جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں؟

جنگ عظیم اول 1914ء سے 1919ء تک لڑی جاتی رہی

جنگ عظیم اول 1914ء سے 1919ء تک لڑی جاتی رہی

نیوز ٹائم

اگر دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں اس قدر ہولناک جنگوں کی لرزہ خیز داستانیں نظر آئیں گی، جنہیں انسان آج تک بھلا نہیں پائے۔ جنگ اگرچہ انسانی فطرت کا حصہ نہیں سمجھی جاتی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان قدیم ہے۔ دنیا کی تاریخ اور جنگوں کا تجزیہ کرنے سے ہمیں اندازہ ہو گا کہ آج تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں وہ معمولی باتوں سے ہی شروع ہوئیں۔ زیادہ تر جنگیں بادشاہوں، ریاستوں اور حکومتوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر شروع ہوئیں جن سے لاکھوں انسان اپنے جیسے ہی دوسرے انسانوں کی وحشت کا نشانہ بنے۔ دنیا کی تاریخی جنگیں، انسانی کھوپڑیوں کے مینار، بھوک، افلاس اور تشدد سے بھری پڑی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی جنگیں انسانی خود غرضی کی وجہ سے ہی ہوئیں  جن کی لرزہ خیز داستانیں آج بھی لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔

اگر دنیا کی قدیم ترین جنگوں کو چھوڑ کر آخری 100 سال کی جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو بھی ایسی داستانیں سامنے آئیں گی جنہیں سننا یا برداشت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ دنیا کی جدید اور بڑی جنگوں کی تاریخ آج سے 105 سال قبل جنگ عظیم اول سے شروع ہوتی ہے  اور اس جنگ نے انسانوں کے خیالات اور رویوں کو بھی تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔جنگ عظیم اول سے لے کر عرب – اسرائیل جنگ اور پھر 9/11 حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جدید جنگوں نے دنیا کو صرف تشدد، خوف، بھوک اور بے بسی ہی دی ہے۔

جنگ عظیم اول سے لے کر اب تک کی تمام جنگوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلے گا کہ یہ جنگیں معمولی باتوں اور کچھ شخصیات کی انا کی وجہ سے ہی لڑی گئیں۔

جنگ عظیم اول:

جنگ عظیم اول 1914 سے 1919 تک لڑی جاتی رہی

جنگ عظیم اول 1914 سے 1919 تک لڑی جاتی رہی

جنگ عظیم اول 1914ء سے 1919ء تک لڑی جاتی رہی اس جنگ کو دنیا کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی، پہلی اور خوفناک جنگ سمجھا جاتا ہے جو 1914 ء سے لے کر 1919 ء تک یورپ کے متعدد ممالک کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ اس وقت کے آسٹریا، ہنگری کے شہزادے Archduke Friedrich اور ان کی اہلیہ  Sophie کو Bosnia and Herzegovina کے شہر Sarajevo میں جون 1914ء کو قتل کرنے کے بعد شروع ہوئی۔ شہزادے اور ان کی اہلیہ کو قتل کرنے کا الزام سربیا کے قوم پرست جماعت کے کارکن پر لگا  اور یوں آسٹریا، ہنگری کے سربیا سے تعلقات کشیدہ ہو گئے، جن کے تعلقات پہلے ہی مسائل کا شکار تھے،  تاہم شہزادے اور ان کی اہلیہ کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے شدید مخالف ہو گئے۔

دونوں ممالک کو یورپ کے مختلف ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی، سربیا کو روس، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک جبکہ آسٹریا، ہنگری کو جرمنی اور سلطنت عثمانیہ (ترکی) جیسے ممالک کی حمایت حاصل رہی۔ یوں 2 ممالک کی جنگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 5 سال تک جاری رہنے والی جنگ میں کم سے کم 8.5 ملین فوجی اور ہزاروں عام شہری ہلاک ہوئے۔ اس جنگ کے خاتمے کے بعد جہاں جرمنی کو کمزور کر کے رکھ دیا گیا،  وہیں سلطنت عثمانیہ کے بھی ٹکڑے کر دیے گئے اور برطانیہ کی شہنشاہیت بھی کمزور پڑنے لگی،  یورپ بھر میں بھوک اور غربت نے ڈیرے جما لیے، بیماریوں نے سر اٹھائے اور دنیا پہلی بار جنگ کے خوف سے ڈرنے لگی۔

جنگ عظیم دوئم:

جنگ عظیم دوئم 1939 سے 1945 تک جاری رہی

جنگ عظیم دوئم 1939 سے 1945 تک جاری رہی

جنگ عظیم دوئم 1939 سے 1945 تک جاری جنگ عظیم اول سے قبل جرمنی بہت طاقتور ملک تھا،  مگر جنگ کے اختتام تک وہ کمزو ہو چکا تھا اور پھر فرانس، برطانیہ اور روس جیسے ممالک نے امریکی مدد سے اسے مزید کمزور اور کمتر کر دیا تھا اور وہ 1919 ء سے 1930ء تک ایک شکست خوردہ ملک کی طرح چلتا رہا۔ ایڈولف ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی ایک بار پھر طاقتور ملک کے طور پر ابھرنے لگا اور پھر ہٹلر نے برطانیہ، روس اور فرانس سمیت دیگر ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا جواب دینے کے لیے 1938ء میں طاقت اور جارحیت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ طاقتور ملک بننے کے بعد ہٹلر کی قیادت میں جرمنی نے 1938ء میں پہلے آسٹریا پھر چیکو سلواکیہ اور بعد میں پولینڈ پر قبضہ کیا۔

جرمنی کی اس جارحیت کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا، کیونکہ جرمنی نے جنگ عظیم اول میں شکست کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ وہ کسی بھی ملک پر حملہ آور نہیں ہو گا،  لیکن پولینڈ پر حملہ کرنے کے بعد برطانیہ نے اس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور یوں ستمبر 1939ء میں جنگ عظیم دوئم کا آغاز ہوا۔ کیونکہ اس زمانے میں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے میں تھے جن کے تحت اتحادی ممالک کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا تھا، اس لیے یہ جنگ بھی جنگ عظیم اول کی طرح کئی ممالک کے درمیان لڑی گئی اور اس جنگ نے دنیا کے نقشے کو ہی بدل دیا۔

جنگ عظیم دوئم کے درمیان ہی ایشیائی ملک جاپان بھی طاقتور ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا،  تاہم 1945ء میں امریکا کی جانب سے اس پر گرائے گئے بموں نے دنیا کا نقشہ اور طاقت کا توازن ہی بدل دیا۔ جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر 1945ء سے پہلے طاقت میں رہنے والے برطانیہ، جاپان، اٹلی، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک سمیت سب ممالک کمزور ہو گئے، امریکا اور روس نئی طاقت بن کر ابھرے۔ اس جنگ نے اس وقت کسی نہ کسی طرح دنیا کے 50 سے زائد ممالک کو متاثر کیا اور اس سے لگ بھگ 2 کروڑ افراد ہلاک ہوئے،  کروڑوں افراد زخمی ہوئے اور لاکھوں افراد کو ایک سے دوسرے ملک ہجرت کرنا پڑی۔ جنگ عظیم دوئم کے ختم ہونے کے بعد برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کمزور ہونے لگے تو انہوں نے ایشیا اور افریقا میں اپنے زیر تسلط رہنے والے ممالک کو آزاد کرنا شروع کیا۔

کوریا جنگ:

کوریا جنگ 1948 سے 1951 تک جاری رہی

کوریا جنگ 1948 سے 1951 تک جاری رہی

کوریا جنگ 1948ء سے 1951ء تک جاری رہی، جنگ عظیم دوئم کے بعد طاقتور ممالک کے طور پر ابھرنے والے ممالک نے جرمنی اور کوریا سمیت دیگر ممالک کو حصوں میں تقسیم کر کے انتطامات سنبھالنا شروع کیے جس کے بعد روس، امریکا اور کوریا کی تقسیم کے معاملے پر الجھ پڑے۔ معاہدوں کے تحت کوریا کا شمالی حصہ روس اور جنوبی حصہ امریکا کے حصے میں آیا  اور دونوں ممالک کو کچھ سال بعد کوریا کے دونوں حصوں سے نکل جانا تھا، تاہم ایسا نہ ہو سکا  اور معاملہ کشیدہ ہو گیا اور کوریا ہمیشہ کے لیے 2 ممالک میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔

کوریا کے دونوں حصوں میں اس قدر نفرتیں پیدا ہو گئیں کہ دونوں نے 1948ء میں ایک دوسرے سے جنگ چھیڑ دی اور ان کی جنگ میں بھی چین، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا بھی کود پڑے اور کوریا کی جنگ اگلے تین سال تک لڑی جاتی رہی اور بعد میں اگرچہ معاہدوں کے ذریعے روس اور  امریکا، کوریا سے نکل گئے لیکن کوریا کبھی بھی ایک نہ ہو سکا۔

سرد جنگ:

روس اور امریکا کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ تھی

روس اور امریکا کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ تھی

سرد جنگ بظاہر جنگ نہیں تھی لیکن یہ طویل عرصے تک جاری رہی،  اگرچہ سرد جنگ کو واضح طور پر لڑی جانے والی جنگ نہیں سمجھا جاتا،  لیکن یہ ایسی جنگ تھی جو باقی جنگوں کے مقابلے طویل عرصے تک خفیہ طور پر لڑی جاتی رہی اور دنیا کے متعدد ممالک اس کا حصہ رہے،  یہ جنگ دراصل روس اور امریکا کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ تھی  جو کوریا جنگ کے بعد شروع ہو کر سوویت یونین کے ٹوٹنے تک جاری رہی۔ اس جنگ میں اگرچہ اتنی زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوئیں جتنی تعداد میں جنگ عظیم اول اور دوئم میں ہوئی تھیں،  تاہم اس جنگ نے بھی دنیا کے امن کو 4 دہائیوں تک مفلوج بنائے رکھا اور سرد جنگ 1991ء میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ہی بند ہوئی۔

ویتنام جنگ:

ویت نام جنگ بھی 1955 سے 1975 تک جاری رہی

ویت نام جنگ بھی 1955 سے 1975 تک جاری رہی

ویتنام جنگ بھی 1955ء سے 1975ء تک جاری رہی، اس جنگ کو دراصل امریکا کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بھی کہا جاتا ہے جو سرد جنگ کے دوران اس وقت شروع ہوئی جب امریکا نے ویتنام میں اپنے اتحادی ملک فرانس کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھیجیں،  ویتنام کو بھی جنگ عظیم دوئم کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا کی طرح 2 حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ویتنام جنگ میں بھی کوریا جنگ کی طرح روس، امریکا، فرانس، کینیڈا، چین، جاپان اور آسٹریلیا کی فوجیں بھی لڑتی رہیں،  تاہم ویتنام کے عوام کے اتحاد نے سب کو سرزمین سے نکلنے پر مجبور کیا۔اس جنگ میں اگرچہ زیادہ تر ویتنام کے عوام ہی مارے گئے، تاہم ویتنام کے لوگوں کی امریکا اور فرانس سمیت اس کے اتحادیوں سے سخت نفرت نے امریکیوں کو بھی کافی نقصان پہنچایا  اور وہ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے اور 25 سال بعد 1975ء کے بعد نیا پرامن اور مضبوط متحد ویتنام وجود میں آیا۔

افغان جنگ:

فغان جنگ 10 سال کے لیے تھمی اور بعد میں شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے

فغان جنگ 10 سال کے لیے تھمی اور بعد میں شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے

افغان جنگ 10 سال کے لیے رکی اور بعد میں شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے،  افغانستان میں 1978ء کے بعد امریکا اور روس کی جانب سے لڑی جانے والی جنگ بھی دراصل ان دونوں ممالک کے مفادات اور طاقت کی جنگ تھی جو انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی ہی سرزمین کے بجائے دوسرے ملک کی زمین پر لڑی۔ اس جنگ میں دیگر ممالک نے امریکا اور روس کا ساتھ دیا اور کئی سال تک افغان سرزمین پر دوسروں کی جنگ لڑی جاتی رہی۔

افغانستان میں بھی روس اور امریکا دوسرے ممالک کی مدد سے 1992 تک اس وقت تک مدمقابل رہے جب تک سوویت یونین بکھرا نہیں۔ اگرچہ افغانستان کی پہلی جنگ 1978ء سے 1992ء تک لڑی گئی تاہم ایک دہائی کے وقفے کے بعد امریکا نے ایک بار پھر وہاں 2001 ء میں نئی جنگ چھیڑ دی  اور اس بار امریکی جنگ کا انداز ماضی جیسا نہیں تھا۔  امریکا نے 9 ستمبر 2001 ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا  اور اس نے اس نئی مہم کا آغاز افغانستان سے کالعدم تنظیم القاعدہ کے خلاف جنگ لڑنے سے کیا اور یہ جنگ آج تک جاری ہے۔  اب اگرچہ امریکا نے افغانستان میں اپنی فوج کم کر دی ہے، تاہم اب بھی امریکا یہاں موجود ہے اور اس کی جانب سے شروع کی گئی جنگ ختم نہیں ہو سکی۔

عراق جنگ:

عراق پر امریکی حملے کے بعد اب تک حالات ٹھیک نہیں

عراق پر امریکی حملے کے بعد اب تک حالات ٹھیک نہیں

عراق پر امریکی حملے کے بعد اب تک حالات ٹھیک نہیں، یہ جنگ بھی جدید زمانے کی ایک ایسی جنگ ہے جسے خانہ جنگی کا نام دیا جاتا ہے اور اس جنگ کو بھی امریکا نے برطانیہ سمیت دیگر مضبوط ممالک کے اتحاد سے 2003 ء میں شروع کی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا کر 2003 ء میں عراق پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام عائد کر کے اس پر حملہ کر دیا  اور اسی حملے کے نتیجے میں عراق کے صدر صدام حسین کو گرفتار کر کے ان پر مقدمے چلا کر انہیں پھانسی دی گئی  اور بعد میں اعلان کیا گیا کہ اتحادی افواج عراق سے نکل رہی ہیں۔ مختلف رپورٹس اور اندازوں کے مطابق اس جنگ میں 6 لاکھ عام عراقی افراد مارے جا چکے ہیں،  اگرچہ امریکا نے 2011 ء میں عراقی سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا، تاہم تاحال عراق میں اس جنگ کے اثرات جاری ہیں اور اب بھی یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہے۔

عرب- اسرائیل جنگ:

اسرائیل کو عرب جنگوں میں امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کا ساتھ رہا

اسرائیل کو عرب جنگوں میں امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کا ساتھ رہا

 اسرائیل کو عرب جنگوں میں امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کا ساتھ رہا،  یہ جنگ باقی تمام جنگوں سے مختلف نوعیت کی جنگ ہے جو عرب مسلمانوں کی جانب فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی صہیونی ریاست کے قیام کے خلاف لڑی جاتی رہی ہے، اس جنگ کو نظریاتی جنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے جو اب تک مختلف عرب ممالک کے اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی جا چکی ہے۔ عرب اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ 1948ء کے بعد اس وقت ہی شروع ہو گئی تھی  جب امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے یہودیوں کو یورپ سمیت دیگر خطوں سے لا کر فلسطین کی سرزمین پر آباد کیا جانے لگا۔ فلسطین کی سرزمین پر صہیونی ریاست کے قیام کے خلاف ہی اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک نے 1948ء کے بعد 1956ئ، 1967ء  اور 1973ء میں بھی جنگ لڑی  اور ان جنگوں میں اسرائیل کو امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کا بھی ساتھ رہا۔

گلف جنگ:

گلف جنگ عراقی جارحیت کا نتیجہ تھی

گلف جنگ عراقی جارحیت کا نتیجہ تھی

گلف جنگ عراقی جارحیت کا نتیجہ تھی،  اس جنگ کو سقوط کویت کا نام بھی دیا جاتا ہے اور یہ جنگ دراصل عراقی جارحیت تھی۔ یہ جنگ 1990ء میں عراق کی جانب سے کویت پر کیے گئے حملے سے شروع ہوئی اور یہ 7 ماہ تک جاری رہی۔ عراق کے اس وقت کے صدر صدام حسین کے احکامات پر عراقی فوج نے کویت پر تیل چرانے کا الزام لگا کر حملہ کر دیا اور کئی ماہ تک عراقی فوج نے وہاں جنگ جاری رکھی۔ عراقی جارحیت کے خلاف ہی سعودی عرب کی قیادت میں امریکا سمیت 35 ممالک کی فوج کا اتحاد تشکیل دیا گیا  جس نے کویت پر حملہ کرنے والی عراقی فوج پر حملہ کر دیا اور عراقی فوج کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔

عرب انقلاب – شام خانہ جنگی:

شام میں خانہ جنگی سے لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے

شام میں خانہ جنگی سے لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے

شام میں خانہ جنگی سے لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، عرب ممالک میں دسمبر 2010 ء کے بعد انقلاب کے نام پر حکومتوں کے خلاف ایک نئی عوامی مہم شروع ہوئی  جس نے تیونس سمیت کئی ممالک میں کئی سال سے قائم حکومتوں کو ختم کر دیا۔ یہ انقلابی تحریک جنہیں ابتدائی طور پر عرب بہار کا نام دیا گیا تھا دسمبر 2010 ء میں شروع ہوئی  جب تیونس کے ایک گریجوئیٹ نوجوان محمد بو عزیزی نے بے روزگاری اور ملک کی بدحالی کے باعث خود کو آگ لگا دی تھی،  وہ کئی سال تک نوکری تلاش کرنے میں ناکام ہونے کے بعد پھلوں کا ٹھیلہ لگا کر گزر سفر کر رہا تھا،  مگر پولیس نے ان سے ٹھیلے لگانے کی بھی رشوت مانگی تھی، یہ نوجوان واقعے کے چند روز بعد ہسپتال میں دم توڑ گیا تھا اور ان کے مرنے کے بعد ہی عرب بہار یا انقلاب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

عرب انقلاب کی وجہ سے ہی کئی سال سے حکومت کرنے والے لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا  اور اب تک لیبیا میں خانہ جنگی جاری ہے۔ اسی انقلاب اور بغاوت نے لیبیا، تیونس اور مصر کے بعد شام کا رخ کیا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ وہاں پر بھی حکومت پر کئی سال سے قابض بشار الاسد سے عوام کو چھٹکارہ مل جائے گا،  تاہم بشار الاسد کو روس اور ایران جیسے ممالک کے تعاون سے معاملہ مزید گمبھیر بن گیا۔ شام میں گزشتہ 8 سال سے جاری خانہ جنگی کے باعث اب تک لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں افراد اپنا گھر چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں  اور شام کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، تاہم شامی خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

جنگوں سے انسانوں نے بربریت، بھوک اور بیماریاں دیکھی ہیں

جنگوں سے انسانوں نے بربریت، بھوک اور بیماریاں دیکھی ہیں

عرب انقلاب، بغاوت اور خانہ جنگی کے شکار ممالک میں یمن بھی شامل ہے۔

No comments.

Leave a Reply