سعودی عرب اور نیا پاکستان

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان

نیوز ٹائم

مرزا غالب نے ایک خط میں کہا اگرچہ تندرست ہوں لیکن ناتواں و سست ہوں۔ حواس کھو بیٹھا، حافظے کو رو بیٹھا۔ اگر اٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اٹھتا ہوں کہ جتنی دیر میں قدِ آدم دیوار اٹھے۔ میرا پاکستان بھی غالب کی طرح ہے، اگر اٹھتا ہے تو اتنی دیر میں اٹھتا ہے کہ جتنی دیر میں آم کا پیڑ اٹھے اور پھر بیٹھ جاتا ہے۔ ایوب خان کے عہد میں اٹھا تھا، یحییٰ خان کے دور میں بیٹھ گیا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق کے زمانے میں دیوار کا سہارا لئے اٹھ کھڑا ہوا مگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں پھر آہستہ آہستہ اسی دیوار کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔  پرویز مشرف نے کچھ امریکہ سے ہاتھ ملایا، جسم میں جان آئی، حواس بہتر ہوئے، مال نے رگوں میں گردش کی یعنی کھڑا ہونے کی توقیق ہوئی  مگر اگلے 10 سالہ جمہوری دور نے نیچے سے کارپٹ کھینچ لیا۔ اب عمران خان پھر اِسے کھڑا کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ 10,8 بلین ڈالر تو عطیہ کی طرح ہاتھ آ گئے ہیں۔ 21,20 بلین ڈالر کے پروجیکٹ لانے والے جہاز بس کسی بھی لمحے اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں۔ دوست خوش ہوئے، مخالفوں کو موت آ گئی۔ سعودی خوش بخت، ولی عہدِ محمد بن سلمان اپنے 1200 چراغوں کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں کو منور کرنے والے ہیں۔ اِس تاریخ ساز لمحے کی آمد کی بابت بات کرتے ہوئے ایک سابق سعودی سفیر نے لکھا ہے ہم نے پاکستان کو دوبارہ دریافت کیا ہے۔ یہ دوبارہ دریافت ہونے والا عمران خان کا نیا پاکستان ہے۔

میرے خیال میں برادر ملک نے پاکستان کو دوبارہ دریافت سی پیک کی وجہ سے کیا ہے۔ بے شک پاک، چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان دنیا کا ایک اہم کاروباری مرکز بننے والا ہے۔ وسطی ایشیا کے ممالک سے لے کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک یہ راہداری پھیلنے والی ہے۔ روس کی بحر ہند تک اور سعودی عرب کی یورو ایشین مارکیٹ تک رسائی اِسی پاک، چین اقتصادی راہداری سے ہو گی۔ سعودی عرب گوادر میں جو 10 ارب ڈالر کی آئل ریفائنری اِسی سال شروع کرنے لگا ہے، اس کا پاکستانی معیشت میں بہت اہم کردار ہو گا۔ ہم جو خود تیل نکالتے ہیں وہ ہماری ضرورت کا 40 فیصد حصہ ہے مگر ہم اس خام تیل میں 25 فیصد خام تیل باہر بھیج دیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اسے صاف کرنے کی اہلیت نہیں۔ یعنی گوادر کی آئل ریفائنری کے بعد ہمیں 25 فیصد تیل کی بچت ہو گی جس کے پاکستان کی معیشت پر واضح اثرات مرتب ہوں گے۔

زراعت کے شعبے میں سعودی عرب کی دلچسپی پاکستان کو ایک نئے زرعی دور میں داخل کر سکتی ہے۔ ابھی تو سعودیہ نے صرف دو لاکھ ہیکٹر زمین مانگی ہے، ہم اسے 10 لاکھ ہیکٹر زمین دے سکتے ہیں۔ اگر برادر ملک جہاں دو لاکھ ہیکٹر زمین کو فواروں کے ذریعے سیراب کرے گا،  وہاں 20 لاکھ ہیکٹر کے لئے پاکستان کو فواروں کا نظام فراہم کر دے تو زراعت میں انقلاب آ جائے گا۔ ہمارے پاس تو اڑھائی کروڑ ہیکٹر فارغ پڑے ہوئے ہیں۔ برادر ملک کی زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری سے ہم پورے مڈل ایسٹ کو فوڈ فراہم کر سکتے ہیں۔ چین میں ایک ہیکٹر زمین 200 من چاول پیدا کرتی ہے جبکہ پاکستان میں صرف 40 من۔ زراعت میں سعودی سرمایہ کاری پاکستان کی زرعی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ کر سکتی ہے، فوڈ برآمد کرنے کے لئے ہمارے پاس ایک بہت بڑی منڈی چین کی صورت میں بھی موجود ہے۔

روس کی جانب سے نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ گوادر کو عمان سے ملانے کے لیے زیرِ سمندر سرنگ یا پل بنانے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے، جس طرح برطانیہ اور فرانس کے درمیان زیرِ سمندر ایک ریلوے ٹنل بچھائی گئی ہے۔  اگر ایسا ہو گیا تو پھر یہ زمینی راستہ بھی ایک نئے دور کی تاریخ بن سکتا ہے۔ یہ راستہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کو مشرقِ وسطی سے ملا دے گا۔ پاک، چین راہداری میں سعودی عرب کی شمولیت سے کچھ ممالک کا ایک غیر علانیہ نیا اتحاد بھی خود بخود وجود میں آ جائے گا۔ خاص طور پر چین، روس، پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے بہت قریب ہو جائیں گے۔ پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا۔ یہاں وقت کی رفتار تیز ہو جائے گی، موسموں کے دریا بہنے لگیں گے، بصارتوں میں بصیرتیں بھر جائیں گی، خوابوں کو تعبیر مل جائے گی، آوازوں کو مفہوم مل جائیں گے۔ ریت پر پھول کھل اٹھیں گے، نیا پاکستان وجود میں آ جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply