مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی آگ!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے  مشرقِ وسطی میں پہلے سے موجود کشیدگی کو ہوا دے کر ایک نئی جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطی میں پہلے سے موجود کشیدگی کو ہوا دے کر ایک نئی جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ہے

واشنگٹن   ۔۔۔  نیوز ٹائم

جرمن ڈکٹیٹر ہٹلر نے یہودیوں پر جو مظالم ڈھائے، دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر سامراجی اتحادیوں نے اس کا بدلہ ہم مذہب جرمنی سے لینے کے بجائے مسلمانوں کو اپنے بغض کا نشانہ بنایا  اور انبیاء کی سرزمین فلسطین کے سینے میں اسرائیل کا خنجر گھونپ کر یہودیوں کی ناجائز مملکت قائم کی۔  یہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں منتقل کر کے انہیں عرب ممالک کے خلاف لا کھڑا کیا۔

1967 کی جنگ میں اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی سے فلسطین، مصر، شام اور لبنان کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ ان میں شام میں گولان کی پہاڑیاں بھی شامل تھیں۔ مصر اور لبنان نے بعد میں کسی نہ کسی طور اپنے علاقے بازیاب کرا لئے مگر یروشلم (بیت المقدس) ویسٹ بینک اور گولان اسرائیل کے پاس ہی رہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جن کی مسلم دشمنی اب ساری دنیا پر عیاں ہو رہی ہے،  پہلے اسرائیل کا دارالحکومت بیت المقدس منتقل کرنے کی منظوری دی اور اب گولان کے پہاڑی علاقے کو اسرائیل کا باقاعدہ حصہ قرار دے دیا۔ اس طرح انہوں نے مشرقِ وسطی میں پہلے سے موجود کشیدگی کو ہوا دے کر ایک نئی جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔  یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ایک ملک اپنی طاقت کے بل بوتے پر کسی دوسرے ملک کے علاقے کو ایک تیسرے ملک کے حوالے کر رہا ہے جس کا اسے قطاً کوئی قانونی یا اخلاقی اختیار نہیں۔

سعودی عرب، ترکی، ایران، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور بحرین نے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے گولان پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیا  اور کہا ہے کہ ٹرمپ کا اقدام اقوامِ متحدہ کے منشور، امریکی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ترکی نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی واضح کیا ہے کہ گولان کے معاملے میں ٹرمپ کے اعلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، مشرقِ وسطی کی یہ صورتحال عالمِ اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے اور اسرائیلی یلغار کو روکنے کی تدابیر کرنا چاہئیں۔

No comments.

Leave a Reply