افغانستان میں تاریخ تبدیل ہوتی رہی

یہ 15 فروری 1989ء کی بات ہے جب افغان شہری خوف اور حیرت کی تصویر بنے سابق سوویت یونین کے ان فوجیوں کو دیکھ رہے تھے

یہ 15 فروری 1989ء کی بات ہے جب افغان شہری خوف اور حیرت کی تصویر بنے سابق سوویت یونین کے ان فوجیوں کو دیکھ رہے تھے

نیوز ٹائم

یہ 15 فروری 1989ء کی بات ہے جب افغان شہری خوف اور حیرت کی تصویر بنے سابق سوویت یونین کے ان فوجیوں کو دیکھ رہے تھے جو 10 برس تک جاری رہنے والی جنگ میں شکست کا شکار ہونے کے بعد  دوستی کے پل سے گزر کر افغانستان سے واپس جا رہے تھے،  اس موقع پر روسی فوجی افغان شہریوں کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ افغان بارڈر گارڈ Abdul Qayyum نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سابق سوویت فوجی جنگ سے بیزار ہو چکے تھے اسی لیے وہ وطن واپسی پر بے حد خوش تھے، گارڈ Abdul Qayyum Amu Darya پر بنے ہوئے اس پل پر تعینات تھا جسے دوستی پل کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ میں تقریبا 1.5 ملین افغان شہید اور تقریباً 15 ہزار سوویت فوجی ہلاک ہوئے تھے،  اب افغان مزاحمتی تحریک کے ہاتھوں شکست کھا کر سوویت یونین کی فوج جسے ریڈ آرمی کہا جاتا تھا پسپا ہو گئی تھی۔

سابق سوویت یونین کی فوج 27 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئی تھی، یہ فیصلہ روسی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو (ہائی کمان) کے ایک خفیہ اجلاس میں کیا گیا تھا،  افغانستان میں اس فوجی مداخلت کے بارے میں سرکاری سطح پر یہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ ایک دوست ملک (افغانستان) کو اسلام پرست باغیوں سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے،  اس لیے افغانستان کے عوام کی حفاظت اور ان کی مدد کیلئے وہاں روسی فوجیوں کو بھیجا گیا ہے۔ یاد رہے کہ روسی فوجی مداخلت سے صرف ایک سال قبل افغانستان میں بغاوت کے بعد اس ملک کو کمیونسٹ قرار دے کر روس نے اس کے ساتھ دوستی اور تعاون کا معاہدہ کر لیا تھا۔ افغان گارڈ عبد القیوم جو اب 60 برس کا ہو چکا ہے نے کہا کہ جب سوویت فوجی، افغانستان میں گھس آئے تو دیگر افغان شہریوں کی طرح وہ بھی سخت حیران و پریشان ہو گیا تھا، اس نے بتایا کہ ازبکستان کے ایک فوجی افسر نے جو وہاں موجود تھا اسے بتایا کہ  مہمان  آ رہے ہیں،  تاہم اہلکاروں کا خیال تھا کہ سوویت یونین کے یہ فوجی پریڈ میں شرکت کیلئے یہاں آئے ہیں اور جلد واپس چلے جائیں گے،  یہ بات غلط ثابت ہوئی کیونکہ سوویت فوجی طویل عرصے تک افغانستان میں تعینات رہے۔

گارڈ عبد القیوم نے مزید بتایا کہ افغانستان میں داخل ہونے والے روسی فوجیوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ ان کا شمار کرنا ممکن ہی نہیں تھا، سویت فوجیوں کی بہت بڑی تعداد کئی روز تک سرحدی علاقے  hydrant میں داخل ہوتی رہی، نہ صرف دن بلکہ رات کے اوقات میں بھی ان کی آمد جاری رہتی۔ ماسکو کا یہ خیال بہت جلد غلط ثابت ہو گیا کہ یہ ایک آسان اور محدود مدت کا مشن ہو گا،  اس لیے کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود سوویت فوجیوں کیلئے افغان مجاہدین کی سپلائی لائن کو توڑنا ممکن نہ ہو سکا،  ان افغان مجاہدین کے پاس امریکہ کا دیا ہوا اسلحہ، سعودی عرب کا فراہم کردہ سرمایہ اور پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی لاجسٹک سپورٹ موجود تھی،  بالآخر 14 اپریل 1988ء کو کئے گئے جنیوا معاہدے میں سوویت یونین نے وعدہ کر لیا  کہ وہ افغانستان میں موجود اپنے تمام فوجیوں کو جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی 15 فروری 1989ء تک واپس بلا لے گا،  سوویت فوجیوں کی واپسی کا عمل دو مراحل میں مکمل ہوا، ہر مرحلے میں 50 ہزار فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلایا گیا،  سوویت فوجیوں کی واپسی کا پہلا مرحلہ 15 مئی 1988ء کو شروع ہوا اور اسی سال 15 اگست تک جاری رہا۔  سوویت یونین کے فوجیوں کی واپسی کا دوسرا مرحلہ 15 نومبر 1988ء کو شروع ہونے والا تھا لیکن اسی دوران افغان مجاہدین نے دبائو بڑھا دیا، ہر صورت سوویت فوجیوں کی واپسی کا دوسرا مرحلہ دسمبر 1988 ء میں شروع ہو سکا۔

سوویت فوجیوں کیلئے وطن واپسی کا مشن توقع کے برعکس نہایت مشکل ثابت ہوا،  سوویت فوجیوں سے بھرے ہوئے ٹرکوں کی قطار کو 3600 میٹر یعنی 11,800 فٹ بلند سلنگ پاس سے گزرنا پڑا،  یہاں گزشتہ 16 برس کے دوران ہونے والی شدید ترین سردی کا راج تھا، افغانستان سے واپس جانے والے سوویت فوجیوں کیلئے محض شدید موسم پریشان کن نہیں تھا بلکہ مجاہدین کی جانب سے حملوں کے باعث بھی وہ بدترین پریشانی کا شکار ہو چکے تھے  کیونکہ ان کے ساتھی روز ہی مجاہدین کے حملوں میں ہلاک ہو رہے تھے۔ بہرحال 15 فروری 1989ء کو ماسکو میں موجود کمیونسٹ حکام نے اعلان کیا کہ افغانستان سے سوویت فوجیوں کا انخلا مکمل ہو چکا ہے،  انہوں نے کہا کہ ہمارے ان فوجیوں نے حب الوطنی، دیانت اور شجاعت کے ساتھ اپنا قومی اور بین الاقوامی فریضہ ادا کر دیا،  سوویت قیادت نے کہا کہ ہمارے فوجی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے افغانستان کی جائز اور آئینی حکومت کی درخواست پر وہاں کے عوام بشمول خواتین، بچوں اور ضعیفوں کا تحفظ کیا،  انہوں نے افغانستان کے شہروں، قصبوں اور دیہی آبادیوں کی بھی حفاظت کی اور اس طرح ایک دوست ملک کی خودمختاری اور اس کے اقتدار اعلی کو برقرار اور محفوظ رکھنے کیلئے شاندار کردار ادا کیا،  لیکن ماسکو کے اخبارات کا ردعمل حکومت سے مختلف تھا۔

کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان pravda newspaper نے لکھا کہ ہمارے فوجیوں کی واپسی بلاشبہ خوشی کی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی غمناک ہے کہ اس مشن میں ہمارے متعدد فوجی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ افغانستان سے سوویت فوجیوں کی واپسی سوویت یونین کے سابق صدر Mikhail Gorbachev کے دور حکومت میں ہوئی تھی،  انہوں نے 2003 ء میں کہا کہ کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کو لاتعداد خطوط ملے تھے،  یہ خطوط افغانستان میں تعینات فوجیوں کی ماں، بہنوں اور بیویوں نے لکھے تھے،  انہوں نے نہایت دردناک انداز میں کہا تھا کہ افغان جنگ کو ختم کیا جائے تاکہ ان کے پیارے زندگی کو لاحق خطرات سے محفوظ ہو جائیں،  Mikhail Gorbachev نے مزید کہا کہ فوجی افسران اپنے ماتحت جوانوں کو یہ سمجھانے میں ناکام ہو گئے تھے کہ سوویت یونین، افغانستان کی جنگ میں کیوں ملوث ہو گیا ؟ ہمارے فوجی وہاں کیا کر رہے ہیں؟ اور اس جنگ سے سوویت یونین کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ Mikhail Gorbachev نے مزید کہا کہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ افغانستان میں فوجی مداخلت ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ جب سوویت یونین کا آخری فوجی افغانستان سے روانہ ہوا تو اس موقع پر کابل میں کوئی تقریب منعقد ہوئی اور نہ ہی اس بات کی پبلسٹی کی گئی،  ایک صحافی نے لکھا کہ افغان حکومت کے افسران اور عوام دونوں نے اس موقع پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا،  ایک ضعیف تاجر نے بتایا کہ سوویت یونین کے آخری فوجی کی واپسی کے بعد مقامی شہریوں نے نہایت خوشی کا اظہار کیا، تاہم ایک 76 سالہ افغان شہری نے بتایا کہ سوویت فوجیوں کی واپسی کے بعد ملک میں جو شدید جنگ، خانہ جنگی اور خونریزی ہوئی  اس کے بعد میں سوچتا ہوں کہ سابق سوویت یونین کے فوجی اگر افغانستان سے واپس نہ جاتے تو شاید بہت اچھا ہوتا،  بعض افغان حکام نے بتایا کہ سوویت فوجیوں کی واپسی کے دوران جن مقامات سے سوویت فوجی گزرے  وہاں ٹینک، توپیں اور فضا میں مار کرنے والی بیٹریاں نصب کی گئی تھیں،  یہ انتظامات مجاہدین کی جانب سے حملوں کے خطرے کی وجہ سے کیے گئے تھے،  اس کے 3 برس بعد افغانستان کے صدر Najibullah نے استعفیٰ دے دیا، یہ افغانستان میں Communism کے خاتمے کا بہت واضح اشارہ تھا،  اس کے بعد افغانستان میں مجاہدین کے مختلف گروپوں پر مشتمل حکومت قائم ہو گئی لیکن بہت جلد ان کے درمیان سنگین اختلافات پیدا ہو گئے اور ان کے مابین خونریزی شروع ہو گئی،  اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت فوجیوں کی واپسی کے بعد افغانستان اپنی تاریخ کی بدترین تباہی سے دوچار ہو گیا، یہاں تک کہ 1996ء میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

No comments.

Leave a Reply