پاکستان میں معیشت کی تباہی کہاں جا کر رکے گی؟

مالیاتی وزیر اسد عمر کی قیادت میں پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے وفد سے ملاقات

مالیاتی وزیر اسد عمر کی قیادت میں پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے وفد سے ملاقات

نیوز ٹائم

بالاخر آئی ایم ایف کی تمام شرائط باضابطہ طور پر من و عن تسلیم کر لی گئی ہیں۔ اگر کچھ کسر رہ گئی ہے تو وہ ان شرائط پر عملدرآمد سے متعلق ہے۔ مثلاً آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کا اختیار حکومت کے پاس علامتی طور پر بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا اختیار اسٹیٹ بینک کے پاس ہونا چاہیے تاکہ آئی ایم ایف جب چاہے اور جتنا چاہے روپے کی بے قدری کر کے پاکستانی معیشت کو دھچکا پہنچا سکے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ سرکار آپ جب چاہیں گے اور جتنا چاہیں گے، ہم روپے کو اتنا ہی بے قدر کر دیں گے۔ فی الحال تو یہ اختیار حکومت کے پاس رہنے دیں۔ بعد میں خاموشی سے یہ کام بھی سرانجام دے لیا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کی اپنی صفوں میں اختلاف ہے کہ آئی ایم ایف سے کتنا قرض لیا جائے۔ اسد عمر اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جتنی ضرورت ہے، قرض اتنا ہی لیا جائے جبکہ Jahangir Tareen اور ان کے ساتھیوں کا موقف ہے کہ جب آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم ہی کر لی ہیں، بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کر لیا ہے تو آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کا قرض لیا جائے جس پر بات چیت جاری تھی کیونکہ آئی ایم ایف کے قرضے کی شرح سود انتہائی کم ہے۔ آئی ایم ایف کی فرمائش پر روپے کی ملسل بے قدری جاری ہے۔

اندازہ ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ایک ڈالر 150 روپے کے مساوی ہو جائے گا۔ اس وقت بھی پاکستانی کرنسی پورے خطے میں سب سے زیادہ بے قدر کرنسی ہے۔ صرف روپے کی اس بے قدری نے مہنگائی کا وہ طوفان برپا کیا ہے کہ ہر طرف الامان کی آواز ہے۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں تقریباً منجمد ہی ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو ہر مد میں حاصل ہونے والی آمدنی میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ آمدنی میں کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے حکومت ہر شرط پر قرضہ لینے پر مجبور ہے۔ اس وقت حکومت پریشان  کر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو پر ڈنڈا چلا رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع کروایا جائے جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ کئی مدت تو ایسی ہیں جن میں ٹیکس وصولی شرح صفر ہی ہو گئی ہے۔

اس وقت سرکاری لوگ خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ درآمدات کم ہونے سے درآمدی بل کم ہو گیا ہے مگر اس درآمدات کے کم ہونے سے ملکی معیشت پر جو اثر پڑا ہے، اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ درآمدات کم ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ملک میں ان کا متبادل تیار ہونے لگا ہے بلکہ اس کی وجہ لوگوں کی قوت خرید میں زبردست کمی ہے۔ اس کے ساتھ ہی درآمدی ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس میں بھی زبردست کمی آئی ہے۔ ٹیکس اہداف کو پورا کرنے کے لیے حکومت کے جبر کی وجہ سے ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کو جعلی ٹیکس چالان جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔ بلکہ مذکورہ ٹیکس کی بینکوں کے ذریعے براہ راست کٹوتی بھی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان میں سراسیمگی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ ٹیکس حکام اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے جاری کردہ چالان غلط ہیں اور اپیل کورٹ میں پہلی پیشی میں ہی یہ رقومات انہیں واپس کرنا پڑیں گی تاہم ٹیکس حکام کا کہنا ہے کہ اس میں ایک، دو ماہ لگیں گے اور اس عرصے میں موجودہ مالی سال ختم ہو جائے گا۔ اس طرح ان کا ٹیکس کا ہدف پورا ہو جائے گا جبکہ لی گئی زیادہ رقوم کی واپسی کا عمل آئندہ مالی سال سے شروع ہو گا۔ اس طرح کتابوں میں ان کی کارکردگی بہترین رہے گی۔

ایک طرف عمرانی حکومت کی ٹیم اس امر کا اعتراف کر رہی ہے کہ حالیہ سرکاری اقدامات کے نتیجے میں ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکس کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جا رہی ہے تو دوسری جانب ایف بی آر کے الیکٹرک کی طرز پر جعلی چالان دینے اور وصولی کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ ہر حکومت کا وتیرہ ہے کہ وہ کبھی کسی ملک یا ادارے سے حاصل کیے گئے قرض اور شرح سود کو منظر عام پر نہیں لاتی۔ ان شرائط کے صرف وہ چند حصے منظر عام پر لائے جاتے ہیں جو دیکھنے میں دلکش ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ان خفیہ شرائط میں پاکستانی اثاثہ جات کی فوری طور پر نجکاری بھی شامل ہے۔ حالانکہ عمرانی حکومت نے ابتدا ہی میں اعلان کیا تھا کہ نجکاری کی فہرست پر نظرثانی کی جائے گی اور پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل جیسے اداروں کو جو ملک کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، نجکاری کی فہرست سے کر دیا جائے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان اداروں کو مکمل طور پر بحال بھی کیا جائے گا۔

جمعرات ہی کو کراچی میں وفاقی وزیر نجکاری و شہری ہوابازی Mohammad Mian Soomro نے اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران میں انکشاف کیا  کہ کسی بھی ادارے کو نجکاری کی فہرست سے خارج نہیں کیا گیا، صرف موخر کیا گیا ہے۔ Mohammad Mian Soomro نے بتایا کہ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کو بحال کرنے اور منافع بخش بنانے کے بعد فروخت کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان کے ہوائی اڈوں کی نجکاری کا عمل بھی جاری ہے اور اس سلسلے میں کئی مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں سے مذاکرات جاری ہیں۔  اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمرانی حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔

اب آئی ایم ایف کی فرمائش پر جو بھی اقدامات ہوں گے، اس سے ملکی معیشت مزید تباہ ہو گی اور پھر مزید قرض لینے کے لیے نئی شرائط پر عمل کیا جائے گا۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ جوں جوں ملک میں قرض آتا جا رہا ہے ملک کی معیشت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ ملکی مصنوعات اسی وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کر پائیں گی جب لاگت کم ہو گی۔ کھاد، زرعی ادویات اور بیجوں کی قیمتیں روز بڑھ جاتی ہیں تو کس طرح کسان اپنی لاگت پوری کر سکے گا۔ جب بجلی، گیس، پٹرول اور خام مال ہی انتہائی مہنگے داموں دستیاب ہوں گے تو پاکستانی مصنوعات کس طرح سے بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کر پائیں گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر کے مقابلے روپیہ 50 فیصد بے قدر ہو گیا ہے تو ایک عام تنخواہ دار طبقہ کس طرح سے اپنی ضرورتیں پوری کر سکے گا۔ عمران خان کو برسراقتدار آئے محض 8 ماہ ہوئے ہیں اور ان کی کارکردگی یہ ہے کہ ان کے دور میں حاصل کیے گئے قرضوں کی شرح بلند ترین ہے، ان کے دور میں بجلی کے نرخ سب سے زیادہ بڑھائے گئے ہیں، اتنی قلیل مدت میں انہوں نے پاکستانی کرنسی کو جتنا بے قدر کیا ہے، اتنا تو گزشتہ حکومتوں نے پورے 5 برس بھی نہیں کیا ہے۔ وہ اور ان کے وزرا ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ایک، 130 برس کی مشکل اور ہے۔ اس کے بعد ملک میں ہر طرف خوشی کی لہر برسنے لگے گی۔

عمران خان اور ان کے وزرا کا خیال ہے کہ جیسے ہی ملک میں تیل نکلے گا، ملک میں ڈالر کی برسات ہو جائے گی۔ انہیں پتا ہونا چاہیے کہ تیل نکالنے والی کمپنیوں سے ہونے والے معاہدات کیا ہیں۔ پاکستان اپنے ہی ملک سے نکلنے والا تیل ان کمپنیوں سے بین الاقوامی قیمت پر خریدے گا جبکہ کل آمدنی میں سے پاکستان کو محض 12 فیصد رائلٹی ملے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو اس پوری صورتحال سے بے خبر رکھا گیا ہے یا پھر یہ لوگ یوٹوپیا میں رہتے ہیں اور انہیں حقیقت حال سے ذرہ برابر بھی آگاہی نہیں ہے۔ اس عرصے میں پاکستانی صنعت و زراعت کا برا حال ہو چکا ہو گا اور عوام اسی طرح خوشحالی کا پوچھ رہے ہوں گے جس طرح اس وقت پاکستان سے لوٹے گئے مال کی واپسی کا دریافت کر رہے ہیں اور اس کے جواب میں عمران خان آئیں بائیں اور شائیں کر رہے ہیں۔

بہتر ہو گا کہ عمران خان محب وطن معاشی ماہرین کی نئی ٹیم ترتیب دیں جو ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لیے انقلابی حکمت عملی ترتیب دے۔ معاشی قربانی کی ابتدا اوپر سے شروع کریں اور سب سے پہلے پارلیمنٹ کے ارکان کے الائونسز اور تنخواہ میں کٹوتی کی جائے پھر اس کے بعد عوام کو ایک روٹی کھانے کا مشورہ دیا جائے۔ فوج سے بھی عوام کی طرح ٹیکس وصول کیا جائے اور انہیں ایکسائیز ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں میں دی جانے والی مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔ عدلیہ سے تعلق رکھنے والوں کو بھی دیے گئے ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ کیا جائے۔

No comments.

Leave a Reply