انسانی رشتوں کی حقیقت

انسانی رشتے لوہے سے زیادہ مضبوط بھی ہوتے ہیں اور شیشے سے زیادہ نازک بھی

انسانی رشتے لوہے سے زیادہ مضبوط بھی ہوتے ہیں اور شیشے سے زیادہ نازک بھی

نیوز ٹائم

بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے اور انسانی تعلقات کی سب سے بڑی حقیقت ان کی نازکی، کمزوری اور ناپائیداری ہے۔ انسانی رشتوں پہ غور کرتا ہوں تو عجیب سا احساس ہوتا ہے کیونکہ انسانی رشتے لوہے سے زیادہ مضبوط بھی ہوتے ہیں اور شیشے سے زیادہ نازک بھی یعنی نہایت آسانی سے لمحوں کے لمحوں میں ٹوٹ جانے والے۔ اس دارالفنا میں ہر شے فنا ہوتی، اپنے رنگ بدلتی، مٹی میں ملتی اور پھر سے جنم لیتی ہے۔ درختوں کی ٹہنیوں پر سجے ہوئے خوبصورت پھول مرجھاتے اور پھر بکھر کر مٹی میں مل جاتے ہیں اور پھر اِسی مٹی کی زرخیزی سے اسی پودے کی ٹہنیاں اسی طرح کے خوبصورت پھولوں سے بھر اور سج جاتی ہیں۔ ہم ان کی خوبصورتی سے متاثر ہوتے اور ان کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں لیکن ان کی نازکی، غیر پائیداری اور فانی ہونے پر غور نہیں کرتے۔ مرجھاتے پھول، درختوں سے گرتے خزاں رسیدہ پتے اور فکر و قدرت کے ان گنت مظاہر ہمیں یہ راز سمجھاتے اور پیغام دیتے ہیں کہ دنیا میں کسی شے کو بھی بقا نہیں، کسی کو بھی دوام نہیں لیکن انسان کی اپنی فطرت ہے کہ وہ زندگی کے نشے میں مست اور گم رہتا ہے اور قدرت کے بدلتے رنگوں اور پرفریب انداز پر غور نہیں کرتا حالانکہ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ خود انسان بھی وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

اِسی طرح انسانی رشتے، انسانی تعلقات بھی رنگ و انداز بدلتے رہتے ہیں۔ دوستی اور تعلق مضبوط ہو تو لوہے سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے، لوگ یک جان دو قالب ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو دیکھے بغیر اور آواز سنے بغیر تسلی نہیں ہوتی اور پھر محض ایک ذرا سی بات پہ یوں بچھڑتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو جانتے نہیں، پہچانتے نہیں۔ سچ ہے کہ زبان نہایت ہلکی اور بے وزن شے ہے لیکن اِس سے نکلا ہوا لفظ اتنا بھاری اور خنجر کی دھار کی مانند تیز ہوتا ہے  کہ اسے بڑے بڑے سخت جان اور طاقتور پہلوان بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے فقروں کی چٹانوں کے نیچے انسانوں کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا ہے، لفظوں کی تلوار سے انسانوں کو لہولہان ہوتے دیکھا ہے، وقت، اقتدار، دولت، شہرت، اقتدار کی قربت اور اہمیت کی خود فریبی سے لوگوں کو بدلتے اور نئے روپ دھارتے دیکھا ہے، دہائیوں اور برسوں پرانی دوستی و دیرینہ تعلقات اور خونی رشتوں کو ٹوٹتے بھی دیکھا ہے، فاصلوں کا شکار ہوتے بھی دیکھا ہے، محبت کی گرمی کو سرد مہری میں بدلتے بھی دیکھا ہے، ایک دوسرے کی آنکھوں میں بسنے والوں کو ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے بھی دیکھا ہے اور محبت کے رشتوں کو، خون کے بندھنوں کو دشمنی میں بدلتے بھی دیکھا ہے۔

اِسی لئے عرض کرتا ہوں کہ انسانی تعلقات اور انسانی رشتوں سے زیادہ کوئی شے نہ پائیدار، کمزور اور نازک نہیں۔ ہاں وہ رشتے لوہے سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جن میں ایثار پایا جاتا ہے۔ ایثار وسیع تر معنوں اور مفہوم میں، ایثار وسیع ظرف، قدر و منزلت، برداشت، بے لوث چاہت کے معنوں میں۔  چونکہ میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر رشتے اور تعلقات انا کے ٹکرائو اور انا کے باہمی تصادم سے ٹوٹتے ہیں۔ اختلاف، غلط فہمی، بدمزگی یا تلفی کی صورت میں معذرت کر لی جائے تو عام طور پر معاملہ صاف ہو جاتا ہے، دل چاہے صاف ہو یا نہ ہو۔ اسی لئے وسیع الظرفی کی بات کرتا ہوں کہ اگر ظرف وسیع ہے تو معذرت کے بعد دل بھی صاف ہو جاتا ہے اور قلب کے آئینے میں ابھرنے والا بال یا لکیر بھی نکل جاتی ہے لیکن اگر انسان بہت بڑی انا کا اسیر ہے، انا کی وسیع سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہے تو اس کے لئے برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی عزت، بے عزتی اور اپنی ذات کی عظمت کے پیمانے اور معیار اس قدر بلند ہوتے ہیں کہ وہ عام طور پر ایثار کے نور سے محروم ہوتا ہے، برداشت اور معاف کرنے کے جذبات سے عاری ہوتا ہے چنانچہ وہ انتقام لئے بغیر سکون نہیں پاتا، نہ چین سے بیٹھتا ہے۔ اسی انا کو صوفی نفس امارہ کہتے ہیں کیونکہ نفس امارہ انسان کو انتقام پہ ابھارتا اور معاف کرنے کی خصلت سے محروم کر دیتا ہے۔

سچ یہ ہے کہ زیادتی کے بعد معذرت کرنے سے انسان کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معذرت کرنے والا انسان اپنے تعلقات اور رشتوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ میرے نزدیک جو انسان معذرت کی خوبی سے محروم ہو وہ سخت دل ہوتا ہے، سخت دل انسان اپنی فطرت میں سنگ دل ہی نہیں ظالم بھی ہوتا ہے۔ ظلم صرف کسی کو قتل کرنا ہی نہیں، کسی کو مارنا پیٹنا مجروح کرنا یا کسی کا خون بہانا ہی نہیں بلکہ کسی کے جذبات پر ہتھوڑے چلانا، کسی کو ذلیل و رسوا کرنا، تمسخر اڑانا اور بہتان لگانا بھی ظلم ہی ہے۔  کچھ مظالم کی سزا اگلے جہان میں ملے گی اور کچھ کا حساب اپنی زندگی ہی میں بے باق ہو جاتا ہے۔ میری آنکھیں ان مناظر کی شاہد ہیں۔

میں نے عام طور پر رشتوں کو انائوں کے تصادم میں ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے۔ ضد انا کی سلطنت کا ایک اہم ستون ہے۔ ضد عقل کے زعم سے جنم لیتی ہے۔ عقل کے زعم، وہم، گمان اور حسن ظن میں وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جنہیں خوشامدی اور درباری اس فریب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مستقبل پر یقین اللہ تعالی کے کرم سے جنم لے تو رحمت ہے لیکن اگر اپنی ذات کی صفات کا شاخسانہ ہو تو جہالت ہے۔  انسان بے شمار ڈگریوں کے حصول کے باوجود جاہل ہو سکتا ہے کیونکہ ہر وہ انسان جو دنیاوی علوم کا ماہر ہو لیکن فطرت کے سادہ اور عام قوانین سے نابلد اور نا آشنا ہو، جاہل کہلانے کا حق دار ہے اور اس کا علم اسے بہکا دیتا ہے، پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں کوئی سائنسدان کائنات کو مسخر کرتا ہے، ایجادات کے ذریعے قدرت کے راز سمجھتا اور فاش کرتا ہے، توں توں فطرت کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔  اسی طرح جوں جوں کوئی فلاسفر یا شاعر کائنات کی بلندیوں اور عظمتوں کا سفر کرتا ہے، غور و فکر سے عقیدے کھولتا ہے، انسانی فطرت یا باطن کے سمندر میں اترتا ہے اور ظاہر میں سچائیوں کا سراغ لگاتا ہے، وہ قدرت اور فطرت کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ جو علم اس راہ پر نہیں چلاتا، فطرت پر غور و فکر کے دریچے نہیں کھولتا، وہ علم نہیں بلکہ وہ کتابوں اور معلومات کا بوجھ ہے، جسے وہ اٹھائے پھرتا ہے اور عالم و فاضل ہونے کے زعم میں مبتلا رہتا ہے۔

ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ انسانی رشتے اور انسانی تعلقات نازک ترین شے ہیں اور انہیں مضبوط بنانے، قائم رکھنے اور نبھانے کے لیے ایثار پہلی شرط ہے۔ جب دونوں طرف انائوں کا راج ہو، ضد کی حکمرانی ہو اور صرف خود کو سچا سمجھنے اور عقلِ ہونے کا یقین ہو تو تعلقات اور رشتے انائوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایثار دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی کنجی ہے۔

No comments.

Leave a Reply