کیا پاکستان کا مستقبل خانہ جنگی ہے؟

سابق امریکی صدر کے مشیر بروس ریڈل کی پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے ان کی ایک کتاب ڈیڈلی ایمریس

سابق امریکی صدر کے مشیر بروس ریڈل کی پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے ان کی ایک کتاب ڈیڈلی ایمریس

نیوز ٹائم

امریکہ میں بروکنگ انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک دنیا بھر میں مانا جاتا ہے۔ اس ادارے میں مختلف امور کے ماہرین اپنی رائے دیتے ہیں۔ مقالے لکھتے،  بحث کرتے اور مستقبل کے بارے میں نتیجے اخذ کرتے ہیں۔ اس تھنک ٹینک میں سابق امریکی صدر کے مشیر Bruce Riedelبھی کام کرتے ہیں۔ Bruce Riedelچار سابق امریکی صدور بش سینئر، بل کلنٹن، بش جونیئر اور اوباما کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔  یہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے میں جنوبی ایشیا اور دہشتگردی کے امور کی مختلف حیثیتوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ یہ صاحب پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران کے متعدد دورے کر چکے۔ ان ممالک اور ان کے مسائل کو خوب جانتے ہیں۔ آج کل ریٹائرمنٹ کے بعد بروکنگ انسٹیٹیوٹ میں لکھنے پڑھنے اور سوچ و بچار کا کام کرتے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان کی رائے کو امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں بڑے غور سے سنا جاتا ہے۔ Bruce Riedelسے پہلا جامع تعارف ان کی کتاب The Search for Al.Qaeda کے ذریعے ہوا تھا۔ میرے خیال میں القاعدہ اور طالبان کے اہم رہنمائوں کی زندگیوں سے متعلق اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں  جو معلومات کے خزانے اور تجزئیے کی مہارت کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں دنیا بھر میں دہشتگردی کے مسئلے کے حل کے لیے بروس ریڈل نے چند سفارشات بھی مرتب کیں۔ ان سفارشات میں Bruce Riedelنے امریکہ پر زور دیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن کے مستقل قیام کے لیے مسئلہ کشمیر حل کرے جبکہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے فلسطین کا مسئلہ بھی حل کیا جائے۔ Bruce Riedelکو عام طور پر پاکستان کا ناقد کہا جاتا ہے مگر انہوں نے کتاب میں وہ سفارشات کیں جو پاکستان کے دیرینہ مطالبات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے ان کی ہی ایک کتاب Deadly Embrace اور پھر ایک اور کتاب Avoiding Armageddon, America, India and Pakistan to the Brink and Back بھی مارکیٹ میں آئیں۔  پاکستان کے معاملات کو عالمی نظر سے دیکھنے کے لیے یہ کتب بڑی معلومات اور تجزئیے کی حامل ہیں۔ کہتے ہیں آپ جو تلاش کرتے ہیں آپ کو وہی ملتا ہے۔ اگر تلاش درست رکھیں تو آپ کو راستہ اور روشنی ضرور ملتی ہے۔ جو لوگ ہر وقت سازش اور بے ایمانی کی طاق میں رہتے ہیں انہیں کتابوں اور معلومات سے بھی سازش اور بے ایمانی کی بو ہی آتی ہے اور وہ یہ بو حاصل کر کے پہلے سے گندہ ماحول کو مزید آلودہ کرتے رہتے ہیں۔

ہمارے ٹی وی چینلز پر بیٹھے اکثر افلاطون اسی بیماری کا شکار ہیں۔ جو لوگ تحریروں سے گیان تلاش کریں تو انہیں گیان ہی ملتا ہے۔ باقی مرضی آپ کی ہے آپ تلاش کیا کرتے ہیں اور آپ کی منزل کیا ہے کیونکہ تلاش منزل سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ کچھ سال پہلے Bruce Riedelنے اوپر درج کتاب میں لکھا تھا کہ، پاکستان نے اپنا وتیرہ نہ بدلا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتہا پسندوں کے باعث امن عامہ کے شدید مسائل بھی آئیں گے اور یہ وہ وقت ہو گا کہ دنیا کے کسی ملک کا ائیرپورٹ اور بندرگاہ پاکستان کے کسی پڑھے لکھے شخص کو بھی قبول نہیں کرے گا اوریہ ملک خانہ جنگی کی سی کیفیت کا شکار ہو جائے گا۔

Bruce Riedelکی اس بات کو میں نے قابل اعتنا نہ سمجھا مگر دماغ کے کسی کونے میں یہ بات اٹک ضرور گئی۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے اور اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی تیاری اور عملدرآمد کے مختلف مراحل کو رپورٹ کرتے اکثر یہ بات مجھے یاد آتی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان پر 8 مختلف عسکریت پسند جماعتوں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا  اور پھر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تو ایک بار پھر سی آئی اے کے بوڑھے یہودی کی بات میرے دماغ میں کسی ہتھوڑی کی طرح لگی۔ گرے کا مطلب خطرہ اور بلیک لسٹ کا مطلب ہم جیسے ملک کے لیے تباہی ہے۔  اگر پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے انڈیکس میں بلیک لسٹ قرار دے دیا جاتا ہے  تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان اپنے ملک کی تیار کردہ اجناس کو بیرون ملک برآمد کرنے میں شدید مشکلات کا شکار ہو گا۔ جو کنٹینر ایک ہفتے میں بیرون ملک بھیجا جاتا ہے اسے کلیئرنس میں مہینوں لگیں گے۔ بیرونی دنیا پاکستان سے بینکنگ رابطہ ختم کر دے گی۔ روپیہ بے وقت اور ڈالر مزید مہنگا ہو جائے گا۔ ہم پتھر کے زمانے میں دھکیل دیئے جائیں گے۔

اگر کسی کو کوئی شک ہے تو وہ جان لے کہ پاکستان کی وہ حالت ہو جائے گی جو ایران اور شمالی کوریا کی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بلیک لسٹ قرار دیئے گئے ہیں۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ اس معاملے پر وزیر اعظم عمران خان آئے روز اجلاس کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس معاملے پر کڑے فیصلے کرنے کی ٹھانی تو ایک اجلاس کی اخباری خبر ان کے خلاف، ”ڈان لیکس اسکینڈل” بنا دی گئی تھی۔  آج کی خبر ہے کہ ہمارا ایشیا پیسفک گروپ نے جائزہ لے لیا ہے بلیک لسٹ میں ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فیصلہ جون میں آ جائے گا۔ خدا خیر کرے۔  پچھلے دنوں کسی دفتری کام کے باعث اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز سے جامعہ حفصہ میں ملنا ہوا۔ ملاقات میں ان کے ترجمان حافظ احتشام اور میرے دوست امریکہ سے کائونٹر انسرجنسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل اسفندیار میر بھی موجود تھے۔ مولانا نے تازہ ترین ملکی صورتحال پر اپنے انداز میں تبصرہ کیا۔ آخر میں ان سے پوچھا، جناب آپ پاکستان کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟ مولانا جھٹ سے بولے، خانہ جنگی۔ مولانا کی بات سن کر مجھے ایک بار پھر بوڑھے یہودی بروس ریڈل کی بات یاد آ گئی۔ مولانا اور Bruce Riedelمیں زمین و آسمان کا فرق مگر دونوں کا تجزیہ یکساں ہے۔ آخر کیوں ؟

No comments.

Leave a Reply