اپنا فیصلہ سنایا  تاہم یہ بھی کہا کہ لیگی وفد کل جماعتی کانفرنس میں بھجوایا جائے گا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کے حوالے سے بھی مشاورت کی گئی۔

ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز، سینیٹر پرویز رشید اور سابق وفاقی وزیر رانا تنویر حسین بھی موجود تھے۔ ن لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان تقریباً 2 گھنٹے سے زائد ہونے والی ملاقات کا یک نکاتی ایجنڈا آل پارٹیز کانفرنس تھا۔ فضل الرحمن نے نواز شریف کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن سابق وزیر اعظم نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے معذرت کی۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ جب تک آل پارٹیز کانفرنس کا ایجنڈا واضح نہیں ہو جاتا اس میں شرکت کرنے سے قاصر ہوں۔

فضل الرحمن نے نواز شریف کو آل پارٹیز کانفرنس کے حوالے سے دیگر جماعتوں سے ہونے والے رابطوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ لیگی ذرائع کے مطابق دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقات کے دوران حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا  جبکہ ملاقات میں حکومت کی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ عوام کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں اور حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔  ملاقات کے دوران حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔

نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہا کہ اسرائیلی طیارے نے پاکستان میں 10 گھنٹے گزارے عمان کی حکومت نے آدھی تصدیق کر دی ہے، ہم سول ایوی ایشن کی تردید کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت جائز نہیں بلکہ جعلی مینڈیٹ کی پیداوار ہے، حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے،  یہ خود ٹھگ ہیں اور دھوکے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

No comments.

Leave a Reply