بابری مسجد: 6 دسمبر 1992ء سے 6 دسمبر 2018ء تک

بابری مسجد کو 1992ء میں انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا تھا

بابری مسجد کو 1992ء میں انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا تھا

نیوز ٹائم

بابری مسجد کو 1992ء میں انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا تھا،  اس وقت ایک ریلی میں ہجوم بے قابو ہو گیا تھا اور مشتعل ہجوم نے 500 برس پرانی بابری مسجد مسمار کر دی تھی۔ اس واقعہ کو آج 26 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ آج کل سپریم کورٹ میں اس حوالے سے مقدمے کی سماعت کی جا رہی ہے، اور جنوری کے بعد اس معاملے کی سماعت متوقع ہے۔ جس میں امید ہے کہ یہاں دوبارہ بابری مسجد کو تعمیر کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں گے۔  اس حوالے سے آر ایس ایس اور سخت گیر ہندو تنظیم Vishva Hindu Parishad کے زیر اہتمام سرکردہ ہندو ئوں نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ Ayodhya کی متنازع زمین پر Ram temple کی تعمیر کے لیے بلاتاخیر ایک آرڈیننس جاری کرے۔ فیصلہ آنے میں کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔ Ram temple کی تعمیر حکمران بی جے پی کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ مودی حکومت اپنے اقتدار کے آخری مرحلے میں ہے۔ ملک میں پارلیمانی انتخابات کی فضا بن رہی ہے۔ اس وقت کئی ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔

آخر اس مرحلے پر بی جے پی کی نظریاتی جماعتیں اچانک مندر کا سوال کیوں اٹھا رہی ہیں۔ وہ عوام میں ایک بار پھر پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان کی زمین کھسک چکی ہے۔ عوام یہ جانتی ہے کہ مندر ان کا مذہبی سٹنٹ ہے۔ ان کو نہ رام سے مطلب ہے نہ مندر اور مسجد سے۔ یہ صرف مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مندر کے ایجنڈے کو اچھال کر ہندو تنظیمیں Madhya Pradesh اور Rajasthan کے انتخابات کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر بی جے پی Chhattisgarh Rajasthan اور Madhya Pradesh میں بہت اچھا نہیں کرتی تو بہت ممکن ہے  کہ پارٹی کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑے اور وہ ایک بار پھر مندر کی جگہ ترقی کے موضوع پر واپس آ جائیں۔ مندر کا سوال انتخابات کے پیش نظر اچھالا جا رہا ہے۔ بی جے پی، گھبراہٹ میں ہے۔ اگر بی جے پی Madhya Pradesh Rajasthan اور Chhattisgarh میں سے دو ریاستوں میں شکست کھاتی ہے جس کا اندیشہ ہے تو کانگریس کی پوزیشن یکلخت بدل جائے گی اور یہ Uttar Pradesh میں بی جے پی کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن جو بھی ہو یہ 1992ء نہیں ہے یہ 2018ء ہے اب عوام میں اس حوالے سے شعور پیدا ہو چکا ہے اسی لیے بی جے پی اس حوالے سے عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

بابری مسجد کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ مسجد جو Mughal emperor Zaheer-ud din Muhammad Babur کے نام سے منسوب ہے،  بھارتی ریاست  Uttar Pradesh کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ اسے Mughal Salar Mir Baqi نے تعمیر کروایا تھا۔ بابری مسجد Mughal emperor Zaheer-ud din Muhammad Babur 1483 تا 1531 کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص Mir Baqi کے ذریعہ 1527 میں Uttar Pradesh کے مقام Ayodhya میں تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جس میں صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھا۔ بعض شر انگیز افراد جن میں آگے چل کر Vishva Hindu Parishad نامی تنظیم بھی شامل ہو گئی تھی، نے ایک پروپیگنڈا پھیلایا تھا۔ اس کا حاصل یہ تھا کہ بابری مسجد، رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے۔

1949 میں مسجد کو بند کرا دیا گیا۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ 6 دسمبر 1992ء کو ان عناصر نے مسجد کو مسمار کر دیا۔ جس کے بعد بھارت میں اپنی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں 3000 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حوالے سے 6 دسمبر 1992ء کے اس سانحہ پر پاکستان بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تھا اور پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی تو حکومت نے 8 دسمبر 1992ء کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا،  تمام دفاتر اور کاروباری مراکز بند رہے اور احتجاجی جلوس نکالے گئے۔  19 دسمبر کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا لیکن اپوزیشن کی نمائندہ سیاسی جماعتوں نے شرکت نہ کی، باقی چھوٹی جماعتوں کی شرکت سے اجلاس کے بعد اعلان اسلام آباد جاری کیا گیا جس میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بابری مسجد کو فوری طور پر ازسرنو تعمیر کیا جائے۔ بھارت میں تمام مساجد کو تحفظ فراہم کیا جائے اور مسلمانوں کی جان و مال اور املاک کو جو نقصان پہنچا ہے،  بھارتی حکومت اس کا معاوضہ ادا کرے لیکن پاکستان کے اس اعلان اسلام آباد پر کسی نے کان نہ دھرے اور کوئی معاوضہ اب تک ادا نہیں کیا گیا۔

ایک جائزے کے مطابق ان گھروں کو جن کو بابری مسجد کے معاملے میں فسادیوں اور انتہاپسندوں نے گرایا یا نقصان پہنچایا تھا،  وہ گھر اب بھی مرمت کے انتظار میں ہیں تاہم لٹکتے ہوئے پردے، ٹاٹ اور تپڑ ان گھروں کی زبوں حالی کی کہانی ان کہے لفظوں میں سناتے ہیں۔ خاموشی کی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ دیکھ لو دنیا والو! ہمارے ساتھ بھارت میں جو سلوک ہو رہا ہے۔ مسلمانوں پر روزگار کے مواقع بند ہوتے جا رہے ہیں، بہت کو گھر کا چولہا بند ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مزدوری ملنا مشکل ہو رہی ہے۔ بچوں کو تعلیم ملنا محال ہو رہی ہے جبکہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان کی آبادی سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے یعنی ایک اور پاکستان، بھارت سے الگ ہونے کا منتظر ہے۔

انہدام کے بعد بابری مسجد کا کیس Allahabad High Court میں چلتا رہا۔ ججز نے ہندو موقف جاننے کے لیے کہ یہ پہلے رام مندر تھا، اس کے لیے بھارتی آثارِ قدیمہ کے ماہرین سے مدد لی۔ انہوں نے بابری مسجد کے اطراف میں کھدائی کر کے اپنی رپورٹ پیش کی کہ مسجد سے پہلے یہاں مندر کے آثار موجود ہونے کے شواہد ہیں،  یہ رپورٹ سراسر جھوٹ پر مبنی تھی اور ہندو انتہاپسند تنظیموں کے سخت دبائو کے زیراثر جاری کی گئی تھی لہذا سنی وقف بورڈ نے اسے مسترد کر دیا لیکن جج صاحبان بھی سخت دبائو کا شکار تھے لہذا انہوں نے 30 ستمبر 2010ء کو اپنا فیصلہ جاری کر دیا کہ مسجد کے تین حصے کر دیئے جائیں،  ایک حصہ مسجد، ایک حصہ مندر اور ایک حصہ Ayodhya کی عوام کے سپرد کر دیا جائے لیکن سنی وقف بورڈ نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی  لیکن اب بی جے پی کے ایک لیڈر نے بھی سپریم کورٹ میں بابری مسجد اور رام مندر کی تعمیر کے ضمن میں ایک درخواست دائر کی ہے جسے بھارتی سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے،  BJP کے لیڈر Ram Swami نے اس درخواست میں ایک عجیب موقف اختیار کیا ہے کہ مسجدیں ٹوٹ سکتی ہیں انہیں کسی دوسری متبادل جگہ پر تعمیر کیا جا سکتا ہے لیکن اگر مندر ایک بار بن گیا تو اسے توڑا نہیں جا سکتا اور مندر کی یہی خصوصیت ہے حالانکہ تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان حکمرانوں کو ہندو ریاستوں کے راجائوں نے خود کئی گزارشات کی تھیں کہ جو مندر ہندوئوں کے زیر استعمال نہیں، ان کو توڑ کر مسجدیں بنا لیں لیکن اس دور میں بھی ایسا نہیں کیا گیا۔

لہذا آج بھارت میں مودی کی حکومت قائم ہے، مودی پر گجرات میں فسادات کروانے کا الزام ہے،  وہ مسلمان مخالفت میں ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں،  لہذا وہ تشدد پسند تنظیموں کو بڑھاوا دے کر ایک بار پھر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر نا چاہتے ہیں، ان اقدامات سے اور بہت سے دوسرے اقدامات سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مودی BJP اور RSS کے ہاتھوں مجبور اور بے بس ہوتے جا رہے ہیں اور ان انتہاپسند تنظیموں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے جا رہے ہیں جو کہ پاکستان اور مسلمانوں اور خصوصاً دنیا بھر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

No comments.

Leave a Reply