راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا موازنہ اخوان المسلمون سے

بھارتی کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی

بھارتی کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی

نیو دہلی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارتی کانگریس پارٹی کے صدر Rahul Gandhنے کچھ عرصہ قبل اپنے دورہ یورپ میں International Institute of Strategic Studies ، لندن میں بھارتی ہندو انتہا پسند تنظیم Rashtriya Swayamsevak Sangh (آر ایس ایس) کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا  آر ایس ایس ہندستان کا نیچر بدلنا چاہتی ہے۔ وہ ملک پر ایک مخصوص نظریہ تھوپنے کی خواہاں ہے۔ وہ نظریہ ایسا ہی ہے جیسا عرب دنیا میں Muslim brotherhood  کا نظریہ ہے۔ کانگریسی صدر کے اس بیان سے Muslim brotherhood  کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کے ازالے کے لیے درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں۔

Rashtriya Swayamsevak Sangh (آر ایس ایس) نامی تنظیم ہندو احیا پرستی کی علم بردار ہے۔ اس کی تاسیس 1925ء میں Hedgewar نے کی تھی۔ اس کے دوسرے Sadashiv Golwalkar تھے۔ انھوں نے 1940ء سے 1973ء تک اس کی سربراہی کی اور اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی فکری بنیادیں استوار کیں۔آر ایس ایس کے نزدیک ہندستان کی اکثریت ہندوئوں کی ہے، اس لیے اسے ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ جو لوگ ہندو قومی ریاست کے تصور سے خود کو الگ رکھتے ہیں، وہ ملک دشمن ہیں۔ آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کر لینی چاہیے اور خود کو اکثریتی فرقے کے کلچر میں ضم کر دینا چاہیے۔آر ایس ایس، Hindu Rashtra (ہندو قوم) کی تعمیر Manusmriti (منو قوانین) کی بنیاد پر کرنا چاہتی ہے،  جس کے تحت انسانی معاشرے کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تصور آج خود ہندوں کے بڑے طبقے کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔  اس لیے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اس انتہا پسند تنظیم نے اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد مسلم دشمنی پر رکھی ہے۔ اس کے نزدیک مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں، جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے اور لالچ اور جبر کے ذریعے یہاں کی آبادی کے ایک حصے کو مسلمان بنایا ہے۔ اس لیے ان کی شدھی اور گھر واپسی کرانی چاہیے۔ وہ کہتی ہے کہ: مسلمانوں کے لیے یہاں دو ہی راستے ہیں کہ یا تو خود کو ہندو تہذیب میں ضم کر لیں، یا پھر اکثریتی ہندو طبقے کے رحم و کرم پر زندہ رہیں۔

اب اگر کوئی شخص آر ایس ایس کا موازنہ Muslim brotherhood  سے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ Muslim brotherhood  کے بارے میں کچھ نہیں جانتا  اور Muslim brotherhood  کے افکار و نظریات، اس کی سرگرمیوں اور تاریخ سے اسے ادنی سی بھی واقفیت نہیں ہے۔  Muslim brotherhood  کی تاسیس 1928ء میں مصر میں ہوئی۔ اس زمانے میں عرب قومیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔  فرعونی تہذیب کے احیا کی باتیں ہو رہی تھیں، آزادی نسواں کے نام پر اباحیت و عریانیت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ اس فضا میں Imam Hassan al-Banna نے اصلاحِ معاشرہ کی جدوجہد کی اور مغربی تہذیب کے بجاے اسلامی تہذیب کی بالادستی کی دعوت دی۔

Muslim brotherhood کی تحریک 1939ء تک خاموش اصلاحی جدوجہد تک محدود رہی اور اس کی دعوت کو خوب فروغ ہوا۔ لیکن دوسرے مرحلے میں جب انھوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تب اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے وہ برطانوی سامراج کی کٹھ پتلی مصری حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگی۔ 1948ء میں اخوان نے جنگِ فلسطین میں حصہ لیا اور خوب دادِ شجاعت دی  تو عالمی سطح پر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا۔ انگریزوں نے ان کی سرکوبی کے لیے مصری حکومت پر دبائو ڈالا۔ تنظیم پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کے ارکان کو داخلِ زنداں کر دیا گیا۔ 12فروری 1949ء کو Imam Hassan al-Banna کو قاہرہ میں شہید کر دیا گیا۔پھر مختلف مواقع پر Muslim brotherhood کو خوب مشقِ ستم بنایا گیا۔ اب بھی چند سال سے وہ سخت آزمایش میں مبتلا ہیں۔

Muslim brotherhood کو آر ایس ایس جیسی تنگ نظر، خونی فرقہ پرست اور دہشت گرد تنظیم سے تشبیہ دینا بڑی نادانی کی بات ہے۔ Muslim brotherhood نے قومیت کے مروجہ نظریے کے برعکس عالمی اخوت کا تصور پیش کیا۔ انھوں نے حکومتوں سے اصلاح کا مطالبہ کیا اور اسلامی نظام قائم کرنے کی بات کی، لیکن ملک کے دیگر مذہبی یا اقلیتی گروہوں کے بارے میں ہرگز منافرت نہیں پھیلائی۔ افسوس کہ Muslim brotherhood کے بارے میں عالمی سطح پر من گھڑت غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور بے جا طور پر اسے ایک دہشت گرد تنظیم کہا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی برابر جاری ہے۔ Muslim brotherhood نے کبھی طاقت ، جبر اور تشدد کا راستہ نہیں اختیار کیا اور زیرِ زمین سرگرمیاں نہیں انجام دیں،  بلکہ ہمیشہ پر امن جدوجہد کی اور کھلے عام اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ جو تنظیم خود ریاستی اور گروہی دہشت گردی کا شکار ہوئی ہو، جس کے لاکھوں ارکان و وابستگان کو جیلوں میں ٹھونس کر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہو، اور وقفوں وقفوں سے جس کی لیڈرشپ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہو، خود اس پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جائے۔

No comments.

Leave a Reply