زلمے خلیل زاد، اشرف غنی اور مودی سرکار

افغانستان کے مصالحت کے لئے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد

افغانستان کے مصالحت کے لئے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد

نیوز ٹائم

پنجابی کا ایک محاورہ غصے کی اس صورت کا ذکر کرتا ہے جو گدھے پر سے گرنے کی وجہ سے کمہار پر اتارا جاتا ہے۔ افغانستان کے صدر ان دنوں ویسے ہی غصے کا شکار ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے انہیں اعتماد میں لئے بغیر افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا بظاہر اعلان کر دیا۔  زلمے خلیل زاد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس کی خواہش پورا ہونے کی راہ نکالے۔ طالبان سے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہو گیا۔ ان مذاکرات کے ابتدائی ایام میں زلمے خلیل زاد نے اشرف غنی کو تسلی دیتی گفتگو میں مصروف رکھا۔ طالبان کے ساتھ اس کے مذاکرات کسی حتمی سمجھوتے کی طرف بڑھنے لگے تو ممکنہ بندوبست کی تفصیلات کا بل انتظامیہ سے Share نہ ہوئیں۔ خود کو نظرانداز کئے جانے پر مشتعل ہوئے افغان صدر نے اپنے مشیر برائے قومی سلامتی کو گلے شکوے کرنے واشنگٹن بھیجا۔

امریکی حکام سے ابھی اس کی ملاقات طے بھی نہیں ہوئی تھی تو صحافیوں اور امریکی افغان ماہرین کے ساتھ ہوئے ایک ڈنر میں اس مشیر نے برسرِ عام احتجاجی گفتگو فرما دی۔ جوشِ خطابت میں موصوف نے زلمے خلیل زاد پر یہ الزام بھی لگا دیا کہ وہ افغانستان کا وائسرائے بننے کی کوشش کر رہا ہے۔  ٹرمپ انتظامیہ اس کے خطاب سے ناراض ہو گئی۔ اسے وزراتِ خارجہ میں طلب کر کے ڈانٹ ڈپٹ ہوئی۔اس کے بعد امریکی حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ کابل انتظامیہ کو صاف الفاظ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ آئندہ صدر غنی کے مشیر برائے قومی سلامتی سے امریکی حکام ملاقاتیں نہیں کریں گے۔ سفارتی روایات کے حوالے سے یہ ایک تضحیک آمیز اعلان تھا۔ اس نے اشرف غنی کے ان خدشات کی برسرِ عام تصدیق کر دی کہ ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ طالبان اپنی جگہ بضد ہیں کہ وہ امریکہ کی کٹھ پتلی اور مسلط کردہ کابل انتظامیہ سے ہرگز بات چیت نہیں کریں گے۔

زلمے خلیل زاد کے ساتھ وہ بحیثیت ایک فریق نہیں بلکہ امارت اسلامی کی حیثیت میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ نظر بظاہر ٹرمپ اور زلمے خلیل زاد کو اس Posturing سے کوئی مسئلہ نہیں۔ مزید تفصیلات میں جائے بغیر مختصر ترین الفاظ میں یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے مستقبل کا نقشہ بنانے کے ضمن میں اشرف غنی کو کھڈے لائن لگا دیا ہے۔ پاکستان کا براہِ راست اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ زلمے خلیل زاد کے ساتھ طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لئے پاکستان کا تعاون ضروری تھا۔ بغیر کوئی بڑھک لگائے ہماری جانب سے یہ تعاون کماحقہ فراہم ہو گیا۔اس تعاون کو سراہے جانے کی رسید امریکی صدر نے ازخود حال ہی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جاری کر دی ہے۔

مناسب یہی تھا کہ طالبان کی زلمے خلیل زاد کے ساتھ مذاکرات میں ہوئی پیشرفت کے حوالے سے ہم اپنی خاموشی برقرار رکھتے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے مگر چند روز قبل پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں عارضی حکومت قائم ہونے کی امید کا ظہار کر دیا۔ اشرف غنی نے اسے محض پاکستان کی توقع نہیں بلکہ “Dictation” قرار دیتے ہوئے تلملاہٹ کا اظہار شروع کر دیا۔ احتجاجاً اپنے اسلام آباد میں مقیم سفیر کو بھی صلاح مشورے کے بہانے کابل بلا لیا۔ ڈاکٹر اشرف غنی ایک متلون مزاج شخص ہیں۔ افغانستان کے بارے میں خبر رکھنے والے کئی امریکی اور یورپی صحافیوں نے بارہا دعوی کیا کہ امریکی حکام نے انہیں افغانستان کا صدر بنوانے میں مدد دینے سے قبل ان کے لئے “Anger Management”کے کورسز کا اہتمام بھی کیا تھا۔

پاکستان کے وزیر اعظم کی بے ساختگی میں بتائی امید کے بارے میں مگر اشرف غنی نے اس انداز میں ردعمل دیا کہ زلمے خلیل زاد بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے ضمن میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے بھی وزیر اعظم عمران خان سے شکوہ کرتا سنائی دیا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی اشرف غنی سے شدید اختلافات رکھنے کے باوجود شکوہ کنائی میں شامل ہو گیا۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود افغانستان کے غیر طالبان عناصر یکسو ہو کر قوم پرست ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم کی امید کو ڈکٹیشن کے طور پر اچھالتے ہوئے افغانستان کے شہری متوسط طبقے اور خاص طور پر خواتین کے ان گروہوں کے دل جیتنے کی کوشش ہو رہی ہے جو طالبان کے ممکنہ طور پر اقتدار میں لوٹنے کے امکان سے شدید گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کو طالبان مخالف سیاستدان اور دیگر حلقے تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نظر نہیں آ رہے کہ 17 برس کی بھرپور جنگ اور اربوں ڈالر کے خرچ کے بعد طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے ایما پر نہیں کیا ہے۔

اگست 2016ء میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بلکہ پاکستان کو Do More کے لئے قائل کرنے کو انتہائی سخت زبان استعمال کی۔ بھارت کو اس خطے کا تھانے دار تسلیم کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ مذکورہ پالیسی کے اعلان سے قبل اپنے ٹویٹس کے ذریعے صدر ٹرمپ وقتاً فوقتاً پاکستان کو برا بھلا کہتا رہا۔ شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمی کے دوران سیاسی اور عسکری قیادت نے باہم مل کر بڑی بردباری سے اس کے دھمکی بھرے ٹویٹس کو نظرانداز کیا۔ خاموش سفارت کاری پر توجہ دیتے ہوئے ٹرمپ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔

 طالبان اور امریکہ کے مابین جاری مذاکرات کے اس نازک مرحلے پر پاکستان کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بردبار خاموشی برقرار رکھنا ہو گی۔ طالبان کو مذاکرات کی میز تک پہنچانے میں مدد دینے کے بعد ہمارا رویہ واضح طور پر اب امریکہ جانے اور افغان معاملات والا ہونا چاہیے۔ اشرف غنی اور دیگر افغان رہنمائوں کو بے ساختہ ریمارکس کے ذریعے یہ جواز فراہم نہیں کرنا چاہیے کہ وہ امریکہ کی جانب سے نظراندز کئے جانے کی وجہ سے کھولتے غصے کو پاکستان پر مبذول کر دے۔ افغان قوم پرستی کے بہانے پاکستان کو مورودِ الزام ٹھہرانے کا سلسلہ چل پڑا تو بھارت آگ کو بھڑکانے میں ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ چند ہی روز قبل لکھے ایک کالم میں تفصیل سے عرض کر چکا ہوں کہ زلمے خلیل زاد سے فقط اشرف غنی ہی ناراض نہیں۔ مودی سرکار بھی طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات میں ہوئی پیشرفت سے کافی خفت محسوس کر رہی ہے۔

No comments.

Leave a Reply