سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان۔ خصوصی تحریر

آج سے ٹھیک 500 سال قبل 1517ء میں خلافتِ عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا

آج سے ٹھیک 500 سال قبل 1517ء میں خلافتِ عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا

نیوز ٹائم

 آج سے ٹھیک 500 سال قبل 1517ء میں خلافتِ عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا۔ Zahir-ud-din Muhammad Babar کو اچھی طرح احساس تھا کہ اس کی فوج دشمن کے مقابلے پر 8 گنا کم ہے، اس لیے اس نے ایک ایسی چال چلی جو ابراہیم لودھی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس نے Panipat کے میدان میں عثمانی ترکوں کا جنگی حربہ استعمال کرتے ہوئے چمڑے کے رسوں سے 700 بیل گاڑیاں ایک ساتھ باندھ دیں۔ ان کے پیچھے اس کے توپچی اور بندوق بردار آڑ لیے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں توپوں کا نشانہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا کرتا تھا لیکن جب انھوں نے اندھا دھند گولہ باری شروع کی تو کان پھاڑ دینے والے دھماکوں اور بدبودار دھویں نے افغان فوج کو حواس باختہ کر دیا اور اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر جس کا جدھر منھ اٹھا، ادھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔

عثمانی تحفہ:

یہ Panipat کی پہلی لڑائی تھی اور اس کے دوران ہندوستان میں پہلی بار کسی جنگ میں بارود استعمال کیا گیا۔ 50 ہزار سپاہیوں کے علاوہ Ibrahim Lodhi کے پاس ایک ہزار جنگی ہاتھی بھی تھے لیکن سپاہیوں کی طرح انھوں نے بھی کبھی توپوں کے دھماکے نہیں سنے تھے،  اس لیے Pores کے ہاتھیوں کی تاریخ دہراتے ہوئے وہ جنگ میں حصہ لینے کی بجائے دم دبا کر یوں بھاگ کھڑے ہوئے کہ الٹا Lodhi کی صفیں تتر بتر کر دیں۔ Babar کے 12 ہزار تربیت یافتہ گھڑسوار اسی لمحے کا انتظار کر رہے تھے، انھوں نے برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے Lodhi کی فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کچھ ہی دیر بعد Babar کی فتح مکمل ہو گئی۔ Paul K. Davis (historian) نے اپنی کتاب 100 فیصلہ کن جنگیں میں اس جنگ کو تاریخ کی سب سے فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ عثمانی جنگی حربے کے علاوہ اس فتح میں دو ترک Ustad Ali اور Mustafa نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ انھیں ایک اور عظیم سلطنت یعنی سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے Khalifa Selim I نے ب Babar کو بطور تحفہ عنایت کیا تھا۔ دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں میں سے ایک سلطنتِ عثمانیہ کی داغ بیل Usman Ghazi نے 13ویں صدی میں ڈالی تھی۔ اس زمانے میں بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور Anatolia متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ 1254ء میں پیدا ہونے والے Usman Ghazi ان میں سے ایک چھوٹی سی State sugut کے ترک سردار تھے۔ تاہم انھوں نے ایک دن ایک ایسا خواب دیکھا جس نے تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔

عثمان کا خواب:

برطانوی مورخ aroline Franklin نے اپنی کتاب عثمان کا خواب میں لکھا ہے کہ ایک رات عثمان ایک بزرگ Sheikh Idibali کے گھر میں سو رہے تھے  کہ انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے سینے سے ایک درخت اگ کر ساری دنیا پر سایہ ڈال رہا ہے۔ انھوں نے جب شیخ کو خواب سنایا تو انھوں نے کہا: ‘ Usman ، میرے بیٹے، مبارک ہو، خدا نے شاہی تخت تمھارے  اور تمھاری اولاد کے حوالے کر دیا ہے۔  اس خواب نے Usman Ghazi کے لیے Campaigns کا کام کیا کیونکہ وہ سمجھنے لگے کہ اب انھیں خداوندی تائید حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے آس پاس کی Saljuq اور ترکمان ریاستوں، اور بالآخر Byzantines کو پے در پے شکستیں دے کر Anatolia کے بڑے حصے پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔ یہی خواب بعد میں  6 صدیوں تک راج کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ کا بنیادی جواز اور اسطورہ بن گیا جس کے سائے میں انھوں نے نہ صرف Anatolia ہ بلکہ تین براعظموں کے بڑے حصوں پر صدیوں تک حکومت کی۔ Usman Ghazi کے جانشینوں نے جلد ہی اپنی نظریں یورپ پر جما دیں۔ 1326ء میں انھوں نے یونان کا دوسرا بڑا شہر Thessalonikiنیکی فتح کر لیا، جبکہ 1389ء میں وہ سربیا پر قابض ہو گئے۔ لیکن ان کی تاریخ ساز کامیابی 1453ء میں Byzantine دارالحکومت Qusṭanṭīniyya (موجودہ استنبول) کی فتح تھی۔مسلمان پچھلے 700 برسوں سے اس شہر پر قبضہ کرنے کی کوششیں کرتے چلے آئے تھے لیکن اس کا جغرافیہ کچھ ایسا تھا کہ وہ ہر بار ناکام رہے۔ Qusṭanṭīniyya کو تین طرف سے Bosphorus نے گھیرے میں لیا ہوا ہے جو اس کے لیے شہر پناہ کا کام کرتا ہے۔ Byzantines نے Golden Horn کو زنجیریں لگا کر بند کر رکھا تھا جبکہ دوسری جانب ان کے 28 جنگی جہاز پہرے پر مامور تھے۔

22 اپریل 1453ء کو Ottoman Sultan Muhammad Al-Fatih نے ایک ایسی چال چلی جو کسی کے وہم  و گمان میں بھی نہ تھی۔  انھوں نے خشکی پر تختوں کی شاہراہ تیار کی اور اس پر تیل اور گھی ڈال کر اسے خوب پھسلواں بنا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے 80 بحری جہاز اس راستے پر مویشیوں کی مدد سے گھسیٹ کر دوسری طرف پہنچا دیے اور شہر کے حیرت زدہ محافظوں پر آسانی سے قابو پا لیا۔ Muhammad Al-Fatih نے اپنا دارالحکومت Qusṭanṭīniyya منتقل کر کے اپنے لیے Julius Caesar Rome کا خطاب اختیار کیا۔

پہلا عثمانی خلیفہ:

Muhammad Al-Fatih کے پوتے Khalifa Selim I کی نظریں کہیں اور تھیں۔ انھوں نے 1516ء اور 1517ء میں Egypt’s Mameluke کو شکست دے کر مصر کے علاوہ موجودہ عراق، شام، فلسطین، اردن، اور سب سے بڑھ کر حجاز پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت کا رقبہ دگنا کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی آج سے ٹھیک 500 سال قبل حجاز کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ حاصل کرنے کے ساتھ ہی Selim I مسلمان دنیا کے سب سے طاقتور حکمران بن گئے۔ عام تصور کے مطابق 1517ء ہی سے عثمانی خلافت کا آغاز ہوا، اور Selim I کو پہلا خلیفہ قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ان سے پہلے عثمانی سلطان یا بادشاہ کہلاتے تھے۔ Selim I کو عام طور پر پہلا عثمانی خلیفہ تصور کیا جاتا ہے۔

Maulana Abul Kalam Azad اپنی کتاب ‘Masala-e-Khilafat‘ میں لکھتے ہیں: ‘ Sultan Salim Khan اول کے عہد سے لے کر آج تک Ottoman sultans ترک تمام مسلمانان عالم کے خلیفہ و امام ہیں۔ ان چار صدیوں کے اندر ایک مدعی خلافت بھی ان کے مقابلہ میں نہیں اٹھا۔ حکومت کے دعوے دار سینکڑوں اٹھے ہوں، مگر اسلام کی مرکزی خلافت کا دعوی کوئی نہ کر سکا۔ مختصر عرصے میں یکے بعد دیگرے کامیابیاں حاصل کرنے کے دوران Selim I کا سب سے موثر جنگی ہتھکنڈا وہی تھا جو 10 سال بعد Zahir-ud-din Muhammad Babar نے Panipet میں آزمایا تھا، یعنی بارود۔

17ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کی حدود:  ہمایوں بنام خلیفہ:

Babar کے جانشین ہمایوں کو Ottomans کا یہ احسان یاد رہا۔ وہ Selim I کے بیٹے Salman Alishan کو ایک خط میں لکھتے ہیں:  ’رتب خلافت پر فائز عالی جناب، فلکِ عظمت کے ستون، اسلام کی بنیادوں کے رکھوالے سلطان کے لیے نیک تمنائیں۔ آپ کا نام مہرِ جاہ و منزلت پر کھدا ہوا ہے اور آپ کے دور میں خلافت نئی بلندیوں تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ کرے کہ آپ کی خلافت جاری و ساری رہے۔’ ہمایوں کے بیٹے اکبر نے عثمانیوں کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی، جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عثمانی، ایران کے صفوی حکمرانوں کے ساتھ مسلسل حالتِ جنگ میں تھے  اور اکبر صفویوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ البتہ ان کے جانشینوں Shahjahan اور Aurangzeb Alamgir کے Ottoman Sultans کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ان کے درمیان تحائف اور سفارتی وفود کا تبادلہ عام تھا اور وہ انھیں تمام مسلمانوں کا خلیفہ مانتے تھے۔ صرف مغل نہیں بلکہ دوسرے ہندوستانی حکمران بھی عثمانیوں کو اپنا خلیفہ سمجھتے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان سے بیعت لینا ضروری سمجھتے تھے۔

Tipu Sultan نے Mysore کا حکمران بننے کے بعد ایک خصوصی وفد Qusṭanṭīniyya بھیجا تھا تاکہ اس وقت کے Ottoman ruler Selim III سے اپنی حکمرانی کی تائید حاصل کر سکیں۔ Selim III نے Tipu Sultan کو اپنے نام کا سکہ ڈھالنے اور جمعے کے خطبے میں اپنا نام پڑھوانے کی اجازت دی۔ یہ الگ بات کہ انھوں نے Tipu Sultan کی طرف سے انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے فوجی امداد کی درخواست قبول نہیں کی،  کیونکہ اس وقت وہ خود روسیوں سے برسرِ پیکار تھے اور اس دوران وہ طاقتور انگریزوں کی دشمنی مول نہیں لے سکتے تھے۔

Salman Alishan کی زندگی پر مبنی Mera Sultan پاکستان میں بیحد شوق سے دیکھا گیا: Mera Sultan:

عثمانیوں نے ابتدا ہی میں یورپ کے کئی علاقے فتح کر لیے تھے۔ Salman Alishan ‘جن کے نام پر بننے والی ٹیلی ویژن سیریز Mera Sultan پاکستان میں بہت مقبول ہوئی تھی کے دور میں سلطنت اپنے فوجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی عروج پر پہنچ گئی۔ سلمان نے Belgrade اور Hungary فتح کر کے اپنی سرحدیں وسطی یورپ تک پھیلا دیں۔ تاہم دو بار کوشش کے باوجود Salman Alishan آسٹریا کے شہر ویانا کو فتح نہیں کر سکے۔ عثمانیوں نے دو بار ویانا کا محاصرہ کیا لیکن وہ شہر کو فتح کرنے میں ناکام رہے یورپ آگے نکل گیا یہ یورپ میں ‘ایج آف ڈسکوری’ یعنی دریافتوں کا دور تھا،  سپین، پرتگال، نیدرلینڈز اور برطانوی بحری بیڑے دنیا بھر کے سمندر کھنگال رہے تھے۔ براعظم امریکہ کی دریافت اور اس پر قبضے سے یورپ کو بقیہ دنیا پر واضح برتری حاصل ہو گئی اور انھوں نے جگہ جگہ اپنی نوآبادیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔

16ویں اور 17ویں صدیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ نے بقیہ دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جہاز رانی کی صنعت کے فروغ کی وجہ سے انھیں جہاز رانی کے لیے نت نئے آلات ایجاد کرنے اور انھیں بہتر بنانے کی ضرورت تھی جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں کو فروغ دیا۔دوسری چیز چھاپہ خانہ تھی، جس کی 1439ء میں ایجاد کے بعد یورپ میں علمی اور فکری انقلاب بپا ہو گیا۔ وہ علوم و فنون جن پر اس سے پہلے صرف اشرافیہ اور کلیسا کا اجارہ تھا، اب عام آدمی کی دسترس میں آ گئے۔ Columbus کی براعظم امریکہ میں آمد یورپ کی تاریخ کا اہم موڑ تھی جس سے وہاں علم و فن کا نیا دور شروع ہو گیا اگر عثمانی بھی پرنٹنگ پریس سے استفادہ شروع کر دیتے تو شاید آج دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ لیکن Sultan Fatih کے بیٹے Bayazid II نے 1483ء میں عربی رسم الخط میں کتابیں چھاپنے والوں کے لیے موت کی سزا مقرر کر دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ علما نے چھاپہ خانے کو فرنگیوں کی ایجاد کہہ کر فتوی دیا تھا کہ اس فرنگی ایجاد پر Qur’an یا عربی رسم الخط میں کتابیں چھاپنا مذہب کے خلاف ہے۔چنانچہ یورپ آگے بڑھتا چلا گیا، عثمانی سلطنت سال بہ سال سکڑتی چلی گئی حتی کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران انگریزوں نے ان سے Anatolia کے علاوہ تقریبا تمام علاقے چھین لیے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو اس کا بڑا دکھ ہوا کیونکہ وہ عثمانی خلیفہ کو اپنا مذہبی حکمران اور رہنما سمجھتے تھے۔ انھوں نے 1919ء میں Maulana Mohammad Ali اور Maulana Shaukat Ali کی قیادت میں تحریکِ خلافت شروع کی جس میں انگریزوں کو دھمکی دی گئی کہ اگر انھوں نے Khalifa Abdul Hameed کو معزول کرنے کی کوشش کی تو ہندوستانی مسلمان ان کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ اس تحریک میں Attaullah Shah Bukhari ، Hessrat Mohani ، Maulana Abul Kalam Azad ، Zafar Ali Khan ، Maulana Mahmud Hussain اور Hakim Ajmal Khan جیسے رہنما بھی شامل ہو گئے۔

No comments.

Leave a Reply