بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سازش یا خوف

نیپال کے نئے وزیر خارجہ پردیپ کمار جوالی،  چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی

نیپال کے نئے وزیر خارجہ پردیپ کمار جوالی، چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی

نیوز ٹائم

بھارت کے ہمسایہ ملک نیپال کے نئے وزیر خارجہ Pradeep Kumar Gyawali نے بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ Wang Yi سے ملاقات کی۔  اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان ریل رابطوں کو بہتر بنانے سمیت کئی اہم مسائل پر بات ہوئی۔ گزشتہ سال نیپال میں اس سلسلے میں تمام فیصلے کیے جا چکے تھے  لیکن Khadga Prasad Oli عبوری وزیر اعظم تھے اس لیے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا، اب نیپال میں اقتدار تبدیل ہو گیا تھا۔ Khadga Prasad Oli کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد دوبارہ ملاقات کر کے اس فیصلے پر عملدرآمد پر بات کی گئی۔ دنیا بھر میں اپنی پہنچ بڑھانے کیلئے چین نے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے 65 ممالک کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے  اور اس منصوبے کو ون بیلٹ ون روڈ کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب او بی او آر منصوبہ ہے۔  اسے نیا سِلک روٹ بھی کہا جا رہا ہے۔ اجلاس کے بعد چین نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں (ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ) کے تحت بھارت، نیپال، چین اقتصادی راہداری کی پیشکش کر کے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت کو بھی اس منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔

چین تو پہلے سے ہی چاہتا تھا کہ بھارت اس منصوبے کا حصہ بن جائے لیکن بھارت اس سے انکار کر رہا ہے کیونکہ اس کے آقا ٹرمپ نے انہیں خطے کا تھانیدار بنانے کی لالچ دے رکھی ہے  اور یہی وجہ ہے کہ مودی نے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے سوویت یونین کو روس بنتے دیکھ کر 7 دہائیوں پر مشتمل دوستی کا ہاتھ چھڑاتے ہوئے  امریکا کے پائوں میں بیٹھنا فوری طور پر قبول کر لیا اور امریکی مقتدر حلقے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی اور اقوام عالم کی معاشی منڈیوں میں چین کی پذیرائی سے خوفزدہ ہو کرسی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ کو ہر قیمت پر ناکام بنانے پر تلا ہوا ہے اور اب اس خطے میں اس کے پاس بھارت کا استعمال بہترین آپشن ہے جس کیلئے امریکا اور بھارت ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی پالیسیوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ اس کی ایک اور واضح مثال ابھی حال ہی میں ایران پر امریکی پابندیوں کے اعلان کے بعد سامنے آئی۔ بھارت اپنی سالانہ ضرورت کا 70 فیصد تیل ایران سے خریدتا ہے اور امریکا کی جانب سے اعلان کردہ معاشی پابندیاں کے جواب میں بھارت کو سعودی عرب اور یو اے ای سے مہنگے داموں خریدنا یقیناً ایک بہت بڑے خسارے کا سودا تھا۔ اب بھارت کے اندر کا مکار فوری طور پر رخ بدلتے ہوئے انگڑائی لے کر فوراً میدان میں کود پڑا، اس نے اپنے پرانے دوست روس سے 5 اکتوبر 2018ء کو سرکاری طور پر S-400 فضائی دفاعی نظام کیلئے  5.2 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کر دیئے، جس کے جواب میں امریکا نے نہ صرف بھارت بلکہ اپنے دیگر اتحادیوں کیلئے ایران سے تیل خریدنے کیلئے مراعات کا اعلان کر دیا۔ چین سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ کو عظیم منصوبوں کے طور پر دیکھتا ہے  اور سمجھتا ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی کا یہ ایک بڑا ذریعہ ہے اور اس کے ساتھ دوسرے ممالک کا منسلک ہونا ضروری ہے۔ اس کیلئے سڑکیں، ریلوے، واٹر ویز، ٹیلی مواصلات، گیس کی لائنیں اور پٹرولیم لائنیں بچھائی جانی چاہئیں۔

چین اس کے ساتھ تمام ممالک کو اپنے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی اس میں وہ اپنا مرکزی کردار رکھ رہا ہے اور یہ ظاہر بھی ہے کیونکہ وہی اس کیلئے مالی امداد بھی دے رہا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ چین، نیپال اور بھارت اس کے ساتھ وابستہ ہو جائیں لیکن گزشتہ سال ون بیلٹ ون روڈ فورم کے اجلاس میں بھارت واحد ملک تھا جو اس میں شامل نہیں ہوا تھا اور بعد ازاں ایک بیان جاری کیا کہ چین کے اس مہنگے منصوبے کا حصہ بننے والے ممالک قرض میں پھنس رہے ہیں۔ بھارت کی مخالفت کے پیچھے بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت چین، پاکستان اقتصادی راہداری بنا رہا ہے۔ اس کے تحت، چین سے شروع ہونے والی سڑک گلگت بلتستان آزاد کشمیر سے ہوتے ہوئے گوادر بندرگاہ تک جاتی ہے۔  چین، کشمیر پر بھارت کے حق کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ وہ اسے پاکستان کا جزو تسلیم کرتا ہے،  ایسے میں بھارت چین کو اپنا دوست ملک کیسے کہے؟ یہ چین کی بھارت پر دبائو بڑھانے کی کوشش ہے۔ اس منصوبے میں چین کے معاون ممالک مالدیپ، نیپال، پاکستان اور میانمار کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ اس میں لگا سکیں۔ چین اس منصوبے مستقبل کی کامیابی کے تناظر میں اس لئے خسارہ برداشت کر رہا ہے تاکہ بھارت پر مزید دبائو بڑھے اور چین کی سڑک بھارت کے سر تک پہنچ جائے اور بھارت کے عوام اس سڑک کا استعمال شروع کر دیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، نیپال میں چین کا ہزاروں ٹن سامان آئے گا اور نیپال میں لوگ ہزاروں ٹن سامان خریدنے کے قابل نہیں ہیں  اور وہ سامان نیپال کی سرحد کے ذریعے اسمگل ہو کر بھارت آئے گا اس طرح بھارت کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آج کشمیر کے مسئلے پر چین کے نقطہ نظر کی قبولیت کے بعد کل ریاست ارووناچل پردیش پر بھی چین کے دبائو کے بعد بالآخر بھارت کو اپنا ماتھا ٹیکنا پڑے گا۔ بھارت اس وقت عجیب کشمکش میں مبتلا ہے اور بھارت میں 2019 ء میں لوک سبھا انتخابات  منعقد ہونے جا رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی اس صورت حال میں اس مسئلے کا سامنا کیسے کریں گے۔

No comments.

Leave a Reply