کشمیریوں کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا

کشمیر کا مسئلہ بڑا سادہ ہے جسے پیچیدہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے

کشمیر کا مسئلہ بڑا سادہ ہے جسے پیچیدہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے

نیوز ٹائم

ہم Kartarpur کا ڈھول بجانے میں مصروف تھے کہ بھارتی فوج نے نہتے، بے گناہ اور معصوم نوجوانوں کے سینے چھلنی کر کے ہماری خیر سگالی کا جواب سنگدل طریقے سے دیا۔کئی برس سے Jhelum اور Chenab کے پانی کا رنگ سرخی مائل ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں مسخ شدہ گلی سڑی لاشیں تیرتی تحفے میں بھیجی جاتی ہیں۔ اب Diamer-Bhasha Dam بنے گا تو بھارتی فوج کو کشمیریوں کی لاشیں ہمارے کھیتوں تک پہنچانے کا ایک اور ذریعہ مل جائے گا۔ ہم پائی پائی اکٹھی کر کے Diamer-Bhasha Dam بنائیں گے اور بھارتی فوج اپنے ستم کا دائرہ پھیلا دے گی۔ وہ Diamer-Bhasha Dam کے علاقے کو کشمیر کا حصہ کہتی ہے۔اور خونیں کھیل وادی سے نکال کر Diamer-Bhasha Dam تک پھیلا دے گی۔کشمیریوں کا خون گرتا ہے۔ ہمارے ہاں سے بھارت کی مذمت کے لئے بیانات جاری ہوتے ہیں۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا فریضہ پورا ہو گیا اور ہم لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔

عمران خان وزیر اعظم بنے تو بڑی امید پیدا ہوئی کہ انہوں نے بھارت کو پیغام دیا کہ وہ دوستی کا ایک قدم بڑھائے گا، ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ عمران خان نے کشمیریوں کے لئے درد دل کاا ظہار کیا۔ ان کی آئے روز شہادتوں پر سخت الفاظ میں احتجاج کیا۔ بھارتی جارح فوج کی بربریت کی مذمت کی مگر عمران خان کو مثبت جواب نہیں ملا۔ جواب میں آئے روز گولیوں کی آوازیں اور کشمیریوں کی لاشیں تحفہ کے طور پر دی جاتی ہیں۔ کشمیری لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں ہر روز کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبایل سروس بند کر دی جاتی ہے۔ اس عالم میں کشمیری مردو زن گھروں سے نکلتے ہیں اور لے کے رہیں گے آزادی کا وہ نغمہ گاتے ہیں جو Shaheed Burhan Wani نے آزادی کے لیے نغمہ گاتے تھے۔کشمیریوں کو اب کسی بیرونی مشورے کی ضرورت نہیں۔ انہیں اسلحے کی ضرورت بھی نہیں۔ وہ تو خالی ہاتھ بھارتی فوج کے سامنے احتجاج کرتے ہیں، گریبان کھول دیتے ہیں اور سفاک بھارتی فوج ان کے دلوں کو چھید کر رکھ دیتی ہے۔ دیوار برلن کے انہدام اور مشرقی یورپ کے ملکوں کی آزادی کے بعد کشمیریوں کے سینوں میں بھی آزادی کا جذبہ بیدار ہوا۔ یہ جذبہ ایک آگ ہے جو سلگ رہا ہے اور آتش فشاں بن چکا ہے۔ بھارت ان جذبوں کو کچلنے کے لئے فوج میں اضافہ کئے چلے جاتا ہے مگر آزادی کا جذبہ سرد ہو تو کیسے ہو۔ آزادی حاصل کئے بنا کیسے سرد ہو۔، کیا دنیا کے باقی ملکوں کو استعمار سے آزادی نہیں ملی، کیا مشرقی یورپ کے پیٹ سے درجنوں آزاد ملکوں نے جنم نہیں لیا۔ کیا سوویت، روس پارہ پارہ نہیں ہوا۔ اور اس کا جغرافیہ تبدیل نہیں ہوا۔ کیا پاکستان کے پیٹ کو کاٹ کر آزاد بنگلہ دیش نہیں بنوایا گیا۔ کیا اب آزاد بلوچستان اور سندھو دیش کی تحریکوں کو ہوا نہیں دی جا رہی تو پھر کشمیریوں نے آزادی مانگ لی تو کونسا بڑا جرم ہو گیا کہ انہیں سیدھی گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کشمیر کی عفت آب بیٹیوں کی عصمت کو بھارتی فوج روندتی ہے۔ دنیا کے نزدیک یہ سب جرائم ہیں۔ ناقابل معافی جرائم مگر بھارت کو سو گناہ معاف ہیں۔ اس سے کوئی تعرض نہیں کرتا۔ اسے اقوام متحدہ بھی نہیں ٹوکتی کہ تم عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کی دھجیاں کیوں بکھیر رہے ہو۔

حقیقت بہر حال یہ ہے کہ کشمیر کو استصواب کے ذریعے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا پاکستان میں شامل ہونے کا خواہاں ہے۔ اس ضمن میں سلامتی کونسل کئی قراردادیں منظور کر چکی ہے۔ اور بھارت ان پر عملدرآمد کا وعدہ کر چکا ہے۔ مگر کہہ کر مکرنا بھارت کا خاصہ ہے۔ وہ مان کر بھی نہیں مانتا اور استصواب کے لئے تیار نہیں ہوتا بلکہ اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لئے فوجی طاقت میں اضافہ کئے چلے جا رہا ہے۔ اس فوج کے ہاتھ کھلے ہیں، وہ کسی عالمی، انسانی پابندی اور ضابطے کو نہیں مانتی۔

کشمیر کا مسئلہ بڑا سادہ ہے جسے پیچیدہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بر صغیر سے انگریز استعمار رخصت ہوا، بھارت اور پاکستان کی دو آزاد ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو اصول یہ تھا کہ ان سے ملحقہ ریاستیں آبادی کی اکثریت کے اعتبار سے متعلقہ ملک کا حصہ ہوں گی۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ پاکستان سے ملحق تھی۔ اسے اصولی طور پر اور پرامن طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا مگر انگریز اور ہندو نے ایک سازش کی کہ مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی دو اضلاع فیروز پور اور گورداس پور بھارت کو دے دیے گئے جس سے بھارت کو کشمیر میں فوج داخل کرنے کے لئے زمینی راستہ مل گیا اور اس نے کشمیریوں کو غلام بنانے کے لئے اپنی افواج کو استعمال کیا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ Quaid-e-Azam نے اپنے آرمی چیف کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کو بھارتی جارحیت سے آزاد کرائے تو پاک فوج کے آرمی چیف نے بانی پاکستان کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، کشمیر، بھارت کے شکنجے میں ہے۔ آزاد قبائل سے جو ہو سکا، ایک جہاد منظم کیا اور کشمیر کا تھوڑا سا حصہ آزاد کرا لیا۔ اس کے بعد پنڈت نہرو کی درخواست پر سلامتی کونسل نے جنگ بندی کرا دی اور حتمی فیصلے کو استصواب سے مشروط کر دیا۔ یہ استصواب آج تک نہیں ہو سکا۔

دنیا مانتی ہے کہ کشمیر ایک فلیش پوائنٹ ہے۔ جب سے بھارت اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں تو کشمیر کا تنازعہ بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ دنیا کو خطرہ ہے کہ ا س مسئلے پر جنگ چھڑی تو وہ ایٹمی تباہی کا باعث بن جائے گی۔ دنیا اس خطرے کو ٹالنے کے لئے کشمیر کا تنازعہ حل کروانے کے بجائے پاکستان کی ایٹمی طاقت کو ہتھیانا چاہتی ہے۔ اسرائیل دو ناکام کوششیں کر چکا ہے۔ اور امریکی خصوصی فورس بھی دبئی اترنے کے بعد بے نیل و مرام واپس جانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی ایٹمی طاقت کی حفاظت کرے یا کشمیریوں کی آزادی کے لئے کوئی راستہ نکالے۔ اس کا فیصلہ پاکستان کی حکومت نے کرنا ہے۔ ریاستی اداروں نے کرانا ہے۔ عوام نے کرنا ہوتا تو کب کا یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ دیوار برلن کا انہدام عوامی انقلاب کا ہی ایک نتیجہ تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب بھی عوامی جدوجہد کا حاصل تھا۔ عالم عرب میں نئی بہار کے جھونکے بھی عوامی طاقت کے زور پر طوفان کی شکل اختیار کر گئے  جس میں لیبیا، مصر اور سوڈان کی تقدیر بدلنے کے فیصلے ہوئے۔ مگر قسمت کہ پاکستان میں عوام کو بھی کشمیریوں کے حق میں جدوجہد سے یہ کہہ کر روک دیا گیا ہے کہ ان کی حرکت کو دہشت گردی کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی ریاست ہے۔ اس کے ادارے عالمی ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل تلاش کرنے کے خواہاں ہیں۔ ساری دنیا کے جھگڑے دوطرفہ مذاکرات سے ہی حل ہوتے ہیں مگر بھارت وہ ڈھیٹ ملک ہے جو مذاکرات کی میز پر بھی آنے کو تیار نہیں۔ یہ ہے وہ مخمصہ جو کشمیریوں کی جان لے رہا ہے۔ افسوس، کشمیریوں کا خون اس قدر سستا کیوں ہو گیا۔

No comments.

Leave a Reply