پی ٹی آئی حکومت کے 100دن، حکومتی وعدے پورے نہ اپوزیشن متحد ہو سکی

پی ٹی آئی حکومت  کے 100دن، حکومتی وعدے پورے نہ اپوزیشن متحد ہو سکی

پی ٹی آئی حکومت کے 100دن، حکومتی وعدے پورے نہ اپوزیشن متحد ہو سکی

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

نئے پاکستان کے نئے ایوان میں پہلے 100 روز کے دوران مسلم لیگ ن اور پی پی پی مشترکہ اپوزیشن کا روپ نہ دھار سکی تو دوسری طرف حکومت کے وعدے بھی پورے نہ ہوسکے، ایوان 28 اجلاس میں وزیر اعظم صرف 7 مرتبہ میں ایوان آئے، فنانس بل کے سوا قانون سازی نہ ہوئی، حکومت نے مختصر وقت میں کئی اہم بڑے فیصلے کیے، 5 برس میں 50 لاکھ مکان بنانے کی بھی خوشخبری سنائی۔ ملک کے آئین نے جمہوریت اور جمہوری پارلیمانی نظام کے جو پیمانے مقرر کئے ہیں ان کی روشنی میں سیاسی حکومتوں کی کارکردگی مایوس کن سیاسی منظر نامہ پیش کرتی رہی۔  جمہوریت کا سبق تو یہ ہے کہ پارلیمان کو فیصلہ سازی اور قانون سازی کے لئے اتنا موثر اور متحرک بنا دیا جائے کہ کوئی بھی شہری ریاست کے مروجہ قوانین سے بالا تر نہ ہو۔  سب کے ساتھ انصاف کیا جائے اور کسی کو بھی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کی شکایت نہ ہو، قومی وسائل میں صوبوں کو آبادی کی بنیاد پر منصفانہ حصہ دیا جائے۔  عوام کی بنیادی ضرورتیں، انہیں سائبان اور خوراک فراہم کرنا ریاست اور حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ پارلیمنٹ کو اجتماعی دانش کا ادارہ قرار دیا جاتا ہے جہاں منتخب نمائندے قوم کی آدرشوں کی بار آوری کے لئے تعصبات اور امتیازات سے بالاتر ہو کر فیصلے کرتے ہیں، اگست 2018 ء میں برسراقتدار آنے والی پاکستان تحریک انصاف کو 100 روز کے دوران کئی سیاسی نشیب و فراز کا سامنا رہا۔

نئے پاکستان کے نئے ایوان میں پہلے 100 روز کے دوران مسلم لیگ ن اور پی پی پی مشترکہ اپوزیشن کا روپ نہ دھار سکی تو دوسری طرف حکومت کے وعدے بھی پورے نہ ہو سکے، وزیر اعظم ہر ہفتے ایک گھنٹہ ایوان میں آ کر ارکان کے سوالوں کے جواب دیا کریں گے۔ 100 دنوں کے دوران قومی اسمبلی کے 5 ورکنگ اجلاس ہوئے جو 28 روز جاری رہے۔ سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ایوان کی 28 سٹنگز میں وزیر اعظم نے صرف 7 مرتبہ ایوان میں آئے، اس عرصے میں قومی اسمبلی اپنی کارروائی سے ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور عوامی مسائل کے حل میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہ کر سکی۔  حکومت اپوزیشن سیاسی کش مکش سے ہنوز قومی اسمبلی کی 32 قائمہ کمیٹیاں قائم نہ ہو سکیں جس وجہ سے ایوان اس عرصے میں فنانس بل کے سوا کوئی قانون سازی نہ کر سکا  حالانکہ سینٹ سے تمباکو نوشی کی ممانعت کے ضمن میں بل منظور ہو کر قومی اسمبلی میں پیش ہو چکا۔

اگست 2018 ء سے نومبر تک قومی اسمبلی نے 10 قراردادوں کی منظوری دی جن کی حیثیت سفارشات سے زیادہ نہیں۔  سیاسی محاذ پر احتساب کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کے پرعزم بیانات کے جواب میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا موقف تھا کہ ووٹ کی چوری کا حساب دینا ہو گا۔  وزیر اعظم کی طرف سے احتجاجی تحریک کے لئے کنٹینر دینے کی بار بار پیشکش کے باوجود اپوزیشن نے حکومت کے خلاف ایجیٹیشن کی سیاست سے گریز کیا۔ حالیہ سیاست میں ایک بڑی پیشرفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اگست 2014 ء میں 126 دنوں کے دھرنے کی سیاست کا آغاز کرنے والی  پی ٹی آئی نے اپنے عہد اقتدار کے پہلے 100 دنوں میں 25 نومبر کو مذہبی عناصر کے دھرنے کو کامیاب حکمت عملی سے ناکام بنا دیا۔  نیا پاکستان بنانے کے عہد کے ساتھ عمران حکومت نے سادگی کے فروغ پر توجہ دی  آبی طور پر محفوظ پاکستان کی تشکیل کے لئے وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کی کوششوں سے پہلے 100 روز میں 7 ارب سے زائد فنڈ تو جمع ہو گیا  جبکہ بھاشا ڈیم کے لئے 1400 ارب روپے درکار ہوں گے آبی سیناریو کا منظرنامہ دل گداز اور اعصاب شکن ہے۔  مگر زندہ قوموں کے لئے آزمائشیں عمل کے نئے در کھولتی ہیں۔  حکومت نے مختصر وقت میں کئی اہم اور بڑے فیصلے کئے پاکستان میں غیر جانبدار اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ افراد گھر ایسی بنیادی سہولت ہے محروم ہیں۔ حکومتی عدم توجہی کے باعث ہر سال بے گھر افراد کی تعداد میں 7 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت نے 5 برس میں 50 لاکھ مکان بنانے خوشخبری دی ہے پہلے سے بدحال معیشت اس بڑے منصوبے کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟ یہ واضح نہیں حالیہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے دونوں ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جسے موجودہ پارلیمنٹ کا واحد کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو اس امرکا اظہار ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔  تحقیقاتی کمیٹی میں اپوزیشن کو برابر نمائندگی دینے سے یہ تاثر بھی زائل ہوا کہ حکومت تحقیقات پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔  ملکی سیاست کا منظرنامہ اس لحاظ سے خوش کن رہا کہ پہلی بار سول حکومت، عدلیہ اور دیگر قومی ادارے صحیح معنوں میں ایک صفحے پر ہیں اور امور مملکت کی انجام دہی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس کی ایک واضح مثال اکتوبر 2018 ء میں دیکھنے میں آئی جب وزیر اعظم نے آئین کی بالادستی اور جمہوری استحکام کی بات کی تو چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک تقریب میں دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔  اسی طرح عسکری قیادت کی طرف سے بھی کہا گیا کہ جمہوریت آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ موجودہ علاقائی اور عالمی تناظر میں قومی اداروں کا ایک صفحے پر ہونا پاکستان کے بہتر، جمہوری اور تابناک مستقبل کے لئے خوش آئند ہے۔

ہماری سیاست کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان معاشی نشیب و فراز اور زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے اپنے اقتصادی اور معاشی روڈ میپ کا اعلان تو کر دیتے ہیں لیکن انہیں عملی شکل دینے سے قاصر رہتے ہیں جبکہ عوام توقع رکھتے ہیں کہ جن وعدوں اور نعروں پر پی ٹی آئی حکومت اقتدار میں آئی ان کو پورا کرے اور کوئی یوٹرن نہیں ہونا چاہیے بلکہ استقامت کا مظاہرہ کرے تاکہ لوگوں کے اعتماد اور اعتبار کی ساکھ مجروح نہ ہو۔

No comments.

Leave a Reply