امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کی سعودی عرب مخالف مہم پر اہم سوالات

امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم

امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی سینٹ کے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن ارکان کے ایک گروپ نے ایک قرارداد متعارف کرائی ہے، اس کے ذریعے وہ مشرقِ اوسط میں امریکا کے قریبی اتحادی ملک سعودی عرب کے داخلی امور میں مداخلت چاہتے ہیں۔ ان کی تحریک کے بعد بعض امریکی سینیٹروں کی سعودی عرب دشمنی کے حوالے سے سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں کہ وہ کیوں اس کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ بعض امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی اس قرارداد سے منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ امریکی سینیٹر Lindsey Graham اس وقت سعودی عرب کے خلاف مہم میں سب سے آگے ہیں اور وہ سعودی صحافی Jamal Khashoggi کے قتل کے واقعے کو مملکت پر دبائو ڈالنے کے لیے ایک جواز اور حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایران اور قطر کے دوست ری پبلکن سینیٹر Bob Corker بھی سعودی عرب پر دبائو ڈالنے میں اپنی بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔

تاہم بعض امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق نہیں سیکھا ہے۔ Conservative Review کے قومی سلامتی کے نامہ نگار اور Dossier for CRTV کے ایڈیٹر Jordan Schachtel  امریکا کی اقتدار کی راہدایوں میں سنائی دینے والے امور کو اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم امریکی قانون سازوں کے لیبیا میں غلط مشوروں کے مضمرات کو مشاہدہ کر چکے ہیں اور ان کے نتائج بھگت چکے ہیں۔ وہاں سینیٹر Lindsey Graham ، Rubio اور دوسروں نے صدر باراک اوباما کے Qaddafi کی حکومت کا تختہ الٹنے کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔ ان کی رائے میں Qaddafi کی حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ اور ISIL ایسے گروپوں کو تقویت ملی اور ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جس کے نتیجے میں لیبیا کے دوسرے بڑے شہر Benghazi میں امریکی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں Ambassador Chris Stevens سمیت چار امریکی ہلاک ہو گئے تھے۔

مصر میں بھی تبدیلی کے حامی اس اتحاد نے قاہرہ میں Muslim brothers کے برسراقتدار آنے پر خوشیاں منائی تھیں۔Jordan Schachtel کہتے ہیں کہ اس کے بعد مصر میں طوائف الملوکی اور تشدد کا دور دورہ ہوا تھا۔ خواتین اور Coptic Christian community  پر حملے کیے گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں سینیٹر Graham کی قرارداد سے سعودی عرب کے دشمن دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کو فائدہ پہنچے گا۔ مثال کے طور پر اس مجوزہ قرارداد میں سعودی عرب پر زور دیا گیا ہے  کہ وہ یمن میں جاری جنگ کے مسئلے پر Houthi movement کے نمائندوں سے براہ راست بات چیت کرے لیکن اس حقیقت کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے کہ Houthi باغی ایران کے حمایت یافتہ ایک دہشت گرد گروپ ہیں۔

قطر تنازع:

قرارداد میں سعودی عرب سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قطر کے ساتھ اپنے تنازع کے سیاسی حل کے لیے جلد سے جلد مذاکرات کرے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ قطر دنیا بھر میں دہشت گرد گروپوں کا حامی ملک ہے  لیکن امریکا کی دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں کا گروپ اس پر دبائو ڈالنے کے بجائے الٹا سعودی عرب کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ قطر سے سفارتی تعلقات بحال کرے۔ قطر کی اس انداز میں حمایت کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس خلیجی ریاست سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیات اور فرمیں سینیٹر Graham کی ریاست جنوبی کیرولینا میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ فروری میں سینیٹر Graham نے قطر کے اعلی عہدے داروں کے ساتھ جنوبی کیرولینا میں بالمشافہ ملاقاتیں کی تھیں اور ان سے ریاست میں سرمایہ کاری پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

Jordan Schachtel نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر Lindsey Graham کی سعودی عرب کے خلاف مہم جوئی کے تجزیے سے قبل یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ وہ مشرقِ وسطی پالیسی کے حوالے سے غلط فیصلوں کا ایک طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔ میں ان کی سعودی عرب مخالف مہم کے حوالے سے کوئی پیشین گوئی نہیں کر سکتا لیکن ان کی جانب سے خاص طور پر سعودی Crown Prince Mohammad Bin Salman کی حد سے بڑھی ہوئی مخالفت بہت چونکا دینے والی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ  Crown Prince Mohammad Bin Salman میں غیر معمولی اصلاحات کا نفاذ کر رہے ہیں۔وہ ایک قابل اعتماد شراکتدار ہیں اور امریکا کے ایک اہم اتحادی ہیں۔ Lindsey Graham کی ان کے خلاف مہم بالکل گمراہ کن ہے۔اس سے خطے میں امریکا کے موقف اور مفادات کو نقصان پہنچے گا۔

No comments.

Leave a Reply