تھریسامے کا بریگزٹ مذاکرات کے اگلے مرحلے سے قبل مستعفی ہونے کا عندیہ

برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے

برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے بریگزٹ مذاکرات کے اگلے مرحلے سے قبل مستعفی ہونے کا عندیہ دے دیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تھریسا مے نے قدامت پسند جماعت کے رکن پارلیمنٹ کو اپنے مستعفی ہونے سے متعلق آگاہ کیا۔ صحافیوں چیت کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ James Cartlidge نے بتایا کہ وزیر اعظم تھریسا مے نے اگلے مرحلے سے متعلق مزید تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔ James Cartlidge کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے روانہ ہونے سے قبل تھریسا مے نے واضح کیا کہ بریگزٹ مذاکرات کے اگلے مرحلے سے پہلے وہ منصب پر فائز نہیں رہیں گی۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے وسط میں برطانیہ نے پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو دوسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کر دیا تھا۔ برطانوی دارالعوام میں نظرثانی شدہ بریگزٹ معاہدے کے حق میں 242 ووٹ، جبکہ مخالفت میں 391 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس سے قبل جنوری میں تھریسا مے کے دستبرداری کے معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا تو اسے 230 ووٹ کے تاریخی مارجن سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ تھریسا مے، یورپی یونین سے کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے پر قائم ہیں  جو یورپی یونین سے علیحدگی کا واحد حل تصور کیا جاتا ہے، جس کے لیے انہوں نے اپنے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یورپی یونین سے کیے گئے معاہدے کو مسترد کیے جانے کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے، جن کے تحت برطانیہ یورپی یونین سے کسی معاہدے کے بغیر علیحدہ ہو گا یا پھر بریگزٹ ہی نہیں ہو گا۔ یورپی یونین اراکین نے برطانیہ کو علیحدگی کے لیے دو ڈیڈ لائن دی گئی تھیں  اور 22 مئی تک بریگزٹ پر عملدرآمد کے لیے وقت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے اراکین پارلیمنٹ کو لکھے گئے خط کے باوجود تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔

بریگزٹ معاہدہ:

 واضح رہے کہ 2016 ء میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر عملدرآمد اب سے چند ہفتوں بعد ہو گا۔ جولائی 2016 ء میں وزیر اعظم بننے والی تھریسا مے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کر لیں۔اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔

مارچ 2017 ء میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنمائوں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔ چند دن قبل ہی بریگزٹ کے حوالے سے تازہ ووٹنگ میں تھریسا مے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی  جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیر اعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبر پارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ تاہم تھریسا مے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسا مے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کر دیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973ء میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہو چکا ہو گا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہو سکے گا۔

No comments.

Leave a Reply