جرمن حکام کے قومی ہم آہنگی کیلئے مسلمان شہریوں سے رابطے

جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ سیہفر نے جرمن اسلام کانفرنس کا افتتاح کیا

جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ سیہفر نے جرمن اسلام کانفرنس کا افتتاح کیا

برلن ۔۔۔ نیوز ٹائم    

جرمنی کی حکومت ملک میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے 45 لاکھ مسلمانوں شہریوں سے مختلف برادریوں کے رہنمائوں، ماہرین اور امام مساجد سے رابطے کر رہی ہے۔ خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے وزیر داخلہ Horst Seehofer نے جرمن اسلام کانفرنس کا افتتاح کیا اور اپنے خطاب میں کہا کہ جرمنی کے مسلمانوں سے مذاکرات سے ان کے عقائد، اقدار اور روایات کے حوالے سے معاملات طے پانے اور جرمن معاشرے کی جڑوں میں پیوست ثقافت اور اقدار سے انہیں کیسے جوڑا جا سکتا ہے، اس بارے میں آسانی ہو گی۔Horst Seehofer کا کہنا تھا کہ اماموں کو جرمنی میں تربیت دینے اور مساجد کو بیرونی امداد سے روکنا دو اہم مقاصد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں 2015 ء کے بعد آنے والے 10 لاکھ سے زائد مہاجرین کے انضمام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، انہوں نے مہاجرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمنی کے اقدار اور زبان سیکھ کر اپنا حصہ ڈالیں۔

یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں چانسلر انجیلا مرکل کی جانب سے اپنی چوتھی مدت کے لیے منصب سنبھالتے ہی جرمن وزیر داخلہ نے اسلام کو جرمنی کا حصہ قرار دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ملک میں ایک سیاسی طوفان کھڑا ہوا تھا۔ جرمنی کے سب سے بڑے اخبار بلڈ ڈیلی کو ایک انٹرویو کے دوران سوال پر انہوں نے جرمنی میں آنے والے مسلمان مہاجرین اور مسلمانوں کی کثیر تعداد کے باوجود انہیں تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے، عیسائیت نے اتوار کو آرام کا دن دینے سمیت چرچ سے چھٹیاں، ایسٹر، کرسمس اور دیگر تہواروں سے جرمنی کو ایک شکل دی ہے۔ جرمن وزیر داخلہ نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ جو مسلمان ہمارے درمیان رہتے ہیں وہ فطری طور پر جرمنی کا حصہ ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غلط باتوں کے دفاع میں اپنی ثقافت اور روایات کو قربان کریں۔ انجیلا مرکل سمیت اہم شخصیات نے فوری طور پر اس بیان کو رد کر دیا تھا اور انہوں نے واضح کیا تھا کہ جرمنی میں عیسائیوں کی گہری بنیادوں کے باوجود اب 40 لاکھ سے زائد مسلمان جرمنی میں اپنے گھر بنا چکے ہیں۔ جرمن چانسلر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ مسلمان جرمنی کا حصہ ہیں، ان کے ساتھ ان کا دین اسلام بھی جرمنی کا اسی طرح حصہ ہے۔

خیال رہے کہ جرمنی میں آباد مسلمانوں کی اکثریت کی جڑیں ترکی سے ملتی ہیں جنہیں 1960ء اور 70 ء کی دہائی میں مہمان مزدور کے نام پر دعوت دی گئی تھی۔ بعد ازاں 2015 ء میں جب جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے عراق، شام اور افغانستان میں جنگ سے متاثر ہو کر بے گھر ہونے والے 10 لاکھ سے زائد پناہ کے متلاشی مسلمانوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں جس کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔

No comments.

Leave a Reply